شیرباز خان مزاری

شیرباز خان مزاری نے عمران خان سے کہا: ” ایک غلطی کر چکا، آئندہ نہیں کروں گا “

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاروق عادل :

مزاری صاحب نے اپنی یادوں کو آواز دی اور بتایا کہ بھٹو صاحب نے یحییٰ خان کو لاڑکانہ میں شکار پرمدعو کر رکھا تھا، مجھے کہنے لگے کہ تم بھی آجاؤ، وہ اُدھر پڑا سوتا رہے گا ہم گپ لگائیں گے۔

ایام نوجوانی میں سردار شیر باز خان مزاری اور بھٹو صاحب میں دوستی بہت گہری تھی، دونوں ہم عمر تھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ملک میں ایک نئی طرز کی سیاست کے خواب دیکھتے تھے۔ بھٹو صاحب نے انھیں مدعو کیا تو اس کے پیچھے بھی راز تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر بھٹو صاحب اپنے مستقبل کا تعین کر چکے تھے اور اب وہ چاہتے تھے کہ مزاری صاحب جیسے طاقت ور، پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ بھی ان کے ساتھ آجائیں۔ یہ وہی شب تھی جب بھٹو صاحب نے مزاری صاحب کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ رات بھر بات چیت رہی۔ دوران گفتگو کوئی ایسا نکتہ سامنے آگیا جس پر دونوں میں اختلاف ہوا اور مزاری صاحب نے کہا کہ اگر فلاں معاملہ فلاں طریقے سے نمٹایا گیا تو یہ عوام کے مفاد میں نہ ہو گا۔

مزاری صاحب کہنے لگے:
” بھٹو صاحب نے یہ بات سنی، مسکرائے اور کہا کہ عوام کا کیا ہے، وہ تو کسی بھی حال میں جی لیتے ہیں۔ “

” بس ! میں نے یہ سنا اور سوچا کہ اس شخص کے ساتھ میں نہیں چل سکتا ۔“ مزاری صاحب نے بتایا۔

مزاری صاحب کو سمجھنے کے لیے ویسے تو یہی ایک واقعہ کافی ہے لیکن وہ ہماری سیاست کی ایسی شخصیت ہیں جن سے ہر قومی مسئلے اور پیچیدگی کے موقع پر راہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

یہ 1999ء کی بات ہے، عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور تحریک انصاف کراچی چیپٹر کے بعض دیگر ذمہ داران کے ساتھ ان کے ہاں آئے اور کہا کہ
” نواز شریف کو ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارا ساتھ دیں تاکہ یہ مرحلہ آسانی کے ساتھ طے کیا جاسکے۔ “

مزاری صاحب نے اپنے مہمانوں کی بات خاموشی کے ساتھ سنی اور سوال کیا:
” کیوں؟ نواز شریف کو کیوں ہٹایا جائے؟ قوم نے اسے دو تہائی اکثریت دی ہے، اسے ہٹانے کا کوئی قرینہ نہیں۔“

یہ بات کہہ کر مزاری صاحب نے لحظہ بھر سانس لی پھر کہا کہ ایک بار ایسی غلطی مجھ سے ہو چکی، آئندہ نہیں ہوسکتی۔

مزاری صاحب نے اس ملاقات میں اپنی جس غلطی کا اعتراف کیا، وہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔
1977ء میں جب بھٹو صاحب اور حزب اختلاف کے مذاکرات چل رہے تھے، پاکستان قومی اتحاد کے درمیان اختلاف ہوا اور اس کے قائدین دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ جس کی قیادت مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور اور نواب زادہ نصراللہ خان کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ معاہدہ ہو جائے تاکہ ملک کے حالات معمول پر آ سکیں۔

ان کے مقابلے جو دوسرا گروپ تھا، اس کی قیادت اصغر خان، مزاری صاحب، مولانا نورانی اور بیگم نسیم ولی خان کر رہے تھے، چاہتے تھے کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں اور مارشل لا لگا دیا جائے کیوں کہ ان لوگوں کی نگاہ میں بھٹو صاحب سے نجات کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

1999ء میں مزاری صاحب کے سامنے جب نواز شریف کو بالکل اسی طرح ہٹانے کی تجویز آئی اور اس منصوبے میں شرکت کی انھیں دعوت بھی دی گئی تو دوٹوک الفاظ میں انھوں نے نہ صرف اس منصوبے کو مسترد کر دیا بلکہ ماضی کی اپنی اسی جیسی غلطی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس پر ندامت بھی ظاہر کی۔

1977ء میں جن لوگوں سے مارشل لا کا ساتھ دینے کی غلطی ہوئی تھی، ان میں واحد مزاری صاحب ہی تھے جنھوں نے ایسی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا۔

نوے کی دہائی میں جب غلام اسحٰق نے نواز شریف کی پہلی حکومت کا خاتمہ کرنے کی تیاری کی، انھیں وزارت عظمیٰ کی پیش کش ہوئی لیکن اس بار بھی انھوں نے اس سازش میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے انکار کے بعد ہی ان کے بھائی میر بلخ شیر مزاری کو اس عہدے کی ہیش کش ہوئی اور انھوں نے اسے قبول بھی کیا۔

مزاری صاحب فیوڈل تھے لیکن خود کو ورکنگ کلاس کے ساتھ ایسوسی ایٹ کرتے تھے۔ کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے، کتابوں میں انھیں آپ بیتیاں پسند تھی۔ وسط ایشیا میں سوویت یونین کی توسیع پسندی کے خلاف جدوجہد کرنے والے اساطیری کردار امام شامل ان کی پسندیدہ شخصیت تھے۔

باغبانی ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا، ایک زمانہ تھا ان کے گھر کا لان ہر سال خوب صورتی کے مقابلے میں اول آتا۔ اس لان میں چیکو کے بہت سے درخت تھے، بیگم صاحبہ اپنے ہاتھ سے ان کی آئس کریم بناتیں جو مہمانوں کو پیش کی جاتی، اس آئس کریم سے لطف اندوز ہونے کا اعزاز مجھے کئی بار ملا۔

آج وہ راہی ملک عدم ہوئے ہیں تو سوچتا ہوں ان کی عظیم الشان لائبریری کا جانے اب کیا بنے گا ؟ اللہ مزاری صاحب کو اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل فرمائیں۔
( بشکریہ آوازہ ڈاٹ کام )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں