سلیم صافی :
سفارتکاری صرف اور صرف قومی مفادات کے تحفظ کا نام ہے ۔ سیدھا سادہ کلیہ یہ ہے کہ کونسا ملک آپ کی کتنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور سفارتی یاا سٹرٹیجک محاذپر آپ کا کس قدر ساتھ دیتا ہے؟مثلاً ہم نے اس سے کبھی سروکار رکھا ہے اور نہ رکھنا چاہئے کہ چین کا اندرونی نظام کیسا ہے اور اس کی معاشرت کن خطوط پر استوار ہے؟اسی طرح ہمیں پسند ہو یا ناپسند لیکن ہمیں ترکی یا سعودی عرب یا ملائشیا وغیرہ کے اندرونی نظام سے بھی کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہم نے کبھی رکھا ہے ۔
غرض سفارتکاری دنیا کا نازک ترین کام ہے جس میں بلیک اینڈ وائٹ انداز میں نہیں سوچا جاتا بلکہ آپ کو گرے (Gray) ایریاز سے میں اپنا راستہ نکالنا ہوتا ہے ۔
مذکورہ پیمانوں پر پرکھتا ہوں تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہمارے لئے دنیا کے اہم ترین ممالک بن جاتے ہیں ۔ کیونکہ یہ دو ممالک لاکھوں پاکستانیوں اور بالخصوص غریب پاکستانیوں کے رزق کا وسیلہ اور پاکستان کے لئے اربوں روپے کے زرمبادلہ کا ذریعہ ہیں ۔
انہوں نے ہماری خاطر انڈیا سے ٹکر نہیں لی لیکن جب ہم نے انڈیا کے جواب میں دھماکے کئے تو سعودی عرب نے ہماری مدد کی ۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ گزشتہ چند برسوں میں مڈل ایسٹ کی سیاست اور معیشت میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ ایک تو صرف تیل پر ان کی معیشت کے انحصار کا سلسلہ ختم ہونے لگا بلکہ عرب ممالک مالی مشکلات کا بھی شکار ہونے لگے۔
دوسری طرف عرب اسپرنگ کے بعد ان کو اخوان المسلمین اور داعش وغیرہ کے خطرات درپیش ہونے لگے ۔ اسی طرح ان کے ایک اپنے عرب ملک قطر کے ساتھ تعلقات نہ صرف خراب ہوگئے بلکہ اس کے بارے میں ان کی حساسیت بہت بڑھ گئی،ایران سے ان کی مخاصمت پرانی ہے لیکن اس دوران ترکی سعودی عرب کے مقابلے میں آگیا۔ ان اندرونی اور بیرونی خطرات کے پیش نظر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وغیرہ اسرائیل سے اپنے تعلقات بہتر بنانے لگے ۔
ایران سے ان ممالک کی مخاصمت چونکہ پرانی تھی، اِس لئے پاکستان کے تجربہ کار سابقہ حکمران ان دونوں کے مابین توازن قائم رکھے ہوئے تھے لیکن ترکی،قطر اور ملائیشیا وغیرہ کے ساتھ ان کی مخاصمت نئی تھی اور بدقسمتی سے اس دوران پاکستان میں نئے اور ناتجربہ کار حکمران سامنے آئے ، اس لئے افراط و تفریط سے کام لے کر انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں کو ناراض کیا۔
افراط و تفریط کا یہ لفظ میں سوچ سمجھ کے استعمال کررہا ہوں ۔ بدقسمتی سے اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان سعودی عرب کو میاں نواز شریف اور یو اے ای کو آصف زرداری کا سرپرست سمجھتے تھے ۔
چنانچہ وہ دل میں ان دونوں ممالک سے متعلق ایک پرخاش رکھتے تھے اور یمن کے قضیے کے وقت انہوں نے راحیل شریف کے ساتھ مل کر نواز شریف کے لئے ایسے حالات پیدا کئے کہ وہ سعودیوں کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے جس کی وجہ سےسعودی عرب اور یو اے ای میاں صاحب سے شدید ناراض ہوگئے۔
راحیل شریف نے اُس وقت عربوں کو یہ تاثر دیا کہ وہ تو مدد کرنا چاہ رہے تھے لیکن نواز شریف نے کرنے نہیں دی لیکن عمران خان کا معاملہ جوں کا توں رہا ۔
اقتدار میں آنے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب اور یواے ای کے حکمرانوں سے عمران خان کی دوستی تو کرادی لیکن ظاہر ہے کہ سفارتی نزاکتوں اور عربوں کی حساسیت کو چند روز میں انہیں سمجھانا ممکن نہیں تھا ۔ عمران خان یہ نہیں سمجھ سکے کہ ان دنوں سعودی عرب اور یو اے ای قطر اور ترکی کے بارے میں ایران سے زیادہ حساس ہوچکے ہیں ۔ چنانچہ خان صاحب نے یواین جاتے ہوئے پہلے طیب اردوان کے ساتھ جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ اس پر سعودیوں نے ناراضی ظاہر کردی تو طیب اردوان کو چھوڑکر انہوں نے سعودی عرب کا راستہ اختیار کیا۔
وہاں سے محمد بن سلمان کے جہاز میں امریکہ گئے لیکن ادھر جاکر ترکی، ملائشیا اور ایران کے ساتھ نیا اتحاد بنانے کا فیصلہ کیااورایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کرانے کی بڑ ماردی۔ چنانچہ سعودی عرب شدید ناراض ہوا اور ان سے جہاز بھی واپس منگوا لیا گیا ۔
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کوالالمپور کانفرنس سے پہلے معاملات درست کرلئے جاتے لیکن جب انہیں پتا چلا کہ سعودی عرب شدید ردعمل دکھائے گا تو وہ محمد بن سلمان کو منانے ان کے پاس چلے گئے لیکن انہوں نے اپنے موقف میں لچک پیدا نہیں کی اور وہ ترکی سے معذرت کرکے واپس پاکستان لوٹ آئے ۔
عمران خان یہ اندازہ نہیں کرسکے کہ شاہ سلمان کی نسل تک کے سعودی حکمران وہ تھے جنہوں نے تیل سے قبل کے وقت کو دیکھا تھا اور وہ زیادہ روایت پسند تھے ، اس لئے تعلقات بنانے اور بگاڑنے میں قبائلی مروتوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے لیکن محمد بن سلمان کی نسل نئے حالات میں جوان ہوئی ہے ۔ترکوں اور ملائشین کا مزاج الگ ہے ۔
ان کو پاکستان کی مجبوریاں سمجھائی جاسکتی تھیں لیکن کچھ عرصہ بعد عمران خان اپنے بعض عرب مخالف مشیروں کے مشورے پر دوبارہ ملائشیا جاپہنچے اور وہاں یہ اعلان کرڈالا کہ کوالالمپور نہ آکر انہوں نے غلطی کی اور یہ کہ وہ اگلے سال ضرور آئیں گے ۔ جس پر لامحالہ سعودی عرب نے ناراض ہونا تھا۔ دوسری طرف ان کے ایک خاص وزیر قطریوں کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں اور کاروباری منصوبے بناتے رہے ۔
ادھر سے وہ ترکی کے ڈرامے ارطغرل کو پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر دکھانے لگے اور بلاضرورت تقاریر میں طیب اردوان کی تعریفیں کرنے لگے جس سے سعودی عرب اور یواے ای نے یہ تاثر لیا کہ شاید پاکستان ترکی کے کیمپ میں جانے کا فیصلہ کرچکا ہے ۔
چنانچہ انہوں نے کچھ رقم واپس مانگ لی جس پر طیش میں آکر خان صاحب نے شاہ محمود قریشی سے اوآئی سی کا متبادل فورم بنانے کا بیان دلوادیا جس نے جلتی پرتیل کا کام کیا ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن تک جاچکے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اِس وقت عملاً پاکستان میں کوئی وزیرخارجہ نہیں بلکہ خان صاحب خود وزیرخارجہ ہیں۔
شاہ محمود قریشی صرف ترجمانی کرتے ہیں ۔ وہ معاملات کوسمجھتے ہیں لیکن خان صاحب اور خان صاحب کے سرپرستوں کے خوف سے کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔ رات کو خان صاحب اپنے سیکرٹری اور ایک وفاقی مشیروغیرہ کے ساتھ بیٹھ کر کوئی منصوبہ بنالیتے ہیں اور صبح وہ ہماری خارجہ پالیسی بن جاتی ہے ۔
اسی طرح دن کو پنڈی سے کسی افسر کے ذہن میں کوئی خیال آجاتا ہے جو دفتر خارجہ کو بتادیا جاتا ہے اور اگلے لمحے وہ ہماری خارجہ پالیسی بن جاتی ہے ۔
ان دنوں یہ خبر عام کردی گئی ہے کہ یواے ای نے پاکستان کے لئے ہر قسم کے ویزوں پر پابندی لگا دی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ویزوں کا اجرا مکمل طور پر بند نہیں کیا گیا بلکہ کچھ سختی کی گئی ہے لیکن ہماری وزارتِ خارجہ کا یہ حال ہے کہ نہ یو اے ای کے حکام کے ساتھ بات کی اور نہ قوم کو یہ بتاسکی کہ ویزوں سے متعلق حقیقی پالیسی کیا ہے؟
موجودہ حکمران تو اقتدار ختم ہوتے ہی امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا چلے جائیں گے لیکن جن لاکھوں پاکستانیوں کا معاشی مستقبل اُن ممالک سے منسلک ہے ، اُن کا کیا ہوگا؟