دیکھتا چلا گیا / سیلانی کے قلم سے :
” ارے ارے آیئے سیلانی صاحب! یہاں یہاں۔۔۔ تشریف رکھیں “ قریشی نے سامنے سنگی بنچ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دکان کے چھوٹے کو آواز دی:
” ابے او! کوئٹہ وال کو چھوٹی چینک کا بول دے، کہنا کہ دم والی چینک ہونی چاہئے خاص مہمان آئے ہیں ۔“
سیلانی ہنس پڑا ” بس کردے، بس کردے اتنا مکھن مت لگا کہ تیرے ہاتھ بھی نہ آؤں “
” سیلانی صاحب ! نیکی کا زمانہ نہیں ہے ، یقین کیجئے صبح سے شام تک گاہکوں کی آنیاں جانیاں لگی رہتی ہیں لیکن آپ جیسے نفیس لوگ تو کبھی کبھار ہی آتے ہیں، دل سے عزت کرتا ہوں آپ کی ،
اچھا یہ بتائیں بونگ چلے گی یا سینہ کاٹ کر دوں،آج ایسا گجک گوشت ہے کہ مزہ نہ آئے تو پکی پکائی ہانڈی بھیج کر جرمانے کے ساتھ پیسے وصول کیجئے گا لیکن پہلے یہ بتائیں کہ یہ ٹرمپ کی کھٹیا پکی کھڑی ہوگئی؟ کیا وہ بھی اپنے کپتان کی طرح دھرنا شرنا دے گا ۔ “ قریشی کی زبان قینچی کی طرح چلنے لگی۔
وہ قصاب کم اور حجام زیادہ لگتا ہے وہ ہر گاہک سے ایسے ہی بےتکلفی سے پیش آتا ہے، اس کی زبان میں ایسی تاثیر ہے کہ بندہ چھیچھڑے بھی انڈر کٹ کی قیمت میں خرید لے، وہ لڑکپن کے پانچ برس لیاقت آباد میں بتا چکا ہے اس لئے سیلانی پر اس کی توجہ کچھ زیادہ ہوتی تھی لیکن جب سے سیلانی نے اس کا پریشر والا گوشت واپس کیا ہے تب سے وہ اسے دیکھتے ہی ” مبو “ کو دم والی چینک لینے بھیج دیتا ہے۔
سیلانی مسکراتا ہوا اس کے سامنے بنچ پر بیٹھ گیا اور ہنکارہ بھرتے ہوئے بولا ” ٹرمپ کے ممکنہ دھرنے سے پہلے ایک حکایت سن لے کام آئے گی۔“
قریشی نے مڈی پر چانپیں توڑتے ہوئے کہا ” ارشاد ارشاد ۔“
سیلانی نے اپنے لبوں پر آئی شرارتی مسکراہٹ سمیٹی اور کہنے لگا :
” ایک گاؤں کا چوہدری مرا تو مراثی کے بیٹے نے باپ سے پوچھا،ابا بڑے چوہدری صاحب کے بعد گاؤں کا نمبردار کون ہوگا، مراثی نے اس کے بڑے بیٹے کا نام لیا، بیٹے نے اشتیاق سے پوچھا وہ مرگیا تو اس کے بعد۔۔۔؟مراثی نے جواب دیا اس کے بیٹوں میں سے کوئی بھی بن جائے گا یہ سن کر چھوٹے مراثی نے جلدی سے پوچھا اور وہ مرے گا تو۔۔۔؟ مراثی نے یہ سن کر جوتی اتاری اور بیٹے کو کھینچ کر مارتے ہوئے بولا :
” بے غیرتا ! سارا گاؤں بھی مرجائے نا تو مراثی کے بیٹے نے نمبردار نہیں بننا۔۔۔ یار! ہم پاکستانیوں کو کیا پڑی ہے ٹرمپ ہارے یا جوبائڈن جیتے تو نے یہاں پریشر والا۔۔۔ “
سیلانی نے معنی خیز انداز میں جملہ ادھورا چھوڑدیا قریشی اچھل پڑا ” سیلانی صاحب ! مرغا بن جاتا ہوں طبیعت سے لات جما دینا لیکن کیوں روزی روٹی پر لات مارتے ہو ۔ “
” میں نے کب کچھ کہا ، میں تو کہہ رہا تھا کہ کوئی بھی ہارے یا جیتے تو نے اپنی 125 پر پریشر والاہارن ہی لگانا ہے “
” اوہ ۔۔۔ ہاں ، ہاں اچھا اچھا “ قریشی کی باچھیں کھل گئیں اتنے میں مبو بھی چینک لے کر آگیا۔
قریشی نے سیلانی کے لئے کپ میں چائے ڈالی اور بولا ” یہ بتائیں بھابھی نے کیا پکانا ہے پھر گوشت میں دوں گا آپ بس چپ کر کے لے جایئے گا “
سیلانی نے اسے بتایا کہ وہ بیگم کو شلجم چھیلتے ہوئے چھوڑ کر آرہا ہے، اس نے شڑ شڑ کی آواز کے ساتھ چائے کی چسکی لی اور سامنے لٹکی مقتول گائے کا سینہ کاٹ کر دینے لگا سیلانی نے احتجاج کیا ” اس میں تو ساری ہڈی ہے۔۔۔“
” ارے صحافی بابو! آپ بس لے جائیں اور بھابھی سے کہیے گا کہ شلجم کے ساتھ ایک گڈی پالک بھی ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں ، ایسی ذائقہ دار ہانڈی بنے گی کہ اگلی بار آکر پھر کہو گے سینہ کاٹ دو لیکن میں نہیں دوں گا ۔ “
قریشی کی زبان چھری کی سی تیزی سے چلتی ہے وہ گاہک کو سنبھلنے کا موقع دیتا ہے نہ بات کرنے کا۔ وہ گوشت کی بوٹیاں بنا رہا تھا کہ سامنے ایک بڑی سی کار آکر رکی اور اس میں سے ایک عمر رسیدہ صاحب، مؤدب ڈرائیور کے ساتھ اترے انہیں دیکھ کر قریشی کی آنکھوں میں چمک آگئی، وہ صاحب دکان میں آئے اور گوشت کی پھیلی ناگوار بو پر ناک بھوں چڑھاتے ہوئے بولے” بھئی ! یہ جو گوشت کی بو ہے ناں یہ کسی طرح ختم نہیں ہو سکتی “
” ارے سر! اس کے لئے تو اللہ میاں سے بات کرنا ہوگی یہ ان کی پروڈکشن ہے،آپ سنائیں کیسے ہیں ماشاء اللہ آج تو بہت فریش لگ رہے ہیں یہاں تشریف رکھیں لیکن میں آج آپ کے حکم کی تعمیل نہیں کرسکوں گا، ہاتھ جوڑ کر معذرت چاہتا ہوں “
” کیا مطلب “ ان صاحب نے نہ سمجھنے کے انداز میں سوال کیا۔
” آج آپ کو گوشت نہیں دے سکوں گا “
” کیوں بھئی، کیا یہ سارا بک گیا ہے ابھی تو بارہ بھی نہیں بجے “
ان صاحب کے لہجے میں حیرت اور قدرے ناگواری تھی۔
” نہیں، نہیں سر میرا مطلب ہے کہ آج آپ کی مطلب کا گوشت نہیں ہے‘‘ یہ کہہ کر قریشی نے رازدارآنہ سے لہجے میں کہا ” آج کا جانور ذرا ہلکا ہے آپ ناراض ہوں گے میں آپ جیسا گاہک خراب نہیں کرسکتا،آپ کا تو آنا ہی میرے لئے اعزاز ہے۔“
انکار کی وجہ جان کروہ صاحب مطمئن ہو گئے اور پھر قریشی کے خوشامدآنہ لہجے نے ان میں ٹھیک ٹھاک ہوا بھردی وہ ہنکارہ بھر کر دکان سے نکل گئے اور سیلانی قریشی پر الٹ پڑا۔
” مریل بیمار جانوروں کے لئے ہم ہی رہ گئے ہیں، رکھو یہ اپنا گوشت، مجھے نہیں چاہئے۔۔۔ “ سیلانی نکلنے کو تھا کہ قریشی زقند بھر کر نیچے اترا اور سیلانی کے سامنے آگیا ” ارے بھائی ! وہ میں گاہگ گھیر رہا تھا ۔۔۔ کل ڈھائی من کا بچھڑا کاٹا ہے گجک کی طرح بوٹیاں ہیں اور آپ کو تو گلاب جامن تول کر دیئے ہیں گلاب جامن۔۔۔ “
” بس کردے بھائی، دس سیکنڈ پہلے میں نے جواپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے وہ کیا تھا “
” سیلانی بھائی! اب ہم دھندہ بھی نہ کریں ۔۔۔؟ “
” کیا مطلب ؟ “
” یہ بڑے صاحب نقد پارٹی ہیں پچھلی بار پورا بکرا اور پانچ کلو بڑے کا گوشت تول کر لے گئے تھے ۔ میں نے تو کب سے ان پر آنکھیں رکھی ہوئی تھیں “
” جب آنکھیں رکھی ہوئی تھیں تو واپس کیوں کیا؟ “
” سب بتا دیں ہاتھ پاؤں کٹا دیں۔۔۔“ قریشی نے ہنستے ہوئے سیلانی کے دونوں کاندھوں پر ہاتھ رکھے اور اسے بنچ پر بٹھاتے ہوئے رازدارآنہ لہجے میں بتانے لگا
” گاہک گھیرنا فن ہے یہ گر کی باتیں ہیں، جو بات آپ سوچ رہے ہیں ناں وہی وہ بڑے صاحب بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آتی روزی کو کون لات مارتا ہے لیکن اب اس کا اپنے پر دل ٹھک جائے گا ، دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے یہ کہیں نہیں جائے گا ۔ ساتھ میں دس گاہک اور لائے گا کہ قریشی کھرا مال بیچتا ہے ۔ گوشت اچھا نہ ہو تو خود ہی منع کر دیتا ہے دیکھنا اب یہ کل کیسے آتا ہے۔۔۔“
لیکن وہ صاحب کل نہیں اسی وقت واپس آگئے اور پہلے کی طرح ناک سکوڑتے ہوئے قریشی سے بولے ” بھئی ! کیا نام ہے تمہار ا خیر جو بھی ہے یہ میرا ڈرائیور کل آئے گا اسے ایک تو چھوٹے دو دستیاں ثابت دے دینا اور پانچ کلو چانپیں بنا دینا، بڑے کا تین کلو قیمہ بھی بنا کر رکھنا لیکن بالکل روکھا ہو۔“
” سر! آپ فکر نہ کریں یہ بھائی کل گیارہ بجے آکر گوشت لے جائیں، یقین کیجئے گوشت نہیں گلاب جامن دوں گا گلاب جامن ۔۔۔ ہڈیاں گجک کی طرح نہ ہوں تو ڈرائیور ریورس گیئر لگا کر گوشت واپس کر جائے ۔“
” نہیں تمہار گوشت اچھا ہوتا ہے اور اچھی بات یہ کہ تم بتا بھی دیتے ہو۔ “
وہ صاحب ناک پر ماسک چڑھاتے ہوئے واپس چلے گئے اور قریشی فاتحانہ انداز میں سیلانی کو اور سیلانی گھیرے میں آنے والے گاہک کو جاتا دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ( بشکریہ امت )