ڈاکٹرشائستہ جبیں
[email protected]
سوشل میڈیا پر ہر چیز کے چرچے نے لوگوں کو خود نمائی کے نت نئے طریقے اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ خاص طور پر شادی بیاہ کی تقریبات نے تو باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس وقت ہمارا موضوع شادیوں کی یہ تقاریب نہیں ہیں، لیکن یہ تحریر سوشل میڈیائی دنیا کی ان ہی چکا چوند والی، پڑوسی ملک کی فلموں اور ڈراموں سے متاثر اذہان کے ساتھ، ان ہی کی نقالی میں بنائی گئی سجاوٹوں اور رسموں والی ایک شادی کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر ذہن میں آیا۔
یوں تو آج کل ہونے والی ہر شادی ہی کسی فلم کی شوٹنگ سے کم نہیں ہے، لیکن اس شادی میں جو خاص بات تھی، ایسی شادی جس میں ہفتہ بھر کی مختلف النوع تقاریب جن میں بلاشبہ کروڑوں روپے دل کے ارمان پورے کرنے پر صرف کیے گئے، کا آغاز مذہبی ٹچ دینے کے لیے محفلِ نعت سے کیا گیا۔
محفلِ نعت بھی کیا تھی؟ ایک پورا سجا سجایا منظر، جس میں سجاوٹ سے لے کر شرکاء کے لباس اور نعت خواں پر نچھاور کیے جانے والے نوٹوں سمیت سبھی کچھ آرائشی و نمائشی تھا۔ اس کے بعد ہفتہ بھر کی رنگا رنگ تقاریب، جن میں سے ایک کا بھی مذہب سے کوئی سابقہ نہیں۔ رقص، موسیقی، مخلوط محافل، غیر ضروری آرائش، نمودونمائش غرض کہ طوفان بدتمیزی تھا، جو پورے فخر سے دل کے ارمان پورے کرنے کے نام پر برپا کیا گیا۔
محفلِ نعت اور نکاح کے ذریعے مذہبی رسوم بھی پورے ہو گئیں اور دولت کے اسراف کے ذریعے اور سوشل میڈیا پر ساری تقریبات کی تصاویر اور ویڈیوز لگوا کر شہرت اور جدیدیت کی سند بھی مل گئی۔
یہ دورخی یا منافقت محض شادی بیاہ کے معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ زہرِ قاتل معاشرے کے ہر فرد کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ قول و فعل میں تضاد، منافقت اور دورخا پن ناسور کی طرح معاشرے میں پھیل رہا ہے اور ہمیں اس سے ہونے والی نفس کی ہلاکت اور بربادی کا احساس تک نہیں ہو پا رہا۔
ایک نام نہاد دین دار گھرانے کی خاتون نیک سیرت بہو کی تلاش میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، سلجھی ہوئی فیملی میں گئیں اور فرمایا کہ آپ کی بچی تو سر اور جسم پوری طرح ڈھانک کر رکھتی ہے، میرا بیٹا سرکاری افسر ہے اور بہو کو اس کے ساتھ مختلف تقاریب میں جانا ہو گا، وہاں تو اس طرح کا ڈھکا چھپا لباس نہیں پہنا جائے گا، اگر بچی تقریبات کی مناسبت سے لباس (جس میں ظاہر ہے، سر ڈھانپنا اور باپردہ لباس ہونا غیر ضروری ہے) پہننے کو تیار ہو، تو پھر ہی وہ رشتہ کر سکیں گے، کیونکہ یہ ان کے بیٹے کی شرط ہے۔
خود سر سے پیر تک باپردہ، شوہر باریش اور ننگے ٹخنے رکھے، کرتا زیب تن کیے ہوئے اور بہو کے لیے ان کا معیار سن کر اہل خانہ منافقت کا یہ نیا روپ دیکھ کر دنگ تھے کہ کیا با پردہ لباس میں کسی سرکاری افسر کی بیوی تقریب میں شرکت نہیں کر سکتی؟ اور کیا باپردہ لباس صرف گھر کے اندر پہننے تک ہو گا اور باہر جاتے ہوئے جب تک بے پردگی کی یقین دہانی نہ کرا دی جائے، رشتہ نہیں ہو گا.
دوغلے پن کے حوالے سے المیہ تو یہ ہے کہ جو لوگ منافقت اور دورخا پن نہیں کر سکتے، انہیں بے وقوف قرار دے کر ان کی ناقدری کی جاتی ہے، اس معاشرے میں سمجھداری اور ہوشیاری کی سند صرف اس شخص کے پاس ہے جو دوغلا ہے اور ہر ایک کو مصنوعی طریقے سے خوش کر سکتا ہے.
