ایک گھر میں فیملی ٹی وی دیکھ رہی ہے

رشتوں کی بھینٹ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سیدہ خدیجۃالکبرٰی گیلانی :

” پروفیسر ہمایوں مردہ باد “
” پروفیسر ہمایوں ! مردہ باد “
تیس سیکنڈ کے وڈیو کلپ کے آغاز میں ہی یہ نعرے بلند ہو رہے تھے۔

یہ ایک نجی چینل پر عنقریب شروع ہونے والے ڈرامے کا ٹیزر تھا۔ پروفیسر کے خلاف بلند ہونے والے نعروں کا سبب یہ معلوم ہو رہا تھا کہ یہ کسی طالبہ کے ساتھ ہراسمنٹ کا کیس تھا لیکن تیس سیکنڈ کے کلپ میں چونکانے کی وجہ وہی حصہ بنا جب پروفیسر کی آٹھ دس سال کی بچی باپ کو مخاطب کر کے کہتی ہے :
Dont touch me papa, your touch is bad touch

اس جملے نے کتنی ہی دیر مجھے گنگ کئے رکھا ۔ میں نہیں جانتی کہ آگے ڈرامے میں کیا دکھایا جائے گا لیکن یہ جملہ بہت کچھ بتانے کے لئے کافی ہے۔

باپ تو ہر بیٹی کا پہلا ہیرو ہوتا ہے ، وہ باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتی ہے ، باپ کی گود میں بیٹھ کر اپنے لاڈ اٹھواتی اور اپنی فرمائشیں پوری کرواتی ہے ، مائیں جب تربیت کے خیال سے بیٹی پر کچھ سختی کرتی ہیں تو وہ باپ کے کندھے پر سر رکھ کر ماں کی شکایت لگاتی ہے ، مائیں جب کسی کام سے روکتی ہیں تو بیٹی باپ کے گلے میں جھول کر اپنی بات منواتی ہے ،
لیکن یہ کیا !

الیکٹرانک میڈیا جو ابلاغ کا بڑا ذریعہ ہے وہ ہماری بچیوں کو یہ بتا رہا ہے کہ
خبردار !
یہاں بھی مت جاؤ ، دور رہو ، یہاں بھی خطرہ ہے۔ تم اپنے باپ کی چھاؤں تلے بھی محفوظ و مامون نہیں کہ تمہارا باپ بھی ایک درندہ ہے ۔

ہمارے ڈرامے گزشتہ کچھ عرصے سے بار بار مختلف رشتوں کی حساسیت پر ضرب لگا رہے ہیں ۔ پے در پے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جا رہا ہے جن میں رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ سسر بہو کے پیچھے ، سالی بہنوئی کے پیچھے ، بہنوئی سالی کے پیچھے ، دیور بھابھی کے پیچھے ، بیوی شوہر کے دوست کے پیچھے۔

ہر ڈرامے پر چند آوازیں ہی بلند ہوتی ہیں ۔ کبھی شنوائی ہوتی بھی ہے تو کہیں نہ کہیں سے کوئی احکامات دوبارہ ڈرامہ چالو کروا دیتے ہیں اور یوں مسلسل معاشرے میں بے حیائی دکھانے کا یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اب کی بار سب سے مقدس رشتے باپ اور بیٹی کے رشتے کو ہدف بنایا گیا ہے۔

ہمارے بچوں کو بتایا جا رہا ہے کہ بیٹی اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ۔ بیٹی اور باپ کے مضبوط تعلق کو ختم کرنے کے لئے بچیوں کے ذہن میں باپ کا اتنا کریہہ روپ بٹھایا جا رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم کب تک خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ خاندانی نظام پر ضرب لگانے کے بعد اب ایک ایک کر کے رشتوں کی حرمت کو سوالیہ نشان بنایا جا رہا ہے۔

کوئی ہے جو سوال کرے؟ کوئی ہے جو اس تعفن اور بدبو کے ڈھیر کو صاف کرے؟ کوئی تو پوچھے کیا ہمارے گھروں میں ایسے باپ بھائی ہیں؟
نہیں ہرگز نہیں
ہمیں اپنے رشتوں کو بچانا ہے
رشتوں کی حرمت کو بچانا ہے
رشتوں کا تقدس قائم رکھنا ہے

تو آواز بلند کرنی ہی پڑے گی ، ہم کب تک خاموش تماشائی بنے اپنے گھروں میں لگنے والی اس آگ کو برداشت کرتے رہیں گے ؟؟؟
خدارا خدارا! بولیں اس سے پہلے کہ سب کچھ جل کر خاکستر ہو جائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “رشتوں کی بھینٹ”

  1. شہنازروءف اسلام آباد Avatar
    شہنازروءف اسلام آباد

    رشتوں کی بھینٹ جیسے ڈرامےہماری قدرں کے منافی ہیں.شہناز