مشرقی پاکستان مظلوم خاتون

مشرقی پاکستان سے آنے والی کوثر کا غم

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نبیلہ شہزاد :

چند دن پہلے میری بہن نے مجھے فون کیا تو بڑے غمگین لہجے میں بتانے لگی:
” باجی ! آج پھوپھو کوثر کا ایکسیڈنٹ سے انتقال ہو گیا ہے۔“
” اناللہ وانا الیہ راجعون “ بے ساختہ میری زبان سے نکلا۔

باجی ابھی کل پھوپھو میرے پاس آئی تھی۔ پچھلی باتوں کے ساتھ ساتھ ایک نئی بات کہی کہ
” دیکھنا! اب جلد ہی میں بھی اپنے امی، ابو اور بہن بھائیوں کے پاس چلی جاؤں گی۔“

ہائے۔۔۔۔ کیا معلوم تھا کہ وہ اس طرح جائے گی۔

پھوپھو کوثر دس، گیارہ برس کی تھیں جب اپنی ادھیڑ عمر کی پھوپھی کے ساتھ ہمارے گاؤں میں آئی۔ یہ جنوری 1972 ء کا زمانہ تھا۔ کوثر ایک ڈری، سہمی ہوئی بچی، زبان سے کچھ نہ بولتی سب کو خوفزدہ نظروں سے دیکھتی، اپنی پھوپھو سے ایک پل نہ جدا ہوتی۔ ان بے آسرا وبے سہارا پھوپھی بھتیجی کو کچا پکا، ایک کمرہ پر مشتمل چھوٹا سا گھر دے دیا گیا۔

ہمارا گاؤں چھوٹا سا تھا لیکن سارے گاؤں کے لوگ کوثر کی پھوپھی اماں فاطمہ کو چاول، گندم، سبزی ، دودھ، غرض کہ جو بھی سہولت کے ساتھ جو دے سکتا وہ ضرور دیتا۔

پاکستان کے دو لخت ہونے پر مشرقی پاکستان میں فسادات کے دوران یہ دونوں پھوپھی بھتیجی اپنے خاندان سے بچھڑ کر کسی ہجرت کرنے والے خاندان کے ساتھ مغربی پاکستان میں آگئیں۔ یہ دونوں نہیں جانتی تھیں کہ ان کا خاندان زندہ ہے یا نہیں، وہ سب اکھٹے ہیں یا آپس میں بچھڑ چکے ہیں ۔

ان فسادات، قتل و غارت اور افراتفری کا بچی نے گہرا صدمہ لیا اور اس کا اس کے دماغ پر اثر پڑ گیا۔ اب وہ دیکھنے میں تو نارمل نظر آتی تھی لیکن اس کا ذہن ایک زمانے پر ہی اٹک گیا ۔ وہ مرتے دم تک یہی سمجھتی رہی کہ اس سے چھوٹے چار بہن بھائی ابھی چھوٹے چھوٹے ہی ہیں۔ جب وہ ان سے ملے گی تو ان کے ساتھ خوب کھیلے گی۔ اس کے گھر کی بکریوں نے بچے دے دیے ہوں گے۔ اس کی امی ابو اسے مل کر بہت خوش ہوں گے۔

وہ جب بھی ہمارے گھر آتیں یہی باتیں دہراتیں۔

یہ دل دکھانے والا حادثہ، صرف ایک کوثر اور اس کی پھوپھی کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ پاکستان بٹنے کے ساتھ کئی خاندان بھی آپس میں بچھڑ گئے۔ یہ الم ناک و درد ناک تلخ حقائق ہیں۔ جب بھی کسی فرد یا قوم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنے اعمال کا جائزہ لیں۔ کہاں ہم سے کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں؟

سقوط ڈھاکہ ہو یا سانحہ پشاور، ان کی جانچ پڑتال کر کے دیکھ لیں۔ اپنوں کی غداری کی آلودگی ضرور نظر آئے گی۔ پاکستان کی علیحدگی کا منصوبہ راتوں رات تیار نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے دشمنوں کی مسلسل 23 سالہ محنت کوششیں تھیں ۔ دکھ صرف اس بات کا ہے کہ ہمارے اپنے لوگ آلہ کار بن گئے۔ چاہے اس کے پیچھے عوامل لالچ ہے یا بے علمی۔

قیام پاکستان میں بنگالی مسلمانوں کی کوششیں کسی طرح سے کم نہ تھیں اور پاکستان کے دو لخت ہوتے وقت بھی انہوں نے اپنی محبت و وفاداری کا ثبوت دیا۔ اور آج بھی وہاں کے لاکھوں مسلمانوں کے دل کے لیے ہی دھڑکتے ہیں۔

موم بتی مافیا سولہ دسمبر کا دن، موم بتیوں کی دھیمی روشنی کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتی ہے لیکن ہمیں یہ دن اس عزم کے ساتھ منانا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم،” را “ آئندہ ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جسارت بھی نہ کرے ورنہ ہمارے آہنی حوصلوں والے جوان انھیں نیست و نابود کر دیں گے۔

اپنے لوگوں کو آگاہی دینی ہے کہ وہ کہیں کسی لالچ یا لا علمی میں ان کے آلہ کار نہ بن جائیں کیونکہ مومن آپس میں ایک دوسرے کے لئے بڑے ہی نرم اور دشمن کے لیے خوب سخت ہوتے ہیں۔ اللّہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں