قانون اسلامی

حدود اللہ کے نفاذ سے جرائم کا سدباب کیسے ہوتا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

ذرائع ابلاغ کے مطابق چند روز پیشتر کندھ کوٹ کشمور (یہ صوبہ سندھ کے لاڑکانہ ڈویژن میں شامل ضلع کشمور کا مرکزی شہر ہے) میں تبسم نامی ایک شادی شدہ خاتون اور اس کی چار سالہ معصوم بیٹی علیشاہ دونوں کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا، جو نہایت افسوسناک اور دل دوز سانحہ ہے۔ اس واقعے کا ملزم رفیق احمد ملک بھی گرفتار ہوا ، جس نےکراچی کی رہائشی تبسم کو ملازمت کا جھانسہ دے کر کندھ کوٹ بلا کر اسے اور اس کی بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
پولیس کارروائی کے بعد گرفتار ملزم کو کشمور کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ بعدازاں مبینہ طور پر اپنے ساتھی کی فائرنگ سے مارا گیا۔

قصور کی زینب، کراچی کی پانچ سالہ ماروا، خیبر پختون خوا کے ضلع چارسدہ کی اڑھائی سالہ بچی زینب وغیرہ۔۔۔۔۔۔ایسی بچیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اور اب چار سالہ بچی علیشاہ (اور اس کی والدہ بھی) کب تک مملکت اسلامیہ میں زنا و جنسی درندگی کا شکار ہوتی رہیں گی؟؟؟
آخر کب تک؟؟؟

مائیں چھوٹی بچیوں کو گھر سے اکیلے باہر بھیجتے ہوئے ڈرتی ہیں کہ خدانخواستہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آجائے۔ لیکن جس بچی کے ساتھ ماں خود بھی موجود ہو، اور اس کے ساتھ بھی زنا بالجبر کیا گیا ہو، اب اس بچی اور ماں کے بارے میں کیا کہا جائے جنہیں بیک وقت زنا بالجبر کا نشانہ بنایا گیا؟

ستمبر 2020ء میں محفوظ ترین سمجھی جانے والی لاہور سیالکوٹ موٹر وے پرذرائع ابلاغ کے مطابق رات کے تین بجے دو درندہ صفت آدمیوں نے ڈرائیونگ کرنے والی تنہا خاتون کے ساتھ اس کے کمسن بچوں کے سامنے زیادتی کی تھی۔ اور اس کے پاس موجود مال واسباب بھی لوٹ لیا تھا۔

زنا بالجبر کا شکار ہونے والی خاتون کے اس واقعہ نے ملک بھر میں سنسنی پھیلائے رکھی تھی۔ اس واقعے کی تحقیقات بھی کچھ دن تک نہایت زور وشور سے جاری رہیں لیکن وقت کے ساتھ اس پر گویا مٹی پڑ گئی۔ کیوں؟؟؟

جب اس طرح کے واقعات وقتاً فوقتاً وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، تب فطری طور پر مجھے بہت تکلیف پہنچتی ہے۔ دل زخم زخم ہو جاتا ہے، دماغ طرح طرح کی باتیں، مسائل اور ان کا حل سوچتا رہتا ہے۔ اپنے خیالات و جذبات کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

بس دل چاہتا ہے کہ
کاش! وہ مجرم لوگوں کے سامنے موجود ہوں اور وہ ان بے حس اور سنگ دل مجرموں کو ان کے گناہوں کی سزا دیتے ہوئے انہیں زمین میں زندہ گاڑ کر سنگسار کردیں، انہیں پتھر مار مار کر ختم کر دیں!!!
ان پر زنا بالجبر جیسے کبیرہ گناہوں کی حدود نافذ کی جائیں!!!

معاشرے میں بے حیائی و فحاشی، زنا و جنسی درندگی، فعل قومِ لوط کرنے والوں، چوری و ڈکیتی اور دیگر گناہوں کو پھیلانے والے ان ناسوروں کو حسبِ گناہ سزائیں دے کر، ان پر اسلام کی مقرر کردہ حدود نافذ کرکے ان کے وجود سے معاشرے کو پاک کردیا جائے!!!
ایسے مجرموں کو دنیا سے مٹا دیا جائے!!!
ان کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے!!!

کاش! کوئی قانون، کوئی عدالت ان مجرموں سے پوچھے کہ
اگر کوئی ان کی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی کے ساتھ اس طرح زنا بالجبر کرے تو اس وقت ان کا کیا دل کرے گا؟
ان کا کیا رد عمل ہوگا؟
وہ اپنی محرم خاتون کی چادر عصمت کے تار تار ہونے کی بدنامی کے اس داغ کو مٹانے کے لیے کون کون سے عملی اقدامات کریں گے؟

کاش! ارباب اقتدار یہ سوچ لیں کہ
اگر ان کے اہلِ خانہ میں سے کسی خاتون کے ساتھ یہ معاملہ پیش آجائے اور اس کے ساتھ ڈکیتی اور زنا کیا جائے تو اس وقت ان کا رویہ کیسا ہوگا؟
وہ مجرموں کو کون سی سزائیں دینا چاہیں گے؟

ان کے گھروں کے اندر ڈکیتی ہو اور دہشت گردی پھیلائی جائے یا ان کے علاقے میں دہشت گرد ان کے اہل خانہ یا قریبی رشتے داروں کو بم سے اڑا دیں تو تب ان کے خیالات کیا ہوں گے؟؟؟
بقول شاعر
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی

اس طرح کے معاملات میں کیا اہل اقتدار کے صرف بیانات دینے سے مظلوموں کی فریاد رسی ہو جاتی ہے؟
کیا ان کی آہ وفغاں کی شنوائی ہوجاتی ہے؟
کیا ان کو عدل و انصاف مہیا کر دیا جاتا ہے؟
کیا ان کے زخموں پر مرہم رکھ دیا جاتا ہے؟
کیا معاشرے کے ناسوروں کا خاتمہ کرکے ان مسائل کو حل کر دیا جاتا ہے؟
کیا لوگوں کو ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی تحفظ فراہم کردیا جاتا ہے؟

قانون کے محافظ لوگوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت اور بر وقت کیوں نہیں پہنچتے اور ان کی عملی مدد کیوں نہیں کرتے جب انہیں ان کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے؟
ہماری پولیس عموماً اس قسم کے جرائم کی پشت پناہی کرتی ہے۔ بلکہ بسااوقات تو گنے چنے امانت دار اور دیانت دار لوگوں کے علاوہ یہ نام نہاد رکھوالے ہی اطمینان سے لاء اینڈ آرڈر کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

اب سوالات یہ بھی تو ہیں کہ گرفتار مجرموں کو سزائیں کیوں نہیں دی جاتیں؟بروقت سزائیں دینا تو بعد کی بات ہے!!!

انتظامیہ اور عدلیہ کو ان کبیرہ اور گھناؤنے جرائم میں مجرموں کو حدود اللہ کے نفاذ سے کم سزائیں دینے پر کسی قسم کی لچک اور نرمی نہیں ہونی چاہیے!!!

شرعی حدود کا نفاذ انسانیت کے لیے باعث رحمت وبرکت ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺسے روایت فرماتے ہیں کہ
” اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کا قائم کرنا اللہ تعالیٰ کی زمین پر چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔“

حدود اللہ کے نفاذ سے اللہ ربّ العزت کی اہل معاشرہ پر بے شمار رحمتیں، برکتیں اور بخششیں نازل ہوتی ہیں۔

جرائم اور مجرموں کی روک تھام کی جاتی ہے اور انہیں کنٹرول کیا جاتا ہے کہ کہیں وہ ملک وملت کو نقصان اور ضرر نہ پہنچائيں۔

حتیٰ کہ حدود اللہ کا نفاذ خود مجرم کےحق میں بھی رحمت ہے۔ تاکہ وہ گناہ اور ظلم میں مزید پیش قدمی نہ کرتا رہے۔ لہذا اس کے شر اور برائی کے سلسلے کو منقطع کردیا جاتا ہے۔

ان سزاؤں کا مقصد صرف جرائم کا خاتمہ کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ انہیں دوسروں کیلئے عبرت ناک (نصیحت، خوف، سبق حاصل کرنا ) بنانا بھی مقصود ہوتا ہے تاکہ دوسرے بھی دیکھ کر ڈریں اور جرائم سے باز رہیں۔ اسی لیے حدود اللہ کے نفاذ کے وقت مسلمانوں کے ایک گروہ کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔
لہٰذا ان سے جرائم میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔

سماج میں امن و امان قائم ہوتا ہے۔
معاشرے کے ناسوروں کا خاتمہ ہوتا ہے۔
افراد کو جان ومال اور عزت و آبرو کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
لوگوں کے لیے فوری اور بروقت عدل و انصاف کا حصول ممکن ہوتا ہے وغیرہ

حدود اللہ کے نفاذ اور عدل و انصاف کی فراہمی کی وجہ سے ہی یہ بات ممکن تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ
” اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی مرگیا تو اس کے لیے بھی میں جواب دہ ہونگا۔“

ہمارے ہاں یہ طریقہ بن چکا ہے کہ جب بھی حکومت کسی سنجیدہ کیس پہ کوئی سخت ایکشن لینے کا سوچتی اور سخت سزا نافذ کرنے پہ غور کرتی ہے تو ملک بھر میں سیکولر، لبرل لوگ، این جی اوز اور نام نہاد انسانی حقوق خصوصاً حقوقِ نسواں کے ٹھیکیداروں (جنہیں بلا تفریق مظالم کا شکار بچیوں اور خواتین کے ساتھ ہمدردی ہونی چاہیے ) کی آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں کہ

مجرموں کو جسمانی سزا نہ دی جائیں۔ اسلامی سزائیں (حدود) وحشیانہ ہوتی ہیں۔ جسمانی سزاؤں سے معاشرے سے جرم ختم نہیں ہوجاتا۔ لوگوں کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسمانی سزائیں مہذب معاشرے کی پہچان نہیں ہوتیں۔ نفرت جرم سے کرنی چاہیے ، مجرم سے نہیں، لہٰذا جسمانی سزائیں دینا غلط ہوتا ہے، جسمانی سزاؤں پر پابندی ہونی چاہیے وغیرہ۔ نعوذ باللہ۔

کیا اللہ تعالیٰ کا حکم غلط ہو سکتا ہے؟ نہیں۔ کبھی نہیں۔ ان بار بار پیش آمدہ مسائل کا حل صرف حدود اللہ کے نفاذ میں موجود ہے۔
کیا قرآن وسنت ہماری زندگی کی ہدایت و رہنمائی اور اصلاح معاشرہ کے لیے کافی و شافی نہیں ہیں؟؟؟

میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی بہنوں کو یہ بھی بتاؤں اور سمجھاؤں کہ
جاب، پڑھائی اور دیگر ضروریات و مجبوریوں کے لیے گھر سے باہر نکلنے والی میری بہنو!

آپ خواتین اور لڑکیاں سادہ ساتر حلیے میں، بغیر آرائش و زیبائش کے، سادہ گاؤن یا عبایا پہن کر اپنے آپ کو مکمل مستور کرکے، بغیر خوشبو لگائے گھر سے باہر نکلا کریں۔ آپ کا حجاب اللہ رب العزت کے احکامات کے مطابق آپ کا محافظ اور آپ کو معزز خاتون ظاہر کرنے والا ہے۔

باہر نکلتے ہوئے گھر سے باہر جانے کی دعائیں اور اذکار ضرور پڑھیں۔ آیت الکرسی پڑھنا بھی نہ بھولیں۔ اس کے علاوہ حفاظت الٰہی میں رہنے کے لیے صبح وشام کے اذکار پڑھنا بھی اپنا معمول بنالیں۔

کوشش کریں کہ لازمی دن کی روشنی میں مغرب تک گھر واپس آجائیں۔

میری اچھی بہنو!
زندگی میں جو بھی مجبوری درپیش ہو، آپ کبھی بغیر محرم کے تنہا رات کا سفر نہ کریں۔ اور اگر آپ کے محرم کو کوئی مجبوری درپیش ہو تو جلدی مت کریں اور ان کی فراغت کاانتظار کیا کریں۔ خواہ یہ کتنا طویل کیوں نہ ہو۔

رات کے خطرناک اندھیرے میں کبھی تنہا باہر نہ نکلیں اور بوقت ضرورت طویل سفر ہمیشہ اپنے محرم کے ساتھ کریں۔

مرد بھی اپنی محرم عورتوں کے ہمراہ رات کے سفر سے اجتناب کریں۔
طویل سفر پر روانگی سے قبل گاڑی کا پٹرول پانی چیک کرنے کے علاوہ سروس بھی ضرور کروائیں۔

اس کے علاوہ خواتین کو اپنی ذاتی حفاظت (self defense) کے لیے بھی کچھ حفاظتی ٹیکنیکس سیکھنے، کرنے اور ہمہ وقت اپنے پاس رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔

ڈرائیونگ کرنے والی خواتین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ شہر میں بھی روانگی سے پہلے ہمیشہ گاڑی کا پیٹرول پانی چیک کرکے نکلا کریں۔ طویل سفر پر روانگی سے قبل گاڑی کی سروس بھی ضرور کروائیں۔ صرف دن میں ڈرائیونگ کا کام کریں۔ اور رات کی تاریکیوں میں تنہا ڈرائیونگ سے سختی سے اجتناب کریں۔

کونین کے سردار ﷺکا ارشاد ہے کہ
” کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن تک کے سفر کے لیے نہ نکلے۔‘‘ (صحیح بخاری: 1036)

خواتین کے لیے امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے نبی مہربان ﷺ نے پیش گوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
” حیرہ سے ایک سانڈنی سوار عورت تنہا نکلے گی اور بیت اللہ تک پہنچ کر اس کا طواف کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔“ (صحیح بخاری:3400)

اس حدیث کے راوی حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ ہیں جن سے مخاطب ہوکر محسن انسانیت ﷺ اور خاتم النبیینﷺ نے یہ پیش گوئی فرمائی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ
” اب ہم نے دیکھ لیا ہے کہ حیرہ سے ایک عورت تن تنہاسفر کے لیے نکلتی ہے اورکسی خوف کے بغیر بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے آتی ہے ۔“

اور ہمارے معاشرے میں آج خواتین کے لیے امن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ عورت اپنے گھر کے اندر اپنے محرم مردوں کی موجودگی میں بھی محفوظ نہیں۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں تو مرد بھی محفوظ نہیں۔ جان ومال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے بنیادی مسائل مرد و زن بلکہ معصوم بچوں اور بچیوں کو بھی درپیش ہیں۔ کیا یہ مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کے برعکس بدترین معاملہ نہیں ہے؟
سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟
کیا خود ہم لوگ ذمہ دار ہیں؟
ہمارا معاشرہ؟ ہمارا قانون؟
ہماری عدالتیں؟ لاء اینڈ آرڈر؟
ہمارا حکمران طبقہ؟

یہ سب حقائق امن و امان کی فراہمی اور معاشرتی بناؤ کے ذمہ دار ہیں اور اسی طرح اس کے برعکس بگاڑ میں بھی یہ سب باتیں شامل ہیں لیکن حکمران طبقہ اس کا خصوصاً ذمہ دار ہے جو رعایا کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کا محافظ ہے۔ جو عوام کو طرح طرح کے وعدے دے کر ان سے ووٹ تو لے لیتا ہے۔ اور جن سے ٹیکس بھی پورے وصول کیے جاتے ہیں۔ لیکن انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتی۔

جس کے نتیجے میں نام نہاد لاء اور آرڈر موجود رہتے ہیں، اور عدالتیں سست روی سے کام کرتی ہیں اور عام بندے کو جلدی اور بروقت انصاف نہیں ملتا۔
بہرحال، ان کیسز میں مجرموں پر حدود اللہ کے نفاذ کی عبرت ناک سزا کے علاوہ
اہل معاشرہ کو کوئی اور سزا قبول نہیں۔
صرف چند دفعہ حدود کے نفاذ کے بعد یقیناً معاشرے میں جرائم میں نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔ان شاءاللہ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “حدود اللہ کے نفاذ سے جرائم کا سدباب کیسے ہوتا ہے؟”

  1. فرح بتول Avatar
    فرح بتول

    بہت افسوس ہوتا ہے ایسے واقعات پر۔اللہ سب کو محفوظ رکھے۔اللہ کے احکامات سے روگردانی کرنے کی وجہ سے ہے یہ سب۔ایک کے بعد دو سرا واقعہ ہوتا ہے مجرم نظام انصاف کی خامیوں کے باعث بچ جاتے ہیں۔