ڈاکٹر خولہ علوی :
آج صبح ناصرہ اپنی بیٹی ہادیہ کے کالج گئی جہاں اس نے کالج کی پرنسپل کو ہادیہ کی انگریزی کی استاد میم رضوانہ کی شکایات پہنچانے کا کٹھن اور نازک کام کرنا تھا۔ جن کی وجہ سے ہادیہ اور وہ کئی روز سے پریشان اور متفکر تھیں۔
سوچ سوچ کر ناصرہ کے ذہن میں اس مسئلے کا یہی حل آیا تھا کہ پرنسپل صاحبہ تک یہ شکایات خود کالج جاکر ان سے بات کرکے ان تک پہنچائی جائیں تاکہ انہیں صورت حال کی سنگینی کا احساس ہو۔ اسے یہ بات بہت مشکل لگ رہی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کی استاد کی شکایت کرے لیکن پرنسپل کو حالات کا ادراک کروانے کے لیے یہ کام ناگزیر تھا۔
ہادیہ لاہور کے ایک مقامی مہنگے پرائیویٹ کالج کی طالبہ تھی جس کی فیس ہزاروں روپے ہر ماہ وصول کی جاتی تھی۔ اور جس کی برانچز پورے صوبے میں جا بجا پھیلی ہوئی تھیں لیکن یہ بڑی تشویش ناک بات تھی کہ پڑھائی کے دوران اسلام مخالف اور پاکستان مخالف نظریات بھی پڑھائے جارہے تھے۔ اور ان کا زہر نوجوانوں کے دل ودماغ میں اتارا جا رہا تھا۔
کالج میں جب ناصرہ نے پرنسپل صاحبہ تک اپنے دل کی آواز پہنچائی تو جہاں دیدہ پرنسپل نے ناصرہ کی گفتگو توجہ سے سنی اور شکایات حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
پھر انہوں نے میم رضوانہ کو اپنے آفس میں بلایا اور ناصرہ کی طرف اشارہ کرکے انہیں بتایا۔
” یہ خاتون خود آکر اور اس سے پہلے دیگر کئی طالبات کی مائیں موبائل کالز پر پڑھائی میں آپ کی عدم توجہ کی شکایت کے ساتھ ساتھ آپ کے اسلام مخالف اور پاکستان مخالف نظریات کی شکایات کررہی ہیں۔ خصوصاً انڈیا اور بنگلہ دیشیوں کی بےجا حمایت اور پاکستان کی بھرپور کھلی مخالفت۔ ایک استاد کے ذمہ دار مقام پر فائز ہونے والوں کو اسلام اور پاکستان کی مخالفت زیب نہیں دیتی۔“
” چند سال پہلے جب میں ڈھاکہ گئی تھی تو میں نے دیکھا، جانا اور سمجھا تھا کہ آج بھی بنگلہ دیشیوں کے دل میں پاکستان بستا ہے اور پاکستانیوں کے دل میں بھی مشرقی پاکستان سے علیحدگی کا غم تازہ رہتا ہے۔ ہر سال 16 دسمبر کا دن اس دکھ اور تکلیف کو نئے سرے سے تازہ کر دیتا ہے۔“
یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں
” پھر پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں کا دولخت ہوجانا دنیا کا ایک ایسا انوکھا واقعہ تھا، جس کے شدید نفسیاتی اثرات عوام الناس کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ پاکستانی حکومت اور فوج پر بھی موجود رہے ہیں۔ اور اس پر امت مسلمہ بھی بے چینی و اضطراب کا شکار رہی ہے۔ تو پھر ان باتوں کو طالبات کو غلط طریقے سے پڑھانے اور بتانے کے کیا مقاصد ہیں؟“ ناصرہ پرنسپل صاحبہ سے بولی ۔
” مس رضوانہ ! براہ کرم ان شکایات پر آپ خصوصی توجہ کریں ورنہ یہ آپ کے لیے مسائل کا باعث بن سکتی ہیں ۔“ پرنسپل صاحبہ نے رضوانہ کو کافی سمجھایا بجھایا اور ناصرہ کی تسلی کروائی۔
” استاد کا مقام ومرتبہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کو تعلیم کے ساتھ ساتھ دین و ایمان اور سادگی و قناعت سکھائے۔ فیشن میں تو طلبہ ہمیشہ آگے ہوتے ہیں بلکہ استادوں کے بھی استاد ہوتے ہیں۔ اساتذہ کا کام تو ان کو سادگی سکھانا اور عمل پسند بنانا ہوتا ہے نہ کہ ان کی یہ عملی تربیت ہو کہ وہ بس فیشن کی دوڑ میں شامل ہوکر اس بے مقصد کام میں وقت اور زندگی کا ایک قیمتی حصہ ضائع کریں۔ اور آزاد خیالی، غلط نظریات و تعلیمات کو اپنائیں۔
اسی طرح دوقومی نظریے کو طلبہ و طالبات کے دل ودماغ میں راسخ کرنا ایک اچھے، سچے اور محب وطن مسلمان استاد کے لیے نہایت ضروری ہے۔“ ناصرہ نے پرنسپل صاحبہ کے سامنے زخمی دل کا احساس اجاگر کیا تھا۔ پرنسپل صاحبہ کی باتیں اس کے دل میں اتر رہی تھیں۔ اسی لیے اس نے بھی یہ بات ان کے سامنے بڑے وقار سے کہہ دی تھی۔
” جی بالکل۔ آپ کی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ۔“ پرنسپل صاحبہ نے ناصرہ کو آفس سے اٹھ جانے کا اذن دے دیا تھا۔
” یہ آپ کے لیے آخری چانس ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی طالبات کی مائیں آپ کے ان رویوں اور آزاد خیال نظریات کی شکایات کر چکی ہیں۔“ پرنسپل صاحبہ نے ناصرہ کے آفس سے چلے جانے کے بعد میم رضوانہ کو کڑی تنبیہ کی۔
” حتیٰ کہ ان وجوہات کی بنا پر آپ کو ملازمت سے بھی خارج کیا جا سکتا ہے۔ اور آپ کی جاب ختم ہو سکتی ہے۔“ پرنسپل نے رضوانہ کو وارننگ دیتے ہوئے کہا۔
ناصرہ کو میم رضوانہ کو دیکھتے ساتھ ان کی شخصیت اور ذہنیت کے بارے میں آگاہی حاصل ہو گئی تھی۔
” جدید تراش خراش کے انتہائی فٹنگ والے لباس میں ملبوس، سٹیپ کٹنگ میں کھلے بالوں کے ساتھ بڑے نازو ادا سے وہ actions کے ساتھ ہاتھوں اور آنکھوں کے اشاروں سے گفتگو کرتی ہیں۔ بالوں کو بار بار جھٹکنا ان کا سٹائل ہے۔ میم رضوانہ اپنے حلیے سے ایک استاد سے زیادہ ماڈل گرل دکھائی دیتی ہیں۔“ ہادیہ بیٹی کا ٹیچر کے بارے میں بتایا گیا حلیہ اور ادائیں ناصرہ کے ذہن میں تازہ تھیں اور ٹیچر کو دیکھتے ساتھ اسے ان کے بارے میں معلوم ہوگیا تھا کہ یہی ہادیہ کی انگلش ٹیچر ہیں۔
پرنسپل صاحبہ سے گفتگو کرتے ہوئے بھی ان کے یہی انداز اور اطوار تھے۔
” یہ ٹیچر اپنی طالبات کو تعلیم دیتے ہوئے ان کی کیا تربیت کرتی ہوں گی؟ ایک انگریزی زبان کی بے مقصد تعلیم، دوسرا ایسی اساتذہ کی تدریس تو ’ نہلے پہ دہلا ‘ ثابت ہوتی ہو گی۔“ ناصرہ نے بعد میں رات کو اپنی سوچ اپنے پروفیسر شوہر کے سامنے واضح کی تھی۔
ناصرہ کے شوہر کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔ اور گھر میں اس قسم کے ” پروفیشنل “ اور لبرل، دین بیزار قسم کے لوگوں کاتذکرہ پہلے بھی کرتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ناصرہ کی اچھی تعلیم و تربیت اور مطالعہ کے شوق نے بھی ان باتوں کے لیے راہ ہموار کی ہوئی تھی۔ اور وہ ان باتوں پر خصوصی توجہ دیتی تھی۔
” باقی رہی سہی کسر ماڈل گرل بنی استاد کی ظاہری شخصیت (personality) سے پوری ہوجاتی ہوگی جس پر عصر حاضر کی کچی عمر کی فیشن کی دلدادہ طالبات دل و جان سے فدا ہوتی ہیں۔ ہادیہ! کیا ان کی مختلف کلاسوں میں اسی طرح کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے؟“ ناصرہ نے بات کرتے ہوئے ہادیہ سے پوچھا۔
” جی امی جان! تقریباً یہی صورتحال ہے۔“ ہادیہ نے جواب دیا۔
ناصرہ کو استاد کے عملی کردار کا بہت زیادہ احساس ہوا۔ اور اسے اپنی ایک ٹیچر کی بات یاد آگئی جو کہتی تھیں :
” اگر استاد کے ہاتھ میں بائبل ہو لیکن وہ چاہے تو طلباء و طالبات کو قرآن مجید پڑھا سکتا ہے اور اگر استاد کے ہاتھ میں قرآن ہو لیکن وہ چاہے تو قرآن کے نام پر طلبہ وطالبات کو بائبل پڑھا سکتا ہے۔“ ناصرہ نے یہ بات دہرائی تو اس بات کی سچائی اس پر مزید آشکار ہوگئی۔
” طلبہ کی صلاحیتوں کا ارتقاء اور قومی ترقی کا راز ان کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین تربیت میں مضمر ہے۔ جس کے لیے والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کیونکہ علم بغیر عمل کے بیکار ہوتا ہے۔ جس علم پر عمل کیا جائے، وہ انسان کے لیے نہایت سود مند ثابت ہوتا ہے۔ “ گھر میں ناصرہ کی زبانی صورت حال سن کر پروفیسر صاحب نے کہا ۔
” اور پھر تربیت کی صرف زبانی کلامی باتیں نہ ہوں بلکہ عملی طور پر بچوں اور نوجوانوں کو دین کے ہر حکم، ہر معاملے، اور ہر ادب پر عمل پیرا ہونے کی تربیت دی جائے۔ والدین بھی رول ماڈل بنیں اور اساتذہ بھی۔ تو پھر ان کے ہاتھوں میں پرورش پانے اور تعلیم و تربیت حاصل کرنے والی اولاد اور طلبہ معاشرے کے لیے رول ماڈل بنتے ہیں۔“ ناصرہ نے ان کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
” انگریزی زبان کے کئی ایسے لیکچراروں اور پروفیسروں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو لبرل ، آزاد خیال، سیکولر بلکہ کمیونسٹ ذہن کے مالک ہیں۔“ پروفیسر صاحب نے کہا۔
” اس نقطہ نظر کا حامل پڑھا لکھا طبقہ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو پڑھاتے ہوئے اور ان کی تربیت سازی کرتے ہوئے ان کو دین بیزار خیالات اور نظریات سکھا رہا ہے۔ نہ صرف دین بیزار تعلیمات بلکہ نظریہ پاکستان کے خلاف بھی نفرت انگیز خیالات و نظریات بڑے آرام سے وہ طلباء طالبات کے ذہن میں منتقل کر دیتے ہیں۔“ پروفیسر صاحب نے کہا تھا۔
” میم رضوانہ کی طالبات اس قسم کی باتیں کرتی نظر آتی ہیں کہ
” آخر پاکستان بنانے کی ضرورت کیا تھی؟ پاکستان اور انڈیا کی جغرافیائی سرحدیں الگ نہ ہوتیں اور دونوں ملکوں کے لوگ اکٹھے ہی رہتے تو کتنا اچھا ہوتا اور کتنا مزا آتا؟ “
کبھی اس بات پر خوش ہوتی ہیں کہ اچھا ہوا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان علیحدہ ہوگئے تھے۔ لیکن مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ انہیں اس بات سے کیا حاصل ہوتا ہے؟“ ہادیہ نے بتایا۔
” اس قسم کے اعتراضات کرنے والے دو قومی نظریہ بھول جاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی یاد نہیں آتا کہ پاکستان لاکھوں قربانیاں دے کر قائم ہوا تھا۔“ ناصرہ نے بڑے کرب سے کہا۔
” اور ’ جیےبنگلہ ‘ اور ’ سنار بنگلہ ‘ اور ’ ادھر ہم، ادھر تم ‘ کے نعرے لگانے والے سمجھتے ہیں کہ ہم بنگلہ دیشیوں نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے کے ان کی غلامی سے نجات حاصل کر لی ہے۔ لیکن 16 دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ کے بہت تلخ اثرات امت مسلمہ اور دونوں اسلامی ممالک پر مرتب ہوئے ہیں۔خود بنگلہ دیشیوں نے اس کے بڑے تلخ نقصانات اٹھائے ہیں۔“ پروفیسر صاحب نے کہا ۔
” 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول کے معصوم پھولوں جیسے بچوں پر دشمنوں کا حملہ اور بہت سی معصوم جانوں کو قتل کر دینا بھی ہمارے لیے بہت الم ناک حادثہ تھا۔“ ناصرہ نے یاد کروایا۔
” جی۔ یہ پاکستانی تاریخ کا ایک نہایت دردناک واقعہ تھا۔“ ہادیہ نے جھرجھری سی لے کر کہا۔
” یہ چھوٹی سی ایک جھلک تھی جس میں دین بیزار پڑھے لکھے طبقے کی سوچ کی عکاسی نظر آتی ہے۔ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو پڑھنے اور پڑھانے اور ان پر فدا ہونے والے دین بیزار طبقے کے یہی معاملات ہوتے ہیں۔“ ناصرہ نے گزشتہ بات کا سلسلہ دوبارہ جوڑا تھا۔ علامہ اقبال نے کس طرح ہمارے نظام تعلیم کی کتنی واضح حقیقت بیان کی تھی۔
یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروّت کے خلاف
” یہ تو ایک معاملہ تھا جس کو ذمہ دار پرنسپل نے بروقت کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے لیکن تب تک بھی یہ ٹیچر جانے کتنے نوجوان ذہنوں میں زہر گھول چکی تھی؟
باقی اکثر اوقات اس طرح کے معاملات کو کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہوتا اور معاشرے میں رفتہ رفتہ ذہنیتیں اسلام بیزار بن چکی ہوتی ہیں اور مغربی معاشرے اور تہذیب و تمدن پر قربان ہو چکی ہوتی ہیں۔“ پروفیسر صاحب نے تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کی عملی صورت حال بیان کی تھی۔
” ہمارے معاشرے کے لیے یہ فکر انگیز صورت حال ہے۔ اگر اس طرح کی ذہنیت کے حامل اساتذہ اور ان کے رویوں کو کنٹرول نہ کیا گیا اور ان کے بارے میں کوئی مستقل پالیسی اختیار نہ کی گئی تو رفتہ رفتہ خدانخواستہ کہیں کوئی ایسی صورت حال نہ پیدا ہو جائے جو سقوط ڈھاکہ کے وقت مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پیش آئی تھی۔
سقوط مشرقی پاکستان ایک ایسا المناک سانحہ ہے جو پاکستان اور امت مسلمہ کے لیے ایک رستے ہوئے زخم کی طرح ہے۔“ پروفیسر صاحب نے کہا ۔
” بابا جان! سانحہ مشرقی پاکستان کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان کی علیحدگی پسند ذہنیت رکھنے والوں کو حکمت ومصلحت سے اپنے ساتھ ملانا بھی تو ضروری ہے۔“ ہادیہ نے ایک اور اہم بات یاد دلائی ۔
” جی بیٹی! زندہ قومیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ وہ ان کو یاد کرکے صرف افسوس نہیں کرتیں بلکہ اپنے مستقبل کی ایسی منصوبہ بندی کرتی ہیں کہ اس طرح کے سانحات دوبارہ پیش نہ آئیں۔“ پروفیسر صاحب بولے۔
” اسی طرح جنت نظیر کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اس کو آزاد کروانے اور تکمیل پاکستان کے مقاصد کو پورا کرنا بھی بہت اہم اور بنیادی کام ہے۔ اس کی آزادی کی جدوجہد کی اہمیت وضرورت لوگوں کے سامنے واضح کیا جانا بھی ضروری ہے۔“ پروفیسر صاحب نے کہا۔
” متعصب مسلمان بنگلہ دیشیوں کے ساتھ اہل کلیسا کا نظام تعلیم اور متعصب ہندو اساتذہ کی غلط تعلیم اور تربیت نے بھی طلبہ اور عوام کے لیے سقوط ڈھاکہ کی راہ ہموار کی تھی۔“ ناصرہ نے سوچ میں ڈوبے ہوئے کہا۔
” ہمارے نظام تعلیم کی اصلاح، اسلامی ذہنیت کے حامل اساتذہ کو ترجیحاً منتخب کرکے آگے لانا اور اساتذہ کے لیے پروفیشنل ریفریشر کورسز کے ساتھ ساتھ دینی ریفریشر کورسز کا اہتمام بھی اس قسم کے سانحات سے بچاؤ کے لیے لازم ہے۔“ پروفیسر صاحب نے اصلاح اساتذہ کے حوالے سے چند مفید تجاویز پیش کیں۔
” اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے اساتذہ کو اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کرنے اور انبیاء کرام کی وراثت کے اس مشن کو بخوبی نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین“
ناصرہ نے حالات میں بہتری کی امید اور توقع رکھتے ہوئے دل سے کہا۔
ایک تبصرہ برائے “سقوط ڈھاکہ : پاکستان کے بعض تعلیمی اداروں میں کیا پڑھایا جارہا ہے؟”
ماشاءاللہ بہت ہی خوب! حقیقت پر مبنی تحریر ہے۔ پڑھ کر تشویش لاحق ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہماری اور ہمارے تعلیمی اداروں کی حفاظت فرمائے۔آمین