ڈاکٹر خولہ علوی :
” پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے خدشات کے پیش نظر حکومت پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 26 نومبر 2020ء سے 11 جنوری 2020ء تک پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔“ عابد بھائی نے باآواز بلند اہل خانہ میں اس خبر کا اعلان کر دیا۔ چھوٹے بچے خصوصاً لڑکے خوش ہو گئے اور مختلف طریقوں سے اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگے لیکن خنساء پریشان ہو گئی۔ امی جان اور ابو جان کے چہروں پر بھی تاسف کے اثرات نمایاں تھے۔
گزشتہ کئی روز سے پھیلتی اس خبرکی جب سرکاری طور پر تصدیق ہو گئی تو جہاں بعض شوقین طلبہ نے خوشیاں منائیں، وہیں سنجیدہ طلبہ نے دل سے اس بات کا غم محسوس کیا۔
خنساء نویں کلاس کی سمجھدار، حساس اور ذہین طالبہ تھی۔ اسے تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس کے والدین خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اس کی تعلیم اور صلاحیتوں کی قدر کرتے تھے۔ اس کی والدہ نے اسے بچپن سے دعائیں اور تیسویں پارے کی کئی سورتیں حفظ کروا رکھی تھیں جن کو وہ مختلف مواقع کے اعتبار سے پڑھتی اور یاد رکھتی تھی۔ کلاس اور سکول میں اساتذہ اور لڑکیاں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ گردوپیش میں ہونے والے واقعات کو وہ غور اور تفکر کرتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کرتی تھی۔
خنساء کو نویں کلاس کے بورڈ کے ہونے والے اپنے امتحان کی فکر لاحق ہو رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اب معلوم نہیں نویں کلاس کے بورڈ کےامتحان کب ہوں گے؟اور جب ہوں گے، تب اس کی کلاس میں متوقع پوزیشن کون سی ہوگی۔۔۔؟؟؟
” جب تعلیمی ادارے بند ہوں گے اور تعلیم کا باقاعدہ سلسلہ رک جائے گا تو پھر طلبہ کا کیا بنےگا۔۔۔؟؟؟ ان کی صورتحال کیا ہوگی؟
اگر حال تباہ ہو جائے تو پھر مستقبل کیسا ہوگا۔۔۔؟
بڑی کلاسوں کے بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحان کب ہوں گے۔۔۔؟
ان کے کیا نتائج سامنے آئیں گے۔۔۔؟ “
ابو جان خنساء کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
” اس خبر پر خوشیاں منانے والے، بھنگڑا ڈالنے والے اور واٹس ایپ، فیس بک وغیرہ پر اپنی خوشیاں شیئر کرنے والے اور وقت کا ضیاع کرنے والے لوگوں خصوصاً طلبہ کی تعداد زیادہ ہے۔“ عابد بھائی نے بتایا۔
” بہت سے طلبہ نے اس خبر کی تصدیق سے بھی پہلے، چھٹیوں سے پیشتر اس قسم کے سٹیٹس لگائے ہوئے ہیں۔ اپنی طرف سے وہ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن وہ عقل و شعور نہیں رکھتے یا خود سمجھنا نہیں چاہتے کہ ان کا کتنا نقصان ہوگا!!!“ خنساء بولی جس کے ذہن کو یہ باتیں مسلسل کلک کر رہی تھیں۔
” اب پھر ڈیڑھ ماہ کے لیے تعلیم کا سلسلہ تقریباً منقطع ہو جائے گا۔ کیونکہ آن لائن تعلیم روایتی تعلیم کے مترادف نہیں ہو سکتی۔ پھر ہر ایک کے پاس آن لائن تعلیم کی سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں۔“
امی جان نے بھی اداسی سے تبصرہ کیا۔ خنساء کا ذہن تعلیمی اداروں کی چھٹیوں والی بات پر آکر جیسے رک سا گیا تھا۔ اور اس کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی کہ ” چھٹیاں کیوں ہو رہی ہیں؟
ان کی وجہ سے کتنے نقصانات ہوں گے؟
ان کا ازالہ کیسے ممکن ہوگا؟“
” اب صورتحال پہلے سے کافی فرق ہے۔ پہلے جب چھٹیاں ہوئی تھی تو اکثر لوگوں کو خوف اور ڈر تھا لیکن اب عوام الناس کے ذہنوں سے کورونا بیماری کا خوف کافی حد تک نکل چکا ہے لیکن حکومت کے کہنے کے مطابق کورونا بیماری بڑھ رہی ہے۔ لوگ بے خوف اور نڈر ہیں اور احتیاطی تدابیر پر بہت کم عمل کر رہے ہیں۔“ ابو جان نے حالات حاضرہ پر تبصرہ کیا۔
خنساء نے خود بھی یہ بات نوٹ کی تھی۔
صبح سکول میں خنساء کو حتمی طور پر معلوم ہوگیا کہ کورونا وائرس کی دوبارہ پھیلتی بیماری کی وجہ سے واقعی تمام تعلیمی اداروں میں ایک دفعہ پھر چھٹیاں کر دی گئی ہیں تو خنساء مزید پریشان ہوگئی۔ اس کے دل کی اداسی بڑھ گئی۔ کچھ بچّے دوبارہ ہونے والی ان چھٹیوں کی وجہ سے بہت خوش تھے لیکن سمجھدار بچوں کے چہروں سے پریشانی جھلک رہی تھی۔
سکول میں صبوحی (Morning) اسمبلی میں پرنسپل صاحبہ نے ان تعطیلات کے بارے میں بات کرتے ہوئےکورونا وائرس کے بارے میں کچھ احتیاطی تدابیر اور باتیں دہرائیں۔
” عزیز طالبات! ان تعطیلات میں آپ اپنی پڑھائی کا پورا خیال رکھیں۔ نظام الاوقات (Time Table) بنائیں اور اس کے مطابق عمل بھی کریں۔ اپنے قیمتی وقت کو ضائع مت کریں۔
کورونا کی دوسری لہر میں ہم آپ کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی پر زور تلقین کررہے ہیں مثلاً ماسک، سینی ٹائیزر، دستانوں کا استعمال، جسمانی صفائی اور زیادہ تر باوضو رہنا وغیرہ کا آپ لوگ مکمل اہتمام کریں، اپنے گھر والوں کو بھی ان کے بارے میں یاد دہانی کرواتی رہیں۔ اگر آپ کے گردوپیش میں کورونا کا کوئی مریض ہے تو وہاں حفاظتی تدابیر کا خصوصی خیال رکھیں۔“ پرنسپل صاحبہ نے سمجھایا۔
” اس کے علاوہ روحانی احتیاطی تدابیر کے لیے نمازوں کی پابندی کریں اوراللہ تعالیٰ سے اس اجتماعی وبا کے لیے توبہ و استغفار بھی کریں۔“ پرنسپل صاحبہ نے بات جاری رکھتے ہوئے شفقت سے انہیں کہا۔ خنساء کو یہ بات پسند آئی۔ دیگر طالبات بھی اثبات میں سر ہلا رہی تھیں۔
پھر جب طالبات اپنی اپنی کلاسوں میں چلی گئیں تو کمرہ جماعت میں ٹیچرز نے بھی کورونا وائرس کی بیماری کے بارے میں دوبارہ ساری باتیں تفصیل سے بتائیں اور ان کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی مزید تلقین کی۔ پھر انہوں نے طالبات کو چھٹیوں کا کام دیا اور انہیں پڑھائی کے حوالے سے بھی اچھا خاصا لیکچر دیا۔
”عزیز طالبات! آپ نے اپنے گھروں میں یہ چھٹیاں ضائع نہیں کرنی بلکہ ان سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔“ ٹیچرز نے ان کی رہنمائی کرتے ہوئے سمجھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14 مارچ 2020ء کو جب کورونا وائرس کی پھیلتی بیماری کی پہلی لہر کی وجہ سے اچانک تمام تعلیمی اداروں میں چھٹیاں کر دی گئی تھیں، تب ان ناگہانی تعطیلات پر عام طلبہ کی طرح خنساء کے دل میں بھی خوشی سر اٹھا رہی تھی۔ اگرچہ حالات کی وجہ سے خنساء کچھ پریشان بھی ہوئی تھی لیکن تب پریشانی کی شدت اتنی زیادہ نہیں تھی۔
” پہلے تین ہفتوں کے لیے ہونے والی چھٹیاں چھ ماہ پر محیط ہو گئی تھیں۔ معلوم نہیں اب کیا صورتحال ہوگی؟“ خنساء نے عابد بھائی سے کہا۔
” اب حالات پہلے سے مختلف ہیں۔ لوگ بے خوف ہو چکے ہیں۔ خدانخواستہ کہیں کورونا بیماری کی شدت بڑھ نہ جائے۔“ عابد بھائی نے جواب دیا۔
خنساء کو آنے والی صورت حال پریشان کن دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے ذہن کے مختلف گوشوں میں چھ ماہ تک رہنے والی ان تعطیلات کی بہت سی یادیں رفتہ رفتہ تازہ ہوتی چلی گئیں۔
ابتدا میں کورونا وائرس کی وجہ سے عام لوگوں کے اندر یا تو بہت زیادہ خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا یا پھر انہیں اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہوتی تھی اور وہ ان تمام باتوں سے سرے سے بے نیاز تھے۔ حکومت نے کورونا وائرس کی پھیلتی پہلی لہر کی وجہ سے اول تو 14 مارچ 2020ء کو تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے تھے۔ پھربالآخر کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگانے کامشکل فیصلہ بھی کرلیا تھا۔
خنساء اور عابد اس لفظ کا مفہوم سمجھتے تھے لیکن اس کے باقی بہن بھائیوں کے لیے ” لاک ڈاؤن “ ایک نیا لفظ تھا۔
” لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے؟“ انہوں نے ابو جان سے پوچھا تھا۔
” لاک ڈاؤن کا مطلب ہوتا ہے کہ ’ کسی خطرے سے بچنے کےلیے گھروں میں رضاکارانہ طور پر بند ہوجانا۔‘
کیونکہ اس وقت محفوظ رہنے کا یہی واحد حل نظر آرہا ہوتا ہے۔“ ابو جان نے انہیں سمجھایا تھا۔
” لاک ڈاؤن سے اگر کورونا بیماری کے کنٹرول کامعاملہ حل نہ ہو تو پھر اس کے بعد کرفیو کی نوبت بھی آسکتی ہے۔“ انہوں نے بچوں کو مزید بتایا تھا۔
خنساء کی چھوٹی بہن شمسہ آٹھویں کلاس کی ذہین اور سمجھ دار طالبہ تھی۔ 24 مارچ 2020ء کو جب لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا تو امی جان نے بھی بچوں کو لاک ڈاؤن کا تصور بتایا اور سمجھایا تو شمسہ پریشان سی ہو گئی۔
” اس کا مطلب ہے کہ کرفیو اور لاک ڈاؤن تقریباً ایک ہی چیز ہوتی ہے۔“ اس نے پوچھا تھا۔
” جی بیٹی!“ امی جان نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
” انڈیا نے پورے کشمیر کو تقریباً آٹھ ماہ سے کرفیو لگا کر لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے۔ وہاں کشمیری مسلمانوں کی زندگیاں کس عذاب سے گزر رہی ہوں گی!
ان کی خوراک کی کیا صورتحال ہوگی؟
ان کے بیماروں کی زندگیاں کیسے بسر ہوتی ہوں گی؟
ان کے بزرگ کیسے جیتے ہوں گے؟
ان کے بچے کیسے وقت سے پہلے بڑے اور سنجیدہ ہوجاتے ہوں گے؟
ان کی خواتین کی زندگیاں کیسے جہنم بنی ہوں گی؟
اب مسلمانوں کو بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو کشمیریوں کی بے بسی اور پریشانی کا معاملہ سمجھ آئے گا۔“ اس نے مزید کہا تھا۔
” شاباش! آپ نے اپنے معاشرتی حالات کا موازنہ فوراً کشمیریوں کے حالات سے کیا ہے۔اور ان کے دکھ دردکو محسوس کیا ہے۔“ امی جان نے شمسہ کے ان تاثرات پر جہاں خوشی محسوس کی تھی، وہیں کشمیریوں کے دکھ پر ان کے دل میں غم کی لہر اٹھی تھی۔ ساتھ ساتھ موجودہ حالات کی وجہ سے ان کے دل میں پریشانی سر اٹھا رہی تھی۔
” کشمیر میں تو کورونا وائرس کی بیماری کا مسئلہ بالکل نہیں ہوگا کیونکہ وہاں تو وہ پہلے ہی تقریباً آٹھ ماہ سے لاک ڈاؤن میں ہیں۔“ شمسہ نے بات جاری رکھی تھی۔
” جی! واقعتاً یہ بیماری مقبوضہ کشمیر میں نہیں پہنچی۔ بلکہ آزاد کشمیر میں بھی کورونا وائرس کے تاحال اکا دکا کیس سامنے آئے ہیں۔“ امی جان نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا تھا۔
” یہ حیران کن بات ہے کہ نہ صرف کشمیر میں بلکہ شام اور فلسطین کے علاقے میں کرونا وائرس کی بیماری کا تادمِ تحریر ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا۔“ ان کی والدہ نے مزید بتایا تھا۔
” پھر پاکستان میں کورونا بیماری کے پھیلاؤ کی اب کیا صورت حال ہے؟“ شمسہ نے پوچھا تھا تو ان کی والدہ نے انہیں حالات سے آگاہ کیا تھا۔
انہوں نے بچوں کو نہ صرف لاک ڈاؤن بلکہ متعلقہ تمام اصطلاحات کا مفہوم بھی سمجھایا تھا مثلاً کرفیو، قرنطینہ (Quarantine)، قید تنہائی /آئسولیشن (Isolation)، سماجی فاصلے (Social Distance), ماسک، سینی ٹائزر، حفاظتی تدابیر (S.O.Ps) وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغاز میں کورونا وائرس کے بارے میں بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار رہے تھے۔ ان کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ کسی مہلک بیماری کا نام ہے۔ خاص طور پر لفظ ” وائرس “ کے متعلق ان کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وائرس کیا ہوتا ہے؟ یہ کوئی انسان ہے یا جانور؟ جن بلا ہے یا بھوت پریت؟ کوئی گاڑی ہے یا موٹر سائیکل؟ کھانے والی کوئی چیز ہے یا پہننے اوڑھنے والی؟ وغیرہ۔
لاک ڈاؤن کے پہلے دن 24 مارچ 2020ء کو صبح تقریباً گیارہ بج چکےتھے۔ خنساءکے بہن بھائی متجسس تھے۔
” لاک ڈاؤن میں کیا ہوگا؟ کیا سب کچھ بند ہو جائے گا؟“ وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ۔
” گھر کے گیٹ اور کھڑکیوں سے جھانک کر ارد گرد کی صورتحال دیکھتے ہیں۔“ انہوں نے آپس میں اشارے کرتے ہوئے کہا۔
” کچھ لوگ ابھی تک سڑکوں اور گلیوں میں چل پھر رہے ہیں اور ان کے بولنے کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔“ خنساء کے بھائی خالد نے تبصرہ کیاتھا۔
” یہ تو پھر لاک ڈاؤن نہ ہوا۔“ شمسہ بولی تھی۔
” بازار اور مارکیٹیں تو چند دن قبل بند ہو چکی ہیں بلکہ پولیس نے زبردستی بند کروائی تھیں۔“ خالد بولا ۔ وہ اب گھر کے گیٹ پر کھڑا باہر کا جائزہ لے رہا تھا اور ساتھ اپنے رواں تبصرے بھی کررہاتھا۔ امی جان گھر کے اندر صفائی کرتے ہوئے اس کی باتیں سن رہی تھی۔ اچانک باہر سے ایک آدمی کے اونچے لہجے میں بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔ پہلے تو وہ قدرے پریشان ہو گئیں۔
” کہیں پولیس چیکنگ کرنے اور عوام کو زبردستی گھروں میں بند کرنے تو نہیں آگئی؟“ انہوں نے خالد کو آواز دے کر سوال کیا تھا۔
” نہیں۔“ خالد بولا تھا۔
” اگر پولیس آ بھی گئی ہے تو عوام الناس کے فائدے کے لیے ہی آئی ہے۔“ امی جان نے بچوں کی ذہن سازی کرتے ہوئے کہا تھا۔
پھروہ اپنے کاموں میں مشغول ہوگئی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد خالد ہنستا ہوا گھر کے اندر آگیا تھا۔
” سب کے لیے ایک ’بریکنگ نیوز‘ ہے۔“ وہ سب گھر والوں کو مخاطب کرکے کہنے لگا تھا۔
” کیا ہوا بیٹے؟ “ امی جان نے پوچھا تھا۔
” ابھی گھر کے باہر سے دو آدمی گزر رہے تھے۔ ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ ’ مینوں نہیں پتا کہ اے کورونا ویرس کیہڑی بلا اے؟ اے کسی موٹر سائیکل داناں اے؟ کوئی گڈی ہوندی ہے؟ یا اے ملتان ٹائم ہون دی ہے؟ پتہ نہیں اے تے کیہڑی شے دا ناں ہے؟‘
(مجھے پتا نہیں کہ کورونا وائرس کون سی بلا ہے؟ کیا یہ کوئی موٹر سائیکل ہوتی ہے؟ یا یہ کسی گاڑی کا نام ہے یا یہ ملتان ٹائم ہے؟ پتہ نہیں یہ کس چیز کا نام ہے؟) “ اس نے بتایا تھا تو گھر کے افراد ہنس پڑے تھے۔
” ایسے لوگوں کو کورونا وائرس کے بارے میں بھلا کس طرح بتایا اور سمجھایا جا سکتا ہے؟ “ خالد نے امی جان سے مزید کہا تھا۔
” بیٹا! جن افراد سے بات کرنے کا فائدہ ہے، یا جو جان پہچان والے لوگ ہیں، ان سے بات کیا کریں۔ باقی لوگوں کے معاملات اپنا درد سر نہ بنائیں۔ ہر راہ چلتے انسان کو ہم ہر بات نہیں سمجھا سکتے۔“امی جان نے اسے بھی سمجھایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خنساء کو ایک اور واقعہ یاد آ رہا تھا۔
24 مارچ کو جب لاک ڈاؤن لگا تھا اور اس کے بہن بھائی اس کے بارے میں متجسس ہو کر اندر باہر تاکا جھانکی کررہے تھے تو خنساء اندر کمرے میں آئی تھی تو وہاں ایک اور لطیفہ اس کا منتظر تھا۔ اس کی چھوٹی بہن شمسہ نے بتایا تھا کہ ” میں اس کمرے میں بیٹھی اسکول کا کام کر رہی تھی۔ کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور باہر سڑک سے آوازیں آرہی تھیں۔ دو آدمی گزرتے ہوئے آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ آخر ہمارے ملک میں تبدیلی آہی گئی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پورا ماحول ہی تبدیل ہو گیا ہے۔“
” استغفراللہ! اللہ کی پناہ! ایسی تبدیلی سے اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے۔“ امی جان نے یہ سن کر پریشانی سےکہا تھا۔
” آمین “ سب نے کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خنساء کے ذہن کی سکرین پر ایک اور واقعہ نمودار ہوا اور اس کے ہونٹ متبسم ہوگئے۔
لاک ڈاؤن کے دو تین دن بعد صبح ناشتہ کے وقت خنساء کی والدہ کو انڈوں کی ضرورت پڑگئی تھی۔
” بیٹا! گھر میں انڈے ختم ہو گئے ہیں۔ آپ مجھے سامنے والی دکان سے انڈے لادیں۔“ انہوں نے خنساء کے چھوٹے بھائی سات سالہ ساجد سے کہا تھا۔
” میں تو ’ لاک ڈاؤن ‘ ہوں۔ ابو جان نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ اب گھر سے باہر لاک ڈاؤن ہو جائے گا۔ تو آپ نے اب گھر میں ’ لاک ڈاؤن ‘ رہنا ہے اور گھر سے باہر نہیں جانا۔ آپ انڈے کسی اور سے منگوا لیں۔“ چھوٹے میاں کہنے لگے تھے۔
” واہ چھوٹے میاں! سبحان اللہ!“ اس کی والدہ ہنس پڑی تھیں۔ خنساء کو بھی زور سے ہنسی آگئی تھی۔
” منے! لگتا ہے کہ آپ کو لفظ لاک ڈاؤن بہت پسند آ گیاہے۔ تبھی اس کی گردان کیے جا رہے ہیں۔“ خنساء نے ساجد کو مخاطب کر کے کہا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات بچے بات بڑے خوبصورت انداز میں سمجھا دیتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ منے میاں کا یہ ’ لاک ڈاؤن‘ اپنی مرضی کا ہوتا تھا۔ جب انہیں والدہ گھر سے چند گھروں کے فاصلے پر واقع ٹیوشن ٹیچر کے گھر پڑھنے جانے کے لیے کہتی اور تیار کرتی تھیں تو وہ جانے کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتے تھے۔
” مجھے ابو جان نے ’ لاک ڈاؤن ‘ کیا ہوا ہے اور میری ٹیوشن بھی ’ لاک ڈاؤن ‘ ہے۔ لہٰذا میں نے ٹیوشن پڑھنے نہیں جانا۔ میں گھر میں سکول کا کام کرلوں گا۔“ وہ مسلسل کہتے رہتے تھے۔
لیکن جب خود ان کا باہر جانے کو دل چاہتا تھا تو گھر کا گیٹ کھول کر یا گیٹ کی درزوں سے جھانک کر دیکھ لیتے تھے۔
” سارے لوگ تو باہر آجا اور چل پھر رہے ہیں۔ تو اس لیے اب میں بھی ایک ’ بہت ضروری کام ‘ سے باہر جارہا ہوں۔“ وہ کہہ کر باہر چلے جاتے تھے۔ اور تب ان کو بھول جاتا تھا کہ ” مجھے تو ابو جان نے ’ لاک ڈاؤن ‘ کیا ہوا ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” امی جان! باہر سڑک پر چند لوگوں کا آنا جانا اور چلنا پھرنا جاری ہے۔ انہیں تو جیسے کورونا وائرس کے بارے میں کچھ خبر ہی نہیں کہ یہ کتنی خطرناک بیماری ہے؟ اور یہ بھی کہ ’ لاک ڈاؤن ‘ لگا ہوا ہے؟ “ خنساء کا بڑا بھائی عابد اپنی والدہ سے کہنے لگا تھا۔
ان کی والدہ نے اس وقت مناسب سمجھا تھا کہ بچوں کو ان حالات کے بارے میں مزید کچھ باتیں تفصیل سے سمجھا دیں۔
” لاعلمی اور جہالت یا دیگر وجوہات کی بنا پر (مثلاً دیہاڑی دار طبقہ کی غربت و افلاس کی مجبوری وغیرہ) اس طرحِ کے بے خبر لوگ اس بیماری کے بارے میں حفاظتی اقدامات اور تدابیر اختیار نہیں کرتے اور ان کی روزمرہ کی زندگی اسی روٹین کے ساتھ رواں دواں رہتی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انہیں کوئی مسئلہ لاحق ہی نہیں ہوتا اور لا علمی ہزار نعمت ثابت ہوتی ہے۔
یا پھر انہیں اپنی لا علمی کے بڑے سخت اور بھیانک نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔“ امی جان بتارہی تھیں اور بچے ہمہ تن گوش تھے۔
” بعض علاقوں میں اگر لاک ڈاؤن کے دوران سختی نہیں ہوتی اور لوگ چلتے پھرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہاں بیماری نہیں ہوتی۔ جیسے ہمارے علاقے میں کوئی کورونا مریض ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ الحمد للّٰہ۔ جن علاقوں میں کورونا مریض ہوں، بعض اوقات وہاں گھر کے علاوہ قریبی علاقہ بھی سیل کردیتے ہیں۔“ امی جان نے عابد کی بات کا جواب دیا تھا۔
” اللہ تعالیٰ کا پاکستانیوں پر فضل و کرم یہ بھی ہے کہ ان کا مدافعتی نظام (Immune system) مضبوط ہوتا ہے۔الحمدللہ۔
اسی وجہ سے محنت ومشقت اور جاں فشانی سے کام کرنے اور زندگی بسر کرنے والی پاکستانی قوم پر مغرب سےشروع ہونے اور پوری دنیا میں وائرل (پھیل) ہو جانے والی اس بیماری کا اثر کم دکھائی دیتا ہے اور انشاءاللہ کم ہی رہے گا۔
پاکستانی حکومت کے بروقت اٹھائے گئے انتظامات بھی بہتر اور موثر ثابت ہورہےہیں۔“ امی جان نے مزید بتایا ۔
بچوں کو جن باتوں کی سمجھ نہ آئی، ان کی والدہ نے انہیں آسان الفاظ میں سمجھا دیا تھا اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی تلقین کی تھی۔ ( جاری ہے )
2 پر “محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط اول )” جوابات
ماشاء اللہ بہت خوب اور دلچسپ تحریر ہے . پڑھ کر بہت مزہ آیا. کرونا کی وجہ سے بدلتے حالات نے تو دنیا بدل دی ہے.
ماشااللہ بہت خوب😍