جنرل نیازی 1971

سقوطِ ڈھاکہ کی بعض وجوہات جن سے اکثر پاکستانی لاعلم ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طوبیٰ ناصر:

بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، جسے بنگالی میں مکتی جدھو اور پاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے، پاکستان کے دو بازوؤں، مشرقی و مغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی۔

جنگ کا آغاز 26 مارچ 1971ء کو علیحدگی پسندوں کے خلاف پاک فوج کے عسکری آپریشن سے ہوا جس کے نتیجے میں مقامی گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں (جنہیں مکتی باہنی کہا جاتا ہے) نے عسکری کارروائیاں شروع کیں اور افواج اور وفاق پاکستان کے وفادار عناصر کا قتل عام کیا۔

مارچ سے لے کر سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جو ہم پچھلے 49 سالوں سے پڑھتے اور پڑھاتے آ رہے ہیں۔

اس میں مزید وجوہات بھی شامل کر لیں تو اس تقسیم کا ذمہ دار فوجی حکمران جنرل آغا محمد یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو قرار دیا جاتا ہے جو بلاشبہ ذمہ دار ہیں لیکن دیگر وجوہات کو دیکھنا بھی ضروری ہے اور ان سے سبق حاصل کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ جو سیاسی زیادتیاں ہوئیں وہ ایک حقیقت ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ جو پیدا ہوا وہ ’’ بنگالی زبان‘‘ کو ’’سپیشل سٹیٹس‘‘ دینے کا مطالبہ تھا۔ مغربی پاکستان صر ف اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے پر تیار تھا۔

1948 ہی میں مشرقی پاکستان کے عوام نے کرنسی نوٹوں اور ڈاک کی ٹکٹوں سے بنگالی زبان کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔اس تحریک (بھاشا اندولن) کو عروج 21 فروری 1952 کو ملا جب پولیس نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر گولی چلا دی اور دو طالب علم ہلاک اور بیسیوں زخمی ہو گئے۔ ( اس واقعہ کی یاد میں 1999 سے آج تک UNESCO،21 فروری کو مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر مناتی ہے۔)

مشرقی حصے کی آبادی متحدہ پاکستان کی آبادی کا 55 فیصد تھی۔ آبادی کا بڑا حصہ ہونے کے باوجود وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ تھی۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق 1955-60 کے پانچ سالہ منصوبہ میں 55 فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان پر متحدہ پاکستان کے بجٹ کا 31 فیصد خرچ کیا گیا۔

1958ء میں مارشل لاء نے بنگال کی سیاسی قوتوں کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا ۔ فوج کے سینئر رینکنگ میں صرف دو بنگالی افسر تھے جن میں ایک کرنل اور ایک میجر جنرل تھا ۔لہذا مشرقی پاکستان کے بھائی یہ سوچنے پر مجبور تھے اگر فوج نے حکومت کرنا ہے تو اقتدار تک ہماری کبھی رسائی نہ ہوگی ۔ ون یونٹ کے قیام کا مقصد بھی مشرقی پاکستان کے ووٹوں کی طاقت کو کم کرکے مغربی پاکستان کے برابر لانا تھا ۔ 56 فیصد اور 44 فیصد کو برابر قراردیا گیا ۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ مغربی پاکستان کی نوکر شاہی نے سول اور ملٹری بیوروکریسی سے ساز باز کرکے قومی اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے سیاسی کارکنان کا بری طرح استحصال کیا ۔ خصوصاً عدلیہ کا کردار نہایت شرمناک اور بزدلانہ رہا ۔

مشرقی پاکستان کے ہر ضلع کا ڈی سی اور ایس پی مغربی پاکستان سے جاتا تھا ۔ مادر ملت نے جب شمع جمہوریت روشن کی تو مشرقی پاکستان کی ساری قیادت آپ کے ساتھ کھڑی نظر آئی ۔ جنرل ایوب نے الیکشن میں جعلی نتائج جاری کرکے محترمہ کو ہرادیا جو مشرقی پاکستان کی جمہوری قوتوں اور عوام کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا ۔

بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی ۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے سپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیزالدین کے ساتھ بھی ہتک آمیز سلوک کے واقعہ نے بھی دلوں میں دراڑ ڈال دی۔ اس کے بعد 1965ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کی عوام نے دیکھا کہ ساری قوت مغربی محاذ کی حفاظت پر مامور ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ مغربی محاذ سے دبائو بڑھا کر مشرقی حصے کا دفاع ہوگا ۔

اس حکمت عملی کے سبب بنگالی عدم تحفظ کا شکار ہوئے ۔ پھر شیخ مجیب الرحمن کو اگرتلہ سازش کے تحت گرفتار کیا گیا مگر عدلیہ سے فیصلہ نہ لیا گیا جس سے شیخ مجیب الرحمن بنگالی قوم کا واحد لیڈر بن کر ابھرا ۔ 1969ء میں ایوب خان نے بیماری کے سبب صدارت چھوڑی تو قانون کے مطابق قائم مقام صدر سپیکر قومی اسمبلی کو ہونا چاہیے تھا مگر سپیکر بنگالی ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا ۔ اقتدار ایک دوسرے جرنیل کو منتقل کر دیا گیا ۔

1970ء میں ہونے والے عام انتخابات اور ان کے نتائج کو تمام پارٹیوں نے تسلیم کیا ۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی جسے اقتدار منتقل نہ ہوسکا۔ اس بے اعتمادی ، نااتفاقی اور جمہوریت کش پالیسی کے سبب پاکستان کے دونوں بازوئوں کا چلنا محال تھا لہذا قیادت کی ناکامی، بین الاقوامی سازش ، بھارتی جارحیت اور مشرقی پاکستان کے باسیوں کی محرومی نے پاکستان کو دو لخت کر ڈالا ۔ قائد اعظم کا پاکستان آدھا رہ گیا ۔

مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں 95 فی صد ہندو اساتذہ تھے جو دو قومی نظریہ کو نابود کرنے کے لئے برسرپیکار رہے ۔ مغربی حصے کی جانب سے جاری ناانصافیوں اور بدفعلیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے جس سے نئی نسل کے جذبات بڑھکانے اور طیش دلانے کے کام آتے ۔

مالیاتی وجوہات میں پٹ سن سے کل ملکی درآمدات کا پچھتر فیصد کا جس سے پچانوے فیصد مغربی پاکستان پر خرچ ہوتا ۔ میڈیا بھی سرکاری گرفت میں تھا جو عوام پر ہونے والی زیادتیوں پر تبصرے سے گریز کرتا ۔ ملک مذہب کی بنیاد پر حاصل ہوا مگر مغربی پاکستان کی افسر شاہی بنگالیوں سے ہتک آمیز سلوک کرتی ۔ اسلامی رواداری اور بھائی چارہ کسی سطح پر نظر نہ آیا ۔

انہی رویوں کے خلاف شیخ مجیب نے مشہور زمانہ چھ نکات پیش کئے جن میں پونے چھ نکات پاکستانی قیادت ذوالفقار علی بھٹو نے تسلیم نہیں کئے۔ اس پر بھی شیخ مجیب مذاکرات کے لئے تیار تھے مگر کسی نے بات کرنا مناسب نہ سمجھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا رویہ بہت لاپرواہ اور سخت تھا وہ حصول اقتدارکے لئے بے تاب اور بے قرار تھے اس لیے اس حوالے سے انتہائی لاپرواہی سے کام لیا گیا اور بھٹو نے
” ادھر تم ادھر ہم “ ،
” جو مشرقی پاکستان جائے گا ٹانگیں توڑ دوں گا “ ،
” اپوزیشن میں نہیں بیٹھوں گا “ ،
” دونوں حصوں کے لئے علیحدہ آئین بنا لیں“
جیسے الفاظ استعمال کئے جن کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔

25 مارچ 1971 کو اس وقت کی فوجی حکومت (جنرل یحییٰ) نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ( آپریشن سرچ لائیٹ) کا آغاز کر دیا۔ یہ آپریشن مکتی باہنی اور اس پارٹی کے خلاف تھا جسے مشرقی پاکستان میں مکمل عوامی حمایت حاصل تھی۔

عوامی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے یہ آپرشن اپنے مقاصد تو حاصل نہ کر سکا لیکن اس کی وجہ سے بنگالی عوام کی احتجاجی تحریک مکمل طور پر تحریک آزادی بلکہ جنگ آزادی میں تبدیل ہو گئی اور بنگالی عوام کا جو حصہ متحدہ پاکستان کے حق میں تھا وہ بھی اس فوجی آپریشن کے بعد پاکستان کے خلاف ہو گیا۔

