نرم و نازک / قربان انجم
وہ اور ہوتے ہیں جو چلے خاموش آتے ہیں
آندھیاں اٹھتی ہیں جب حضرت جوش آتے ہیں
بانی پاکستان کا مزار ہو ، وہاں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی آخری آرام گاہ بھی ہو ، ” ووٹ کو عزت دو “ نعرہ زن متوالوں کا ایک دبنگ کردار ریٹائرڈکیپٹن صفدر بھلا کیوں کر خاموش رہ سکتا تھا۔ پرجوش اور بے طرح نعرے بلند کرتا رہا ۔ میاں محمد نوازشریف کے داماد ، مریم نواز کے شوہر صفدر اعوان کے خلاف اگلے ہی روز ( انیس اکتوبر کو ) پولیس نے قائداعظم کے مزار کا تقدس پامال کرنے ، نعرہ زنی اور دھمکیاں دینے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔
صوبہ سندھ کے محکمہ داخلہ نے کیپٹن ( ر) صفدر کے خلاف مقدمے اور پولیس کی اعلیٰ قیادت سے بدسلوکی اور توہین کی تحقیقات کے لئے صوبائی وزارتی کمیٹی تشکیل دے دی۔ کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرنس میں بتایاگیا کہ اٹھارہ اور انیس اکتوبر کو کیپٹن ( ر) صفدر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لئے پولیس پر ڈالے گئے مبینہ دباﺅ ، آواری ہوٹل میں چھاپہ مار کر مسلم لیگ ( ن ) کی نائب صدر مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی پرائیویسی اور وقار مجروح کرنے کے الزامات کی تحقیقات کرے گی۔
کمیٹی کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ پولیس کی اعلیٰ قیادت کی ” توہین اور بدسلوکی“ کی مکمل تحقیقات سمیت اس واقعے سے منسلک دیگر معاملات پر غور کرے گی۔ صوبائی محکمہ داخلہ نے ان دنوں ایک مراسلہ جاری کیا تھا جس میں بتایا گیا کہ یہ کمیٹی تیس روز میںاپنی مکمل رپورٹ جمع کروا دے گی۔
تجزیہ و تبصرہ کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ تیس روز تیس سال پر بھی محیط ہوسکتے ہیں کیونکہ اس قسم کی کمیٹیوں کی برق رفتاری ان ماہرین پر عیاں تھی مگر جب پاک فوج نے ماسٹر بلاول کے مطالبے پر تحقیقات بلاتاخیر مکمل کرکے عوام الناس کو بھی مطلع کردیا تو کمیٹی کو بھی رپورٹ مرتب کرتے ہی بنی مگر وہ دن جائے اور یہ آئے ، کمیٹی بہادر کا بقیہ کام اپنی جگہ پر قائم دائم ہے۔
اس دوران میں سندھ پولیس نے انکشاف کرڈالا کہ قائد کے مزار پر کیپٹن صفدر کے خلاف دھمکیوں اور نعرے بازی کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔ اس دوران میں سندھ پولیس سے زیادہ گرانقدر کردار وزیراعلیٰ سندھ کا رہا کہ وہ اپنی عزت بچانے اور خود کو ذمہ دار شخص ظاہر کرنے میں بدرجہ اتم کامیاب رہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ن لیگ کے رہنما صفدراعوان کی گرفتاری کے معاملے میں ان کی حکومت کے خاتمے کی دھمکی دی گئی لیکن انھوں نے کہا ” عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔“ انھوں نے اس دوران میں سندھ اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
” ان دنوں بہت کچھ ہوا ہے، کئی چیزیں ہیں جو میں بتاسکتاہوں اور کچھ چیزیں ہیں جو میں نہیں بتا سکتا۔ “
مقتدر اور ذمہ دار شخصیات کا یہی خاصہ ہے کہ وہ کچھ بتاسکتے ہیں اور کچھ نہیں بتاسکتے مگر کیپٹن ( ر ) صفدر مختلف النوع خصائل کی حا مل شخصیت ہیں جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں۔ ممتاز اینکر اور تجزیہ نگار جناب مجیب الرحمن شامی نے ایک مرتبہ آن لائن کہا تھا کہ جناب کیپٹن ( ر) صفدر جب بھی کبھی گویا ہوتے ہیں
’ مجھے مریم نواز پر ترس آتا ہے کیونکہ پتہ نہیں ہوتا ، صفدر صاحب کس وقت کیا کہہ ڈالیں۔‘
مگر جناب شامی کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ہم بھی آج کہہ ہی ڈالتے ہیں کہ جناب صفدر اعوان میدان سیاست کی بلندیوں کو اس حد تک چھو رہے ہیں کہ بڑے بڑے دانشوروں کو اس کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں خود کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے کی ایک درخواست دائر کی تھی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا :
” میں اور میری اہلیہ مریم نواز پی ڈی ایم میں سب سے آگے ہیں، اس لئے ہماری جان کو خطرہ ہے، عدالت سیکرٹری داخلہ اور چاروں صوبوں کی پولیس کو ( مطلوبہ ) سیکورٹی فراہم کرنے کا حکم صادر کرے۔“ ہائی کورٹ نے یہ درخواست اس بنیاد پر مسترد کردی کہ ہر شہری کو سیکورٹی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، عدالتی ہدایت کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ ریاست نے کچھ کو خاص اور کچھ کو عام سمجھا ہوا ہے۔ عدالت توقع کرتی ہے کہ ریاست آئینی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے تمام شہریوں کو بلاتفریق سیکورٹی فراہم کرے گی۔
بات شروع ہوئی تھی بانی پاکستان کے مزار پرجناب صفدر اعوان کے نعروں سے جو کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ اصل میں جب بھی کسی نادر الوجود شخصیت کی Novel قسم کی بات شروع ہو اسی قسم کے مظاہر و مناظر نظر نواز ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کو ایک پاکستانی شہری کی جانب سے ایک درخواست پیش کی گئی ہے کہ جناب صفدراعوان نے مزار قائد پر قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں، اس قسم کی دل آزار حرکت پر چشم پوشی ناقابل برداشت ہونی چاہئے
جبکہ جناب صفدر اعوان نے اپنے خلاف الزام پر جو صفائی پیش کی تھی اس سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔ ان کا کہنا تھا میں نے” ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے کی حقیقت نمایاں کرنے کے لئے قائد کی جلیل القدر ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بلندآواز میں مخاطب کرتے ہوئے پکارا تھا،
” اماں جان! امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے“
کیپٹن ( ر) صفدر کے جاں نثار پارٹی کارکنوں کا کہنا ہے، مادر ملت کے لئے زبانی جمع خرچ کرنے والے تو بہت ہیں مگر انھیں دل سے ’ اماں جان ‘ کہنے والا ایک ہی پیدا ہوا ہے۔ کالم کے افتتاح پر عرض کئے گئے شعر کے مصرع ثانی میں یہ تصرف مناسب معلوم ہوتا ہے کہ
آندھیاں اٹھتی ہیں جب صفدراعوان آتے ہیں