یونیورسٹی میں دوران تعلیم اکثر دیکھا کہ بہت سی لڑکیاں جو باقاعدگی سے پردہ کرتی تھیں، کسی سیر یا ڈپارٹمنٹ میں ہونے والی سالانہ تقریب میں بال کھولے، پوری طرح میک اپ زدہ ہو کر شامل ہوتی تھیں اور بعد میں کلاس فیلوز کے کمنٹس مزے لے لے کر بتایا کرتی تھیں۔
اسی طرح کا ایک منظر یونیورسٹی بس میں دیکھا، جب دو طرح دار حسینائیں جو سارا رستہ معنی خیز جملے بازی اور ہنسی مذاق میں مصروف رہیں، ایک دم بیگ سے برقعے نکال، میک اپ صاف، بال باندھ کر، نقاب اوڑھے ہماری آنکھوں کے سامنے مطلوبہ سٹاپ پر اتر گئیں. یہ واقعہ بعد میں بھی کئی دن تک ذہن میں گھومتا اور پریشان کرتا رہا۔
عملی زندگی میں قدم رکھا تو معلوم ہوا کہ اب تک جو دورخا پن دیکھا تھا، وہ تو کچھ بھی نہیں تھا، اصل منافقت تو عملی زندگی گزارنے والے لوگوں کے رویوں کا حصہ ہے، جہاں لوگ اپنے در رخے پن پر فخر کرتے ہیں، سینئرز کی چاپلوسی، خوشامد اور ہاں میں ہاں ملانے کو فرض اولین سمجھتے ہیں اور جونیئرز کو بطور انسان جینے کا حق دینا بھی غیر ضروری سمجھتے ہیں،
اپنے ساتھ ماضی میں ہونے والی نا انصافیوں کا بدلہ نئے آنے والوں سے لے کر اپنی پتہ نہیں کون سی حس کو تسکین دیتے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ اپنے منہ سے خود کو میاں مٹھو ثابت کرنے پر بھی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے. یہ محض چند مثالیں ہیں، ورنہ لوگوں کے دہرے معیار بیان کرتے واقعات تحریر کرنے بیٹھیں تو شاید صفحات ہی کم پڑ جائیں.
سوال یہ ہے کہ اس قسم کے دورخے یا منافقت والے رویوں سے ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں؟ اللہ کو، خود کو، اہل خانہ کو، دوستوں یا جاننے والوں کو یا پورے معاشرے کو؟ آخر ایسا کون سا احساس کمتری ہے جو ہمیں اس طرح کی حرکتیں کرنے پر مجبور کرتا ہے؟
منافقت کے معنی ہیں : ” اپنے قول و فعل اور عمل سے وہ کچھ ظاہر کرنا جو دل میں موجود عزائم کے خلاف ہو.“
اللہ تعالیٰ نے جہنم کا سب سے نچلا درجہ منافقین کے لیے مخصوص کر رکھا ہے. ارشاد ہوتا ہے:
ان المنافقین فی الدردک الاسفل من النار (النساء 4 :145)
ترجمہ :بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے.
خواہ یہ منافق، نفاق اکبر (بڑی منافقت یعنی دل میں کفر اور شرک رکھتے ہوں اور بظاہر خود کو اہل ایمان قرار دیتے ہوں)، یا نفاق اصغر ( چھوٹی منافقت یعنی اہل ایمان تو ہوں، لیکن اعمال اچھے نہ ہوں)، اعتقادی نفاق والے، جن کی سوچ اور نظریات درست نہ ہوں یا عملی منافقت والے جن کی سوچ تو درست ہو لیکن عمل اس کے مطابق نہ ہو، ان سب کا ٹھکانہ جہنم کا یہ نچلا درجہ ہو گا.
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :
” جس میں یہ چار خصلتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نِفاق کی خصلت ہے، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے.
اول : امانت میں خیانت کرنا
دوم : بات کرنا تو جھوٹ بولنا
سوم : وعدہ خلافی کرنا
چہارم : جھگڑا کرنا تو پھٹ پڑنا یعنی بے حیائی پر اتر آنا
(بخاری و مسلم)
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا : ” لوگوں میں سب سے برا شخص وہ ہے جو دو منہ رکھتا ہے. ان لوگوں کے پاس ایک منہ لے کر آتا ہے اور ان لوگوں کے پاس دوسرا منہ لے کر جاتا ہے۔“ (صحیح مسلم)
یہ وہ منافقت ہے جو اس وقت ہمارے معاشرہ میں عام ہے، خصوصاً ملازمت پیشہ مرد و خواتین اس دو رخے رویے کو اپنے افسران اور ساتھیوں کے ساتھ مہارت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں. ساتھیوں کا دوست اور خیر خواہ بن کر تمام حالات سے آگاہی حاصل کرنا اور پھر افسران بالا کو یہ خبریں پہنچانے والا فرد، ہر ادارے میں موجود ہوتا ہے اور اپنی اس صلاحیت کے باعث افسران کی ناک کا بال بنا رہتا ہے.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا گیا کہ ہم حکمرانوں اور سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو کچھ اور بات ( یعنی ان کی تعریف) کرتے ہیں اور جب وہاں سے نکلتے ہیں تو اس بات کے خلاف بات کرتے ہیں، تو ابنِ عمر نے فرمایا:
” ہم اسے منافقت میں گِنا کرتے ہیں “۔ منافقت اور دوغلا رویہ وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جو خود کو ضرورت سے زیادہ ہوشیار سمجھتے ہیں۔ اگر یہ نیک لوگوں سے ملیں تو ایسے کہ ان سے زیادہ نیک اور کوئی نہیں ہے اور شیطان صفت لوگوں کی محفل میں ہوں تو نیکو کاروں کا مذاق اڑانے لگ جاتے ہیں۔
منافقت کی اصل جڑ ” مفاد پرستی “ ہے. بعض لوگ دنیاوی مفاد کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس کے لیے تمام اخلاقی اصولوں کو فراموش کر دیتے ہیں، ان کی زندگی میں مذہب، اصول، اخلاق، کردار کی نہیں بلکہ اپنے مفاد کی اہمیت ہوتی ہے اور اس کے لیے وہ ہر اچھے برے سے بنا کر رکھنے کے قائل ہوتے ہیں تا کہ جس طرف سے بھی کوئی فائدہ ملے، حاصل کر سکیں.
منافقت کی جو علامتیں قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھ آتی ہیں وہ یہ ہیں، ان علامات کے بیان کا مقصد ہر شخص کے لئے اپنے احوال اور معاملات کا جائزہ لے کر ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کرنا ہے.
اول : ایمان کا صرف زبانی دعویٰ کرنا.
دوم : توحید اور عقیدہ آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر ایمان کو اس قدر ضروری نہ سمجھنا.
سوم : دھوکہ دہی اور مکر و فریب کی نفسیات کا پایا جانا.
چہارم : یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں.
پنجم : جھوٹ بولنا.
ششم : دوسروں کو بے وقوف اور خود کو اہلِ عقل و دانش سمجھنا.
ہفتم : کردار میں دوغلا پن اور ظاہر و باطن میں تضاد.
ہشتم : اپنے ساتھیوں پر طعنہ زنی، طنز کرنا اور ان کا مذاق اڑانا.
نہم : باطل کو حق پر ترجیح دینا.
دہم :تنگ نظری اور دشمنی میں اس حد تک چلے جانا کہ کان حق بات نہ سن سکیں، زبان حق بات نہ کہہ سکے اور آنکھیں حق نہ دیکھ سکیں.
یازدھم : حق کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا.
دوازدھم : اہل حق کی کامیابی پر حیران رہ جانا اور ان سے حسد کرنا.
اصل میں منافقت اور دوغلے رویے رکھنے والے لوگ بزدل ہوتے ہیں. ان کے اندر اپنی اصلیت تسلیم کرنے اور خود کی اصلاح کرنے کی صلاحیت اور اہلیت نہیں ہوتی، وہ اپنی شخصی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے تمام عمر منافقت کے لبادے کا بوجھ اٹھائے خود کو ہلکان کرتے رہتے ہیں،
اس حقیقت سے بے خبر کہ ایک علیم و خبیر ہستی ایسی بھی ہے کہ جو ظاہر و باطن سب جانتی ہے. جو دلوں میں چھپائی باتیں اور اسرار تک جاننے پر قادر ہے اور جس نے نیک نیتی، اچھی سوچ کو بھی اجر کا باعث قرار دیا ہے.
منافقت اور دوغلا رویہ ایک دھوکہ ہے، جو آپ خود کو دے رہے ہیں، ایسی بیماری ہے جو غیر محسوس انداز میں آپ کے اندر کو کھوکھلا کر دیتی ہے. اپنی اس کمزوری کا احساس کیجئے. اپنے اندر کی کمزوریوں کو اس عظیم ذات کے سامنے عیاں کر کے، اس سے مدد مانگیں، جو ہر کمزور، بے بس اور توبہ کرنے والے کی فریاد سنتا اور قبول کرتا ہے.
اپنی غلطیوں اور خامیوں پر اڑ جانے کی بجائے خود کو ان سے آزاد کرانے کی کوشش کیجئے، تاکہ آپ کی دنیا و آخرت دونوں خوشگوار ہوں اور آپ منافقت کے اس نادیدہ بوجھ سے آزاد ہو سکیں کیونکہ بقول شاعر
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بہت کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستانِ گلاب لکھنا
5 پر “یہ طرزِ منافقت !” جوابات
Boht behtreen tehreeric topic ky havaly sy.. Hipocracy ky esy hi pehlo nzr aty hen hr jgah jo ap ny beyaan kiye sachaee ky sath.. Allah hm sb ko esi buraee sy bachay ..Ameen
Bhttttt hi khoobsoorat tehreer…Ma sha Allah…
🌸🌸🌸Very nice
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے ایمان کو محفوظ رکھے،منافقت اور دوغلے پن سے بچائے۔آمین
بہت خوبصورت تحریر ہے بہت ا چھے سے معاشرے کی عکاسی کی ہے یہ ایسی بیماری ہے جو ہمارے رگ و جاں میں سرائیت کر چکی ہے ہماری قوم کو اخلاقی تربیت کی بہت ضرورت ہے
Nice topic👍. . hypocrisy is very very common now a days..Allah hum sbkoo is buraiii sy buchaye..ameenn