بنت شیروانی :
کئی دنوں بعد فون پر اپنی قریبی جاننے والی سے بات ہورہی تھی۔ ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ اس کا بچہ آیا اور کہنے لگا :
” امی ! پیسے دے دیں ، چیز خریدنی ہے۔“
باہر کوئی چیزیں بیچنے والا آگیا تھا اور بچہ بضد تھا کہ اسے وہ خریدنا ہے۔ اور پھر چار و ناچار اس نے اسے پیسے دئیے اور پھر باتیں کرنے لگی۔ باتوں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ شادیوں کا ذکر چل نکلا۔ وہ کہنے لگی کہ میری خالہ زاد بہن کی شادی تھی لیکن میں تو نہیں جاسکی۔ “
ہم نے حیرت سے پوچھا کہ ” سب خیریت تو تھی؟ تم نے اتنی قریبی شادی میں شرکت کیوں نہیں کی؟بچے وغیرہ بیمار تھے کہ ساس سسر؟ “
اس پر اُس نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ” بہن بیمار تو کوئی نہ تھا۔ اور گھر میں بھی سب خیریت تھی۔ویسے۔۔۔۔۔ بس نہ پوچھو تو بہتر ہے۔ “
اب تو ہمیں اور تجسس ہوا (آخر کو عورت جو ٹہرے) لہذا ا سے کریدنا شروع کیا کہ پھر آخر بات کیا تھی؟ کیا خالہ سے جھگڑا چل رہا تھا یا خالو سے خفا تھیں کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھتیجے سے کر رہے تھے۔اور تمھیں غصہ اسی بات پر تھا کہ میرے پیارے خوبصورت بھائی کو تو ریجیکٹ کر د یا اور کالے کلوٹے لڑکے سے اپنی بیٹی کا بیاہ کرا رہے ہیں۔“
اب تو وہ جھنجھلائی کہ ” تم بھی جب تک بات کی تہہ تک نہ پہنچ جاؤ تمھیں سکون نہی ملتا۔“
” بہن ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ دراصل بات یہ ہے کہ شادی بیاہ یا اور تقریبات میں جانا آسان تھوڑی ہے۔ سب سے پہلے تو ڈھنگ کے کپڑے ہوں۔ پھر رکشہ یا ٹیکسی کا کرایہ اور اُس کے ساتھ ہی لینا دینا۔اچھا خاصہ خرچہ ہوجاتا ہے ایک ہی تقریب میں جانے کے لئے۔ “
” اچھا چلو کپڑے بھی ہم بہن بھائی بھی ایک دوسرے کے بچوں سے ادل بدل کرا کے پہنا لیتے ہیں۔اور یہ بندہ آنے جانے کا کرایہ بھی برداشت کر لے لیکن یہ دینا دلانا بڑا بھاری پڑ جاتا ہے۔ پانچ سو سے کم تو نظروں میں ہی نہیں آتے۔ پھر اپنے قریبی کی شادی ہو تو اور زیادہ۔ “
اب اسی مہینے میرے ماموں زاد بھائی کی بھی شادی تھی تو دیور کا بچہ بھی پاس ہوا۔اسے بھی دینا پڑا کہ انھوں نے پوری تقریب رکھی تھی۔ اب بتاؤ ایک کمانے والا اور یہ سو خرچے۔“
جب وہ یہ سب بول کر لمحہ بھر کے لئے رکی تو ہم نے کہا کہ ” اس کا کوئی حل بھی تو نکالا جاسکتا ہے؟؟؟ “
” ہائیں کیا حل ؟؟؟ کیسا حل؟؟؟ کیا یہ ریاضی کا سوال ہے جو تم تقریبات میں جانے کے لئے بھی حل نکال رہی ہو۔ ”
ہم نے اس سے کہا : ” اس فون کو ذرا اپنے قریب کرو۔ “
اب تو وہ مزید پریشان ہوئی کہ اس کو قریب کرنے سے کیا ہوگا؟
” ارے بھئی تمھیں آواز ٹھیک سے سنائی دے گی اور تم غور سے ہماری بات سُن لو گی۔“
کہنے لگی ” یہ کیا بات ہوئی بھلا “ ۔اور پھر جھنجلاتے ہوئے کہنے لگی کہ ” اچھا کہو۔“
اب ہم سرگوشی کے انداز میں اس سے کہنے لگے کہ ایسا کیا کرو کہ لفافہ پر یا تحفہ پر نام لکھے بنا دے دیا کرو۔ اور اس کے لئے اپنے ساتھ اور بھی دیگر کئی خواتین کو ملا لو جنھیں اس تقریب میں جانا ہو بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ تقریب میں کوئی دو خواتین ایک جیسے پندرہ سے بیس لفافہ اور گوند یا یو ایچ یو کی ٹیوب بھی لے آئیں کہ جس جس نے پیسے دینے ہوں ، وہ ان ایک جیسے لفافوں میں پیسے رکھیں اور دے دیں بنا نام لکھے ۔ اور ساتھ ہی گفٹ پیپرز کو بھی کاٹ کر لے آئیں تاکہ جنھوں نے تحفوں پر نام لکھ بھی لئے ہوں کہ کوئی تحفوں پر نام لکھ کر لے آیا ہو تو اُن ناموں کی جگہ پر وہ گفٹ پیپر لگا دئیے جائیں تاکہ وہ نام بھی چھپ جائیں۔“
اب اس نے انتہائی تجسس سے پوچھا کہ
” اچھا ، یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ تو بتاؤ کہ اس سے ہوگا کیا؟؟؟؟
کیا تحفہ وصول کرنے والا سوچتا نہیں رہے گا کہ یہ دیا کس نے ہے؟؟؟؟“
” ارے سوچتا ہے تو سوچے۔ ویسے اسے تحفہ سے مطلب ہونا چاہیے نہ کہ نام سے کہ کس نے دیا؟؟؟
اب وہ پھر جھنجلائی اور کہنے لگی کہ بنا ناموں کے تحفوں یا لفافوں کو دینے کا آخر مقصد کیا ہے ؟؟؟؟
یہ بھی تو بتاؤ۔ “
اب ہم نے اپنا سر پکڑا اور زبان پر آتے اس جملہ کہ (موٹی عقل والی بہنا ) کو روکتے ہوئے بس یہ کہنے لگے کہ اس سے تو سب سے پہلے بہت سے افراد جو اسی لینے دینے کے چکر میں تقریبات میں شرکت نہیں کر پاتے کہ اُن کے پاس اس وقت پیسے نہیں ، وہ شرکت کر لیں گے کہ کسی کو پتہ نہی چلے گا کہ کس نے ہزار روپے دیئے تو کس نے سو روپے ۔
اور پھر ساتھ ہی ان لفافوں کو ، تحفوں کو وصول کرنے والے بھی دینے والے کی محبتوں کو یکساں سمجھیں گے۔ مہمانوں کا آنا ہی ان میزبانوں کے لئے بہت زیادہ مسرت کا باعث ہوگا کہ وہ اپنا قیمتی وقت نکال کر تقریب میں شرکت کے لئے آئے۔
ویسے بھی ایک متوسط طبقہ کا شخص بھی ایک ماہ میں دو قریبی شادیوں یا ایسی ہی عقیقہ وغیرہ کی تقریبات آنے پر قرض دار ہوجاتا ہے یا پھر وہ بے چارا شرکت ہی نہیں کر پاتا۔ لہذا وہ شریک ہو جایا کرے گا۔ یہاں تک کہ خالی لفافہ دینے پر بھی کوئی نہیں ہچکچائے گا ۔ آنے جانے کا کرایہ ہوگا تو وہ کم از کم شرکت تو کر لے گا۔
اس نے جب یہ سنا تو کہنے لگی: ” ویسے کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ اور یہ روایت قائم کی بھی جاسکتی ہے۔ خاندان میں جب کسی کی شادی آئے تو اس سے پہلے کم از کم کزنز وغیرہ سے بات کر کے یہ انتظام کیا جاسکتا ہے ، خالی لفافے بیس کیا میں تو پچیس لے جایا کروں گی اور گفٹ پیپر بھی کاٹ کر لے جانا کیا مسئلہ ہے UHU tube کے ساتھ ، ہفتہ بھر پہلے ہی یہ تینوں چیزیں اپنے پرس میں رکھ لیا کروں گی۔ اپنوں سے بات کر کے ایسا ہی کیا کروں گی۔ “
تو معزز قارئین میری وہ جاننے والی تو اس بات کے لئے آئیں بائیں شائیں کئے بغیر ہی راضی ہوگئی، کیا آپ بھی اس اچھی روایت کو قائم کرنے کے لۓ تیار ہیں؟؟؟
کر بھلا تو ہو بھلا