فوجی میدان میں بھی پاکستانی قیادت نے اس وقت کسی بھی طرح سمجھ داری اور فراست کا ثبوت نہیں دیا۔ بھارت کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل مانک شا کے مطابق ضرورت پڑنے پر پاکستان پر ایک مکمل حملہ کرنے اور مکمل جنگ کرنے کا فیصلہ بھارت کی وزیر اعظم اندرہ گاندھی نے اپریل 1971 میں ایک کیبنٹ میٹنگ میں کر لیا تھا جس میں مانک شا کے علاوہ وزیرخارجہ سردار سورن سنگھ، وزیر دفاع جگ جیون رام، وزیر زراعت فخرالدین علی اور وزیر مالیات یشونت رائو موجود تھے۔

نومبر آخر سے بھارت واضح طور پر بین القوامی سرحد عبور کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ ہماری قیادت نے یہ بہانہ اس وقت فراہم کر دیا جب پاکستان نے تین دسمبر کو مغربی محاذ پر بھارت پر زمینی اور فضائی حملہ کیا۔ اس حملے کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مشرقی حصے میں افواج پر سے پریشر کم کیا جائے اور دوسرا یہ کہ اس وقت کی پاکستان حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی حصے سے کیا جائے ۔

یہ دونوں مقاصد حاصل نہ ہو سکے لیکن بھارت کو انٹر نیشنل بارڈر کراس کر کے پاکستان پر حملہ کرنے کا اخلاقی جواز مل گیا اور ملک کے دونو ں حصوں میں مکمل جنگ شروع ہو گئی۔ مکتی باہنی نامی دہشت گرد تنظیم نے لاکھوں غیر بنگالی مسلمانوں کا قتل عام کیا اور دہشت گردی کی تاریخ رقم کی ۔اس جنگ کا اختتام پاکستان کے قیام کے صرف چوبیس سال بعد ہی اس کے دولخت ہونے پر ہوا۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ سقوط ڈھاکہ میں بھارت کا بڑا کردار تھا۔ اندرا گاندھی نے یہاں تک کہا تھا کہ ’آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔‘

بھارتی قیادت کو آج بھی پاکستان کا وجود گوارا نہیں ہے لیکن بھارت کے خلاف واویلا کرنے سے زیادہ اہم ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا پہچانیں اور انھیں تسلیم بھی کریں تاکہ ان کی روشنی میں آئیندہ کسی بڑے نقصان سے بچ سکیں اور ساتھ ہی 1948سے 1971کے درمیان ہونے والی اپنی سیاسی اور فوجی غلطیوں کا سنجیدہ اور تفصیلی مطالعہ کریں اور ان سے سبق حاصل کریں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ موجودہ حالات بھی بہت مایوس کن ہیں۔ وہ افغانستان ہو یا کشمیر پاکستانی قیادت اسی ازلی لاپرواہی سے کام لے رہا ہے۔

سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا ملک کو دولخت کرنے کا سبب بنتا ہے اور اب بھی ہم یہی کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں اور دیگر طبقات کے لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ موجودہ پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کے لئے اپنی اقتدار کی ہوس کو قربان کریں اور باہم اتحاد و یگانگت کی فضا قائم کریں، اقلیتوں کی رائے اور ان کے حقوق کا احترام کریں، ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں۔

اس کے لیے ہمیں اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامنا ہو گا اور اپنا مقصد اللہ کی زمین میں اللہ کا قانون بنانا ہو گا کہ حکومت کے بہترین قیام کے لیے ہمیں بہترین رہنمائی ہمارے دین سے مل سکتی ہے اور یہی ہمارے لیے راہ نجات ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

اس وقت پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے لیکن حصول کامیابی کے لئے ہمیں دولتِ ایمانی سے آگے بڑھنا ہوگا، ہمیں قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کو اچھی طرح سے سمجھنا ہو گا۔ اگر ہم اتحاد، یقین اور تنظیم سے اپنی قوم کو اُس راستے پر چلا سکے تو کامیابی ہمارا مقدر ہے اور بقول اقبال

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں