ابن فاضل :
بیرنگ کی ایک قسم ہوتی ہے اسے کے ٹائپ ( k type) بیرنگ کہتے ہیں. اس بیرنگ کر اندر سخت لوہے کی ایک کون علیحدہ سے لگتی ہے. کچھ عرصہ قبل ہم نے کچھ کے ٹائپ بیرنگ خریدے تو دکاندار نے بتایا کہ اس کے پاس کون نہیں ہیں آپ بہتر ہے فلاں دکان سے جاکر خود ہی خرید لیں. کیونکہ اس دکاندار کی فیکٹری ہے اور سب لوگ اس سے ہی خرید کرمہنگے داموں فروخت کرتے ہیں.
ہم اس دکاندار کے پاس گئے. اس کی بنی ہوئی کون دیکھی. بہت زبردست معیار تھا . بالکل اوریجنل جیسی لگ رہی تھی. لوہے کی قسم کے بارے میں جانا وہ بھی تسلی بخش تھی. تب اسے تعارف کروایا کہ ہم بھی مینوفیکچرر ہیں اور مختلف پرزے بناتے ہیں. اس دکان دار نے کہا اس کی قیمت پچیس سو ہے آپ بائیس سو دیدیں. سب دکان دار ہم سے یہ پچیس سو کی خرید کر چھ سے سات ہزار روپے کی بیچتے ہیں.
ہم نے کہا بھائی ! ہم کیوں کم دیں. جب آپ نے قیمت پچیس سو مقرر کررکھی ہے تو ہم بھی پچیس سو میں ہی لیں گے. ہمیں اس قیمت میں خرید کر بھی بہت فائدہ ہے. اور دوسری بات کہ ہم آپ کو مناسب منافع دیں گے تو آپ کے پاس مزید مشینیں خریدنے اور معیار مزید بہتر کرنے کی گنجائش ہوگی نا.
اگر ہم آپ کو بس زندہ رہنے جتنا منافع دیں گے تو آپ کیسے جدید ٹیکنالوجی خریدیں گے کیسے اپنی مصنوعات میں مزید بہتری لائیں گے. وہ دکان دار کہنے لگا کہ میں بیس سال سے یہاں دکان چلا رہا ہوں آج پہلی بار کوئی گاہک ملا ہے جس نے رعایت ٹھکرائی ہے تاکہ ہم ترقی کرسکیں.
میرے نزدیک یہی اصل ترقی ہے. جب ہم یہ سوچیں کہ سارے کا سارے منافع میری جیب میں آجائے اور باقی سب جائیں بھاڑ میں، تو بظاہر یہ بات بہت منافع بخش لگتی ہے مگر حقیقی طور پر اجتماعی معاشرے کے تخیل کے خلاف ہے.
جاپان میں یونیورسٹی کی سطح پر 1994 میں ایک سروے کیا گیا تھا جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ دوبار کے ایٹم بم زدہ معاشرے نےمحض پچاس سال میں اتنی ترقی کیسے کرلی کہ وہ دنیا میں فی کس آمدنی کے لحاظ پہلی دس قوموں میں آگئے . تو اس سروے کے جواب میں انہیں معاشرے کے جو عمومی مثبت رویے اس ترقی کی وجہ لگے اسے، انہوں نے ایسے پیش کیا.. We care and we share یعنی ہم خیال رکھتے ہیں اور مل بانٹ کر کھاتے ہیں.
دنیا کی ساری مہذب قوموں نے شئیر اینڈ کئیر کو نعرہ بنالیا ہے. جب کہ پسماندہ ذہن اور پسماندہ رویے ابھی بھی ’ سب کچھ میرا‘ پر اٹکے ہیں. الحمدللہ ہماری کمپنی کے سب وینڈر سب سے پہلے ہمارا کام کرتے اور دن رات دعا بھی کرتے ہیں کہ یااللہ ان کو اور کام ملے اور یہ ہم سے اور کام کروائیں. کیونکہ ہم ان کو زیادہ معاوضہ دیتے ہیں.
اللہ کے فضل سے ہمیں اور بھی زیادہ ملتا ہے. ویسے بھی اللہ کے نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی اپنے بھائی کیلئے پسند کرو. جب مجھے یہ پسند ہے کہ مجھے زیادہ منافع ملے تو یہی بات میں اپنے متعلقین کیلئے کیوں نہ پسند کروں. تو پھرکون کون ہے تیار مل بانٹ کر کھانے کے لیے…؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیلنج
اٹھارہ سال قبل ایک بہت بڑی کمپنی کی کنسلٹنیسی کرتا تھا. لاہور میں ٹریکٹر کے پرزے بنانے والے اس وقت کے چار بڑے اداروں میں سے ایک تھا. اس وقت پاکستان میں سی این سی مشینوں کا دور شروع ہوا تھا. میں نے ان سے کہا کہ آپ بھی سی این سی مشینوں پر شفٹ ہوجائیں. انہوں نے کہا ہمارا کام بہترین ہے. ہمیں اس کی ضرورت نہیں.
اسی طرح ڈھلائی میں بھی نئے اور جدید نظام کے استعمال کا مشورہ دیا. وہ بھی انہوں نے یہی کہہ کر انکار کردیا کہ ہمارے کام کیلئے ہمارا پرانا نظام ہی درست ہے. ہم نے اپنے طے شدہ معاہدہ کی مدت تک مجوزہ کام میں راہنمائی فراہم کی اور پھر کافی عرصہ ان سے رابطہ نہیں ہوا.
کچھ دن ہوئے اس کمپنی کے ایک ڈائریکٹر کا فون آیا. اور ملاقات کیلئے وقت مانگا. وقت مقررہ پر چاروں ڈائریکٹر تشریف لائے. ہمیں بہت اشتیاق تھا کہ کوئی بہت ہی بڑی بات ہوگی. رسمی گفتگو کے بعد کہنے لگے کوئی کام بتائیں ہمارا کام بالکل ختم ہوگیا ہے……
یاد رکھیں، کاروبار بطور خاص فیکٹری میں نئی تکنیک، نئی مشینیں نئے طریقے اپنانا از حد ضروری ہے. آج دنیا ایک پلیٹ میں ہے. یہ مت سمجھیں کہ ہمارا مقابلہ ساتھ والی فیکٹری سے بلکہ اب ہمارا مقابلہ فی الحقیقت ساری دنیا سے ہے. جو فیکٹری آٹومیشن نہیں کرے گی، نئے طریقے، نئے سسٹم نہیں اپنائے گی بہت جلد مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوجائے گی.
ہمیں تو چین کا ہمسایہ ہونے کے ناتے اور سی پیک کی وجہ سے زمینی رابطہ ہونے کی وجہ سے بطور خاص بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے. ہم تو بالکل بھی غافل نہیں ہو سکتے. پاکستانی صنعت کاروں سے میری خصوصی استدعا ہے کہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے جس قدر جلد ممکن ہو جدید ترین ٹیکنالوجی اختیار کریں اور اس کے حساب سے اپنے کاریگروں کی تربیت کریں یہ نہ ہو کہ خدانخواستہ ہمیں فیکٹریوں کی جگہ چینی مصنوعات کے گودام بنانا پڑجائیں.