ڈاکٹر خولہ علوی :
محکم ہے تیری تدبیر بہت یا رب ! ( قسط اول )
محکم ہے تیری تدبیر بہت یا رب ! ( دوسری قسط )
محکم ہے تیری تدبیر بہت یا رب ! ( تیسری قسط )
خنساء کے روز وشب دھیرے دھیرے گزر رہے تھے۔ گھنٹے دنوں میں، دن ہفتوں میں، اور ہفتے مہینوں میں ڈھلتے جارہے تھے۔ عید الاضحیٰ کے بعد اب وہ لوگ سکول کھلنے کی خوش خبری سننے کے منتظر تھے۔
پہلے گھر میں نظام الاوقات (time table) کی کافی حد تک پابندی کرتے ہوئے پڑھائی کا سلسلہ جاری تھا لیکن اب اس میں وقتاً فوقتاً کئی کئی دن کا وقفہ (break) ہونا شروع ہو گیا تھا۔ بچے اب کچھ اداس رہنے لگے تھے۔
گھریلو سرگرمیوں کا سلسلہ بھی رواں دواں تھا، بہن بھائیوں کے لڑائی جھگڑے، آپس کے اختلافات، روٹھنا اور منا لینا یا مان جانے کا کام بھی جاری تھا۔ موبائل کا استعمال بھی اب بڑھ چکا تھا۔ اور زیادہ اختلافات اس موبائل کی وجہ سے ہوتے تھے مثلاً امی جان یا ابو جان کا موبائل لینے کی اب میری باری ہے یا دوسرے نے زیادہ وقت لے لیا ہے اور مجھے موبائل نہیں دے رہا وغیرہ۔ اس قسم کی شکایات سدا بہار رہنے لگی تھیں۔
خنساء کے ابو جان کبھی کبھار اسے اور اس کی بہنوں کو ان کی سہیلیوں یا اساتذہ (teachers) سے ملوا لاتے تھے۔ کبھی کبھار وہ اپنی امی جان کے موبائل پر اپنی سہیلیوں سے انفرادی یا کلاس کی ہم جولیوں سے کانفرنس کال یا واٹس ایپ گروپ کے ذریعے سب سے اجتماعی بات چیت کر لیتی تھی۔ اس کی سہیلیاں بھی اب اسکول کھلنے کی منتظر تھیں۔ لڑکیوں کی طبیعت بہرحال لڑکوں سے مختلف ہوتی ہے جو چھٹیوں میں خوش باش نت نئی مصروفیات اور سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔
خنساء کو پڑھائی کے علاوہ سکول کا ماحول ، اساتذہ کی نرمی و گرمی، کلاس فیلوز کے ساتھ میل جول، اسمبلی ، سکول کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں حتیٰ کہ سکول آنے جانے کے اوقات، سکول کا راستہ، سکول کا گھنٹہ (bell) سب اسے یاد آتے تھے۔ اس نے زندگی میں کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ سکول میں اتنی طویل المدت چھٹیاں ہو سکتی ہیں!!!
پھر اس نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ چھٹیوں میں اپنی اساتذہ اور ہم جماعت ساتھیوں کو اتنا یاد کرے گی کہ ان سے بہت زیادہ اداس ہو جائے گی۔ اتنی زیادہ کہ سکول دوبارہ کھل جانا اس کے دل کی حسرت بن جائے گا!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خنساء، اور اس کی والدہ کی خاندان میں بڑوں اور چھوٹوں سے کانفرنس کال پر یا واٹس ایپ گروپ میں بات ہوتی رہتی تھی۔ اس وقت بھی سب لوگ واٹس ایپ گروپ میں کورونا وائرس کے حوالے سے اپنی اپنی علاقائی صورتحال ڈسکس کر رہے تھے۔ بڑی خواتین مثلاً خالائیں، ممانیاں، بڑی باجیاں اور آپیاں خصوصاً گفتگو میں شریک تھیں۔
” عید الفطر کے موقع پر لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد عوام نے احتیاطی تدابیر اور اقدامات (ایس او پیز) کی حد درجہ خلاف ورزی کی تھی تو عید کے بعد کورونا مزید پھیل گیا ہے۔ اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چند روز میں ہونے والی تقریباً روزانہ 100 ریکارڈ ہلاکتوں کو کورونا وائرس کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ یہ اعداد و شمار سرکاری ہسپتالوں کے جاری کردہ ہیں۔“ کراچی میں مقیم حفصہ باجی نے کہا تھا۔
” پرائیوٹ ہسپتالوں میں تو کورونا ٹیسٹ مہنگا ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ ٹیسٹ کرواتے ہی نہیں۔ کورونا ٹیسٹ مہنگا ہونے کے علاوہ اس ٹیسٹ کا رزلٹ پازیٹو آنے پر ڈاکٹرز، پولیس اور باقی عوام کا ردعمل عجیب و غریب اور دل گرفتہ کر دینے والا ہوتا ہے۔ لوگ دوسروں کے ردعمل سے ڈرے ہوتے ہیں۔“اسلام آباد کی رہائشی عفاف باجی نے جواب میں کہا تھا۔
” بعض اوقات اگر لوگوں میں کورونا وائرس کے کچھ آثار اور نشانیاں (symptoms) موجود بھی ہوں تو وہ صاحب حیثیت ہونے کے باوجود اپنے ٹیسٹ نہیں کرواتے اور دوسروں سے میل جول جاری رکھتے ہیں جس کی وجہ سے کورونا دوسرے صحت مند افراد میں بھی پھیل جاتا ہے۔“ لاہور میں مقیم مصباح باجی نے اپنی رائے بیان کی تھی۔
” پاکستان پر واقعی اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص مہربانی ہے کیونکہ یہاں عوام الناس نے ایس او پیز کی جتنی دھجیاں اڑائی ہیں، اس لحاظ سے اب بھی پاکستان بہت بہتر حالت میں ہے۔“ عافیہ آپی بولیں۔
” باقی صوبوں میں صورتحال نسبتاً بہتر ہے لیکن سندھ میں بہت تیزی سے کورونا مریضوں کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔
اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ سندھ کی چھوٹی دکانوں پر پھر بھی کچھ نہ کچھ احتیاطی تدابیر اور اقدامات کا خیال رکھا گیا لیکن بڑے شاپنگ مالز نے تو بالکل ان (ایس او پیز) پر عمل درآمد نہیں کیا۔“حفصہ باجی نے صوبہ سندھ کی صورتحال پر بات کی تھی۔
” کورونا وائرس کے لیے استعمال ہونے والے ٹوسلی ڈوماب انجیکشن کی قیمت بیس ہزار روپے سے تجاوز کرتے کرتے ایک لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے جو عام بندے کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ کورونا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن میں بے روزگاری کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور بازاروں میں اشیائے خورونوش کی عدم فراہمی کی وجوہات بھی عوام کو بغاوت پر اکسا رہی ہیں۔“ حفصہ باجی نے مزید کہا تھا۔
” میرے میکے میں عید الفطر کے دوسرے دن تقریباً سب افراد کو وائرل بخار ہوگیا تھا۔ اور اس میں کمزوری کی شدت بہت زیادہ تھی۔ میری بزرگ والدہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گئی تھیں جو دل کی مریضہ ہونے کے علاوہ ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ بھی ہیں۔ تقریباً ایک ہفتے بعد امی جان کی طبیعت کافی بہتر ہو گئی تھیں الحمد للہ۔ تقریباً سب افراد کا خیال ہے کہ یہ کورونا وائرس کی بیماری کی ابتدائی سٹیج تھی جس کی زد میں پورا گھرانہ آگیا تھا۔“ بڑی ممانی جان نے بتایا جن کے میکے والے پشاور میں مقیم تھے۔
” میرے بڑے بھائی جان کو بھی چھ سات دن شدید بخار رہا تھا۔ بڑی باجی اور ان کے میاں یعنی ہمارے بڑے بہنوئی بھی کافی بیمار رہے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا امیون سسٹم (دفاعی نظام) کمزور ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت بہت کم ہو گئی تھی۔ “ چھوٹی ممانی جان نے بھی اپنے میکے کے کورونا متاثر افراد کے بارے میں آگاہ کیا۔
” باجی کو کھانسی کے ساتھ خون بھی آنا شروع ہو گیا تھا۔ جب خون آ رہا تھا تو ڈاکٹر نے کہا تھا کہ یہ بیماری کی لاسٹ سٹیج ہے۔ اگر آپ اس سے نکل آئیں تو پھر آپ ٹھیک ہو جائیں گی۔“ چھوٹی ممانی نے مزید بتایا تھا۔
” وائرل بخار اتر جاتا ہے لیکن کمزوری باقی رہ جاتی ہے۔ کورونا بخار جلد ختم نہیں ہوتا بلکہ اترنے کا نام نہیں لیتا۔ کورونا وائرس کی بیماری میں مریض کو شدید کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ تمام اہل خانہ کا شدید بخار میں مبتلا ہونا بھی کورونا کی علامت ہے۔“ مصباح باجی نے کہا ۔
سب لوگوں نے کورونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہونا ہی ہے، خواہ جلد ہوں یا بدیر۔ اور پھر جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوکر صحت مند ہو چکے ہیں، وہ مطمئن ہو جائیں کہ وہ اب اس بیماری سے امیون (محفوظ) ہو چکے ہیں۔ الحمدللہ۔“ خنساء کی امی نے اپنی رائے بیان کی تھی۔
” میری چھوٹی بہن عید الفطر کے موقع پر عید کرنے اسلام آباد سے میکے آئی ہوئی تھی۔ اسے بھی بخار ہوگیا تھا۔ عید کے تیسرے دن وہ اسلام آباد واپس اپنے گھر آ گئی تھی۔ ہمارے بہنوئی اسے حوصلہ دیتے تھے کہ
آپ پریشان نہ ہوں، آپ کو کورونا بخار نہیں ہے۔ میں اپنے ڈاکٹر بہنوئی اور بھانجے سے اس کے متعلق مسلسل معلومات لیتا رہتا ہوں۔“ بڑی ممانی جان نے بتایا۔
” میرے میاں کے چالیس بیالیس سالہ کزن کا کورونا بیماری کا ٹیسٹ پوزیٹو آیا تھا۔ وہ اچھے خاصے ایکٹو، صحت مند، رف اینڈٹف قسم کے بندےتھے۔ پہلے انہیں کوئی بیماری نہیں تھی لیکن بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد ان کی کیفیت بڑی نازک ہو گئی تھی۔“ بڑی خالہ جان نے بتایا۔
” پھر کیا ہوا؟ کیا وہ صحت یاب ہوگئے تھے؟“ خنساء نے بےتابی سے پوچھا تھا۔
” نہیں۔ وہ بیچارے ری کور (recover) نہیں ہو سکے تھے۔ تیز بخار، نزلہ و زکام، جسم میں شدید درد، سانس لینے میں دشواری وغیرہ کے مسائل کے علاوہ ان کے پھیپھڑے بھی متاثر ہوگئے تھے اور ان میں پانی پڑ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ حمید لطیف ہسپتال، لاہور میں آئی سی یو وارڈ میں داخل رہے تھے۔ پھرچند دن بعد اللہ تعالٰی کی طرف سے ان کا بلاوا آ گیا اور وہ اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔“ بڑی خالہ جان نے افسردگی سے بتایا ۔
” انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔“ فیملی گروپ کے آن لائن تمام افراد پر بھی افسردگی سی چھاگئی تھی۔
” کورونا وائرس کے بعض مریضوں کو بہت زیادہ نیند آتی ہے۔ اور بعض مریضوں کی نیند ختم بھی ہو جاتی ہے اور وہ بے خوابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ٹینشن، ڈیپریشن ، آئسولیشن یا دیگر وجوہات کی وجہ سے۔“ طہورا آپی بھی آن لائن ہو کر گفتگو میں شامل ہو گئیں۔
” یہ سب علامات کورونا میں ممکن ہیں۔ کچھ لوگوں میں کم علامات ظاہر ہوتی ہیں اور کچھ میں زیادہ۔ ممکن ہے کہ ہم لوگ بھی اس مرحلے سے گزر چکے ہوں۔“ طہورا آپی نے مزید کہا ۔
” نیند والی بات کا تذکرہ کرنا بہت اہم ہے۔ اسےذہن میں رکھنی چاہیے۔ جوانوں کو اپنی تو اتنی فکر نہیں ہوتی لیکن بزرگوں خصوصاً والدین اور ساس اور سسر کی فکر ہوتی ہے کیونکہ وہ ’ ہائی رسک ‘ ہیں، اور بڑی عمر کے کچھ امراض بھی ان میں ہو سکتے ہیں۔“ خنساء کی امی نے کہا ۔
” اس صورتحال میں بچوں کو ان کے ہاں جانے سے روکنا چاہیے لیکن بعض اوقات یہ عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ جہاں تک گھر کے اندر ’ کوارنٹائن ‘ کرنے والی بات ہے تو وہ واقعی اتنا آسان نہیں ہے۔“ بڑی خالہ جان
نے ان کی تائید کرتے ہوئے نہایت اہم بات کی طرف اشارہ کیا ۔
” بالکل! صحیح بات تو ہے کہ بزرگوں کےمعاملے میں انسان زیادہ پابندیاں لگا بھی نہیں سکتا۔ اپنے بچوں کو بھی ان سے زیادہ دور نہیں رکھ سکتا۔ انھیں اس عمر میں بچوں کی قربت درکار ہوتی ہے۔ آئسو لیشن سے ان کی بیماری بڑھنے کے علاوہ ان کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت بدل جاتی ہے۔“ چھوٹی خالہ جان نے ان کی تائید کی ۔
” پھر یہ بات بھی تو اہم ہے کہ ہر ڈاکٹر کی اپنی اپنی تشخیص ہوتی ہے۔ میرے میکے کی فیملی کی بیماری میں بھی تقریباً ہر ڈاکٹر نے مریضوں کو کہا تھا کہ
’ آپ لوگوں کو کورونا وائرس کی بیماری نہیں بلکہ وائرل بخار اور اس کے دیگر اثرات ہیں۔“ بڑی ممانی جان نے بتایا ۔
” ہر ایک فرد میں اس کی علامتیں مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہیں۔ میرے بڑے بھائی جان کو تیز بخار رہا تھا جو ایک سو چار ڈگری فارن ہائیٹ سے کم نہیں ہوتا تھا۔ وقتاً فوقتاً پٹیاں کرنے کے باوجود۔ نزلہ و زکام بھی شروع ہو گیا تھا۔ کمر میں کافی درد رہتا تھا بلکہ سارے جسم میں ہی درد رہتا تھا۔
لیکن پھر تین چار دن بعد ان کا بخار اتر گیا تھا لیکن اس بخار کے اثرات تقریبا بیس سے بائیس دن تک غالب رہے تھے۔ انہیں تھکن بہت زیادہ ہو جاتی تھی۔
میرے بھائی ماشاءاللہ بہت باہمت انسان ہیں اور عموماً چھوٹے موٹے بخار کو خاطر میں نہیں لاتے لیکن اس بیماری کا ردعمل بالکل مختلف تھا۔“ بڑی ممانی نے اپنے بھائی کی بیماری اور پھر صحت یاب ہونے کے بارے میں تفصیل سے بتایا ۔
” بچے قدرتی طور پر بیماری سے کم متاثر ہوتے ہیں لیکن بڑوں میں بیماری نسبتاً جلدی پھیلتی ہے۔ بچوں کے اندر کورونا وائرس کی بیماری کی ریشو بہت کم ہے۔ باذن اللہ۔ بچے عموماً asymptomatic کیرئر ہوتے ہیں۔ یعنی وائرس موجود ہونے کے باوجود علامات نسبتاً کم ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بعض دفعہ بڑے بھی asymtomatic ہوتے ہیں اور ان کے اندر ظاہری طور پر کورونا کی کوئی علامت نہیں نظر آتی۔“ مصباح باجی نے بچوں کے حوالے سے کورونا بیماری کی بات کی تھی۔
” اللہ سے بڑھ کر حکیم و علیم اور عادل کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی مخلوق کے حالات اور وسائل کے مطابق ہی ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔“ خنساء کی والدہ نے اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت کے بارے میں یاد دہانی کروائی تھی۔
” بالکل! لیکن یہ بڑی تشویش ناک بات ہے کہ ہمارے ارد گرد موجود بیشتر لوگ کورونا بیماری کا ٹیسٹ کرواتے ہی نہیں ورنہ شاید اکثریت کا رزلٹ پوزیٹو نکلے۔“ بڑی ممانی جان نے دوبارہ کورونا ٹیسٹ کی طرف سب کو متوجہ کیا ۔
” ممکن ہے کہ ہم لوگ بھی کورونا کے کسی مرحلے (phase) سے گزر چکے ہوں۔“ عفاف باجی نے اس بات کو پھر فوکس کیا ۔
” میڈیکل کی اصطلاح میں وباء کے دنوں میں جو بھی مریض آئے، پہلے اسے وباء میں ہی مبتلا سمجھا جاتا ہے، دیگر ٹیسٹ بعد میں کیے جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ لوگ شوگر، بلڈ پریشر اور دیگر امراض سے ہی فوت ہوئے ہوں لیکن کورونا نے ان پر حملہ آور ہو کر ان کی اس بیماری کو اور بڑھا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ بچ نہیں سکے تھے اور موت کے منہ میں چلے گئے ۔“ طہورا آپی نے ڈاکٹرز کی رائے بیان کی تھی۔
اس کو ناقدری عالم کا صلہ کہتے ہیں
مرچکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعطیلات کے ان اداس ایام میں ایک صبح ایک پریشان کن خبر موصول ہوئی ۔ ” سعودی عرب کے شہر ریاض میں مقیم خنساء کے نانا جان کے بھائی بھی (جن کو وہ نانا جان ہی کہتے تھے) گزشتہ کئی روز سے چیسٹ انفیکشن کے سبب صاحب فراش ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔ “
امی جان نے واٹس ایپ گروپ میں موصول ہونے والی اطلاع کے بارے میں بتایا تو ان لوگوں کے دلوں کو کافی پریشانی لاحق ہوئی کیونکہ وہ بچوں اور بڑوں میں اپنی خوش مزاجی اور زندہ دلی کی وجہ سے مقبول تھے۔
” امی جان! وہ کب سے سعودیہ عرب میں مقیم ہیں؟“ ساجد نے پوچھا ۔
” وہ تقریباً چالیس سال سے سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔ ان کی عمر ستر سال کے لگ بھگ ہوگی لیکن اس بیماری سے پہلے ان کی صحت بہت اچھی تھی ماشاءاللہ۔ “ امی جان نے بتایا ۔
” یہ اور بات ہے کہ وہ اتنی بڑی عمر کے لگتے نہیں تھے۔ اور مزاجاً زندہ دل ہونےکی وجہ سے وہ جوانوں میں جوان اور بزرگوں میں بزرگ ہوتے تھے۔“ خنساء کے ابو جان نے کہا جو نانا جان کا بہت احترام کرتے تھے۔
” کیا ان پر یک دم کورونا بیماری کا حملہ ہو گیا تھا؟“ عابد نے پوچھا۔
” جب انھیں چیسٹ انفیکشن کی بیماری کا مسئلہ شروع ہوا تھا تو پہلے تو ان کو خود بھی اندازہ نہیں ہوسکا تھا۔ جب تیز بخار، خشک کھانسی، جسمانی درد اور سانس لینے میں دشواری جیسے مسائل مسلسل رہنے لگے تو پھر انہیں اور اہل خانہ کو خدشات ستانے لگے تھے کہ کہیں انہیں کورونا وائرس کی بیماری لاحق نہ ہوچکی ہو ۔ پھر جب اہل خانہ نے انہیں چیک کروایا تو خدشات حقیقت بن کر سامنے آگئے کہ ان میں کورونا وائرس کی ہے۔“ امی جان نے تفصیل سے بتایا ۔
” پھر کیا ہوا تھا؟“ خنساء نے جلدی سے پوچھا ۔
” انہوں نے اپنے آپ کو گھرمیں ’ کوارنٹائین ‘ کرلیا تھا۔ گھر والے ان کی دیکھ بھال کرتے رہے تھے اور انھیں اچھی خوراک اور ادویات وغیرہ بروقت فراہم کرتے رہے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو گھر میں محدود تو کرلیا تھا لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں سے ان کا رابطہ رہا تھا۔
پہلے وہ چند دن گھر میں مقیم رہے اور ہر طرح کی احتیاطی تدابیر کا خیال کرتے رہے۔ پھر قریبی ڈاکٹر احباب کے مشورے سے وہ جدہ کے ایک ہسپتال میں داخل ہوگئے جہاں کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے مکمل سہولیات دستیاب تھیں۔“ابو جان نے بتایا۔
” آپ کے نانا جان پرامید تھے کہ اللہ تعالیٰ انھیں جلد شفا یاب کر دے گا۔ وہ نماز پنجگانہ باقاعدگی سے ادا کر رہے تھے اور مسنون اذکار بھی بہت توجہ سے پڑھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ کھلے دل سے صدقہ و خیرات بھی کر رہے تھے اور چپکے چپکے کئی ضرورت مند لوگوں کی مدد کر رہے تھے۔“ امی جان نے یہ باتیں بتا کر بچوں میں نیکی اور تقویٰ کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ۔
” ان کے اہل خانہ ان کی طبیعت اور صحت کے متعلق اب زیادہ فکرمند ہو چکے تھے۔ اور ان کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے ان کی صحت یابی کے لیے بہت دعائیں کررہے تھے۔
سعودی عرب کی حکومت کورونا وائرس کی بیماری کے لیے بہت فعال ہے۔“ ابو جان نے بھی بتایا ۔
” سعودی حکومت نے حد درجہ احتیاط کرتے ہوئے ابتدا میں ہی خانہ کعبہ میں مطاف میں طواف روک دیا تھا، تقریباً ساری مساجد میں سوائے مسجد حرام اور مسجد نبوی کے باجماعت نمازوں پر پابندی لگادی تھی، اور مساجد بند کردی تھیں۔ عمرہ بند کر دیا تھا اور فلائٹس پر پابندی لگا دی تھی۔ انہوں نے تقریباً پورے ملک میں کورونا بیماری کی روک تھام کے لیے پہلے لاک ڈاؤن کیا تھا اور پھر کچھ عرصے بعد جہاں جہاں ضرورت محسوس ہوئی، کرفیو لگادیا تھا۔“ ابو جان نے سعودی عرب کی صورت حال کے بارے میں بتایا ۔
” جدہ کے ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد ان کا علاج شروع ہوا۔ ڈاکٹروں نے فوراً ان کے مختلف ٹیسٹ وغیرہ کیے۔ ایکسرے، سی ٹی سکین، بلڈ پریشر، شوگر، ای سی جی وغیرہ سب ٹیسٹ ہوئے۔ تقریباً سارے نتائج تسلی بخش تھے لیکن اتنے دن بعد بھی سینے میں انفیکشن موجود تھی جس کی وجہ سے سانس لینے میں مسئلہ پیدا ہوتا تھا اور کھانسی کی شکایت رہتی تھی۔“ امی جان نے واٹس ایپ گروپ سے حاصل شدہ تازہ معلومات ان کے گوش گزار کر دیں۔
” جان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ پہلے تو انہوں نے احباب کو اپنی طبیعت کی خرابی کے متعلق آگاہ نہ کیا تھا۔ لیکن جب کئی دن تک ان کی طبیعت کی خرابی اسی طرح برقرار رہی تو انہوں نے پھر اپنے عزیز و اقارب کو اپنی بیماری کے متعلق آگاہ کیا تھا تاکہ وہ ان کے لیے دعائیں کر سکیں۔ ابو جان نے بتایا ۔
” ہسپتال میں انھیں اپنی طبیعت قدرے بہتر محسوس ہوتی تھی لیکن اس بیماری میں انسان اکیلا رہ کر بالآخر پریشان ہوجاتا ہے اور تھک بھی جاتا ہے۔ پہلے انسان ہر وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ زندگی کی تگ و دو میں مصروف ہوتا ہے۔ پھر اس موذی بیماری میں مبتلا ہو کر اکیلا اپنی بیماری کاٹتا ہے۔“ امی جان کہہ رہی تھیں۔
” سوشل ڈسٹینسنگ کی وجہ سے اہل خانہ کورونا مریض کے قریب نہیں آتے۔ اگرچہ یہ صرف ’ فزیکل ڈسٹینس‘ ہوتا ہے اور اہل خانہ سے اس کا موبائل پر رابطہ رہتا ہے بلکہ پوری دنیا سے اس کا موبائل فون کے ذریعے رابطہ ہوسکتا ہے لیکن یہ چیز بھی انسان کے لئے بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔“ابو جان نے کہا ۔
” نانا جان کا اپنے اہل خانہ سے موبائل پر مستقل رابطہ تھا۔ ان کی اہلیہ، بیٹے، بیٹیاں بہوئیں، داماد اور دیگر عزیز و اقارب وغیرہ ان کے لیے پریشان تھے اور دعائیں کر رہے تھے کہ
یا اللہ! آپ انھیں صحت یاب کر کے دوبارہ ہمارے ساتھ شامل فرما دینا۔“ امی جان نے مزید بتایا ۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے، ادھر نکلے
” اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں ایمان و صحت والی طویل عمر سے نوازے اور انھیں شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور ان سے دین حنیف کی خدمت کا کام لیتا رہے۔ آمین۔“ ابو جان نے دعا کی ۔