مظفر وارثی

رب کی عطا کا شاعر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمیرا غزل :

محبت وہ سر ہے جس میں حق چھپا ہوا اور اس حق نے محبت کو ایک ایسی طاقت عطا کی ہے کہ جو جذبے کو نمو بخشتی ہے، اور پھر یہی جذبہ کوہ ہمالیہ سر کرا لیتا ہے۔

محبت کا در ان پر وا ہوتا ہے، جن کے دل شفاف ہوتے ہیں جو دنیاوی آلائشوں سے پرے زندگی گزارتے ہیں ، محبت وہ کوہ صفا ہے جو سعی کو کامل کرتا ہے، محبت رات کی خاموشیوں سے نکلنے والی اس روشنی کا نام ہے جو برگزیدہ لوگوں کو عطا ہوتی ہے ، محبت صحرا نشینوں کو کل عالم کا فاتح بنا دیتی ہے، محبت کونپلوں کی طرح پھوٹتے جذبوں کو مہمیز عطا کرتی ہے ، محبت دل کے نہاں خانوں میں چھپے کمالات کا نام ہے۔

محبت رب سے ہو تو عطا ہے۔
محبت رب کے محبوب سے ہو تو عطا در عطا ہے۔
محبت کا اپنا مزاج ہے ، اپنی کیفیات ہیں ، اپنے انداز ہیں اور ہر اس شخص میں یہ ایک خاص انداز میں خود کو نمایاں کرتی ہے جو محبت کے چشمہ صافی کو پالیتا ہے۔
محبت بندگی رب ہے۔
محبت اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
جب محبت اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھلتی ہے تو عشق بن جاتی ہے اور ذرا دیکھیے کہ عطائے ربی عطائے عشق مصطفی میں اپنے بندے سے کیا کہلواتی ہے۔

جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا
شاید حضور ہم سے خفا ہیں منا کے لا

یعنی سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا عالم یہ ہے کہ زندگی میں جب کبھی گھٹن محسوس ہوتی ہے یہی لگتا ہے کہ کہیں کوئی ایسا کام یا خطا تو سرزد تو نہیں ہوگئی جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا سبب بنے اور اس سبب اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بن جائے گویا کہ اس حدیث کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ ایمان کامل ہونے کی شرط یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر رشتے سے زیادہ محبوب ہوجائیں اور زندگی میں ہر عمل ان کی اطاعت سے منسوب ہوجائے۔

میری خواہش اگر پوچھی انھوں نے
میں استحکام ارض پاک لوں گا

اس شعر کی خوبصورتی ملاحظہ کیجیے اور اس میں چھپے یقین کی شیرینی و حلاوت کو محسوس کیجیے کہ اس پر گہرا یقین رکھیے کہ یہ وطن نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے قائم رہ سکتا ہے اور جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم آخری خواہش پوچھیں گے تو وہ اس پاک وطن کا استحکام ہی مانگیے۔

میں ان سے آخری دم تک مظفر
بصیرت آگہی ادراک لوں گا

عشق جب زمان و مکان کی سرحد پار اترتا ہے تو پھر بصیرت آگہی اور ادراک کے در وا ہوتے ہیں، سو اسی یقین کو اپنی آخری سانس تک قائم رکھیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوب کر ہی بصیرت آگہی اور ادراک حاصل ہوگا۔

مر کے اپنی ہی اداوں پہ امر ہوجائوں
ان کی دہلیز کے قابل میں اگر ہوجائوں

پھر اس شعر کو دیکھیے کہ انسان کی معراج ہی اس بات میں ہے کہ اپنی کل زندگی اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو بننے میں وقف کردی جائے کہ یہی وہ ادا ہے جو انسان کو امر کرنے والی ہے۔

زندگی نے تو سمندر میں مجھے پھینک دیا
اپنی مٹھی میں وہ لے لیں تو گوہر ہوجائوں

زندگی کے پر پیچ رستوں پر چلتے ہوئے ہر دم اس احساس کا ساتھ ہونا کہ اس میں جو بھی مشکلات ہیں وہ صرف ایک نگاہ سے دور ہوسکتی ہیں اور ان کی نگاہ ہی کسی کھوٹے کو کھرا بنا سکتی ہے، ذرہ کو گوہر کرسکتی ہے،یقیناً اس بات کی دلیل ہے کہ کہنے والا صرف الفاظ نہیں لکھ رہا بلکہ عشق کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہے۔

میرا محبوب ہے وہ راہبر کون و مکاں
جس کی آہٹ بھی میں سن لوں تو خضر ہوجائوں

زندگی کے ہر سفر میں اپنا راہبر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو مانیے اور یہ یقین رکھیے کہ اس راستے کو اپنا کر ہم کبھی راہ سے بھٹک نہیں سکتے۔

نبی کے رستے کی خاک لوں گا
میں سب سے قیمتی پوشاک لوں گا

عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سفر میں وہ راستے ہر راستے سے زیادہ محبوب لگتے ہیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک گزرے اور ان کے راستے کی خاک کو وہ سب سے قیمتی لباس سمجھیے، یعنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کی پیروی کرنا سب سے زیادہ محبوب ہے۔

محل مینار کیا کرنے ہیں مجھ کو
مدینے کے خس و خاشاک لوں گا

یہ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جب رگ وپے میں پیہم اتر جاتا ہے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ پھر دنیا ہیچ لگتی ہے اور اس راہ کے خس و خاشاک بھی اچھے لگتے ہیں جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ گزر تھی، محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر تھا۔ اور اس عشق میں ڈوب کر اپنی اول خواہش کا اظہار ہوتا ہے کہ مجھے ان محلوں میناروں سے کیا لینا بس مدینے کے خس و خاشاک مل جائیں تو زندگی کی ہر نعمت مجھے مل گئی۔

شاہ کونین کی فاقہ کشی سے
میں اپنی روح کی خوراک لوں گا

اور بے شک اس خوراک سے بہتر کون سی خوراک ہوگی؟ اس جذبے سے بڑھ کر کون سا جذبہ ہوگا ؟مگر اس شعر کو پڑھتے ہوئے دل تڑپ گیا یارب ! یہ کون ہے جس کی روح میں یوں اترے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔

میرا پیمبر عظیم تر ہے
جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آکر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

ان چند مصرعوں کو دیکھیے تو آقائے دو جہاں کی حیات کے بہت سے روشن پہلو ،جن کی ہمیں اللہ اور رسول صہ نے خود تاکید کی ہے، نظر آتے ہیں،اور یہ بھی صاف نظر آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اخلاقی ضابطے کے ساتھ ساتھ اعلائے کلمتہ الحق والی زندگی کے پہلو سے نہ صرف اچھی طرح واقفیت ضروری ہے، بلکہ دل سے مانیے کہ اس راستے پر بحیثیت امتی ہم بھی چلیں۔

تو حقیقت ہے میں صرف احساس ہوں
تو سمندر ہے میں بھٹکی ہوئی پیاس ہوں
میرا گھر خاک پر اور تری راہ گزر
سدرتہ المنتھی

عشق میں پھر ایک نیا در وا ہوا ہے بے شک ایسے مصرعے کسی ایسے شخص سے ہی ہوسکتے ہیں جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب چکا ہو اور پھر یہ تسلیم کرنے پر آمادہ ہوا ہو کہ شہ ابرار ہی حقیقت ہیں، وہی بزرگ و برتر اور افضل البشر ہیں۔

میں نے جب آپ کی دہلیز کو آقا چوما
یوں لگا آپ نے جیسے میرا ماتھا چوما

اتنی قربت اتنی محبت صرف ایک ہی شعر میں کہ گویا شاعر نے عشق کی وہ منزلیں پار کر لی ہیں کہ دہلیز کو چومنے پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم ماتھا چومتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اس شعر میں شدت بھی اورحدت بھی لہو کو گرما دینے والی تپش بھی۔

مری بینائیوں میں آپ کی پرچھائیں رہتی ہے
مری آنکھیں ہیں سکے یادگاری یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

اور پھر محبت،عشق وارفتگی کے پل پار کرتے کرتے ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ جب ہر دم عاشق کی آنکھوں میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی پرچھائیں رہتی ہے اور وہ یادگاری سکے بن جاتی ہیں ۔

جی ہاں ان لطیف، سچے اور کھرے جذبات کے مالک اور ان نعتیہ اشعار کے خالق جو میں نے یہاں پیش کیے ہیں محترم جناب مظفر وارثی صاحب ہیں۔

یہ تو صرف چند مثالیں ہیں ،آپ کا مکمل کلام تو عیون جاریہ کی مانند ہے ۔

غرض کہ مظفر وارثی صاحب کے نعتیہ کلام کو پڑھتے ہوئے لطیف احساسات کی بارش ہوتی ہے،ان کے اشعار منبع انوار معلوم ہوتے ہیں، نعت سنتے جائیے،آگے بڑھتے جائیے اور سرور کی بارش میں بھیگتے جائیے کہ اچانک اس سفر میں دل سے آواز آتی ہے ہر شعر خوب است۔

میں بالیقین کہتی ہوں کہ مظفر وارثی عطا کے شاعر ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں