خوفزدہ باحجاب مسلمان خاتون

سلام ہے ان اجنبیوں پر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ ملک :

” ارےگائیز ! ڈونٹ یو نو،آئیڈیاز پہ 30 فی صد سیل لگی ہے۔ “ساریہ خوشی سے بولی۔
” ارے یار کوئی راضیہ کو بھی بتادے ۔سارا سال ایک ہی اسٹائل ہوتاہے اس کا۔“ فری اٹھلاتے ہوئے بولی۔ اس پر رمشاء بولی:
” اسے کیا پتہ یہ مہنگے کپڑے برسلیٹ اور یہ ہیلز کا کیا کریز ہوتاہے۔ کتنا خوبصورت اور چارمنگ لگتاہے بندہ اس میں۔ ” ایسی برانڈڈ فیبرکس پہن کر ایٹیٹیوٹ خودبخود آجاتاہے۔“

ثناء بھی چپ نہ رہی بولی:” واقعی پورا سال ایک ہی گائون اسکارف میں گزارنے والے اسٹائل اور لک کیا جانیں۔خیر چھوڑو ہمیں اس سےکیا ۔ لیٹس کم ہینگ آئوٹ ود می“۔

یہ کہتے ہوئے وہ سب سے چلی گئیں۔ راضیہ کو علم بھی نہ ہوسکا کہ وہ اس عمل سے راضیہ کے اعمال نامے کو کتنا شاندار بنا گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” ارے زوبیہ ! کیسی ہو؟ کہاں بزی ہوتی ہویار، بھابھی کیسی ہیں تمہاری؟“ سامعہ نے زوبیہ سے پوچھا جو بھائی کی شادی کے بعد کافی عرصے بعد اسکول میں پڑھانے آئی تھی۔

” میری بھابھی بس صرف نام کی ہیں وہ۔ ہم نہ تو ان سے بات کرنا پسند کرتے ہیں نہ کوئی میل جول رکھنا۔ ان کا رویہ ہی کچھ عجیب سا ہوتاہے۔ ہر وقت ہم سے بات کرنے ہم میں گھسنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جتنا ہم ان سے دور رہتے ہیں اتنا ہی زیادہ وہ ہم سی انوالوو ہونا چاہتی ہیں۔ ان کو سوائے باتوں کے کچھ نہیں آتا۔ نہ انہیں کسی فیشن کا پتہ ہے نہ ہی ان کو بات کرنی آتی ہے۔ نہ انہوں نے کبھی کوئی فٹنس پروگرام جوائن کیا ہے۔عجیب بے ڈول سی ہیں۔ ہم تو بھائی کی شادی سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔ گھر کے سارے کام ایک طرف انہیں تو بھائی کی آؤبھگت ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ نفرت سی ہونے لگی ہے مجھے ان سے۔ میں نے آج تک ان جیسا بور، بدسلیقہ، پھوہڑ اور پاگل انسان نہیں دیکھا۔ “ زوبیہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھی۔

” ارے یار ایسے نہیں کہتے کیا پتہ اللہ کے نزدیک وہ کتنی اچھی ہوں۔“ سامعیہ نے اسے سمجھایا۔ اس پر زوبیہ بولی:” ہنہہہہہ خاک اللہ کی نظر میں اچھی ہوں گی۔ جودنیا والوں سے معاملات درست نہیں کرسکتا وہ اپنے اللہ سے کیا معاملات درست کرے گا“ یہ کہتے ہوئےدونوں اپنا پیریڈ لینے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

” سنئیے ! مجھے آپ کی کم پیسوں کی نوکری میں کوئی اعتراض نہیں۔ بس آپ بینک کی نوکری نہ کریں۔ بینک کی نوکری بالکل واضح سود کی نوکری ہے۔ اور سود اللہ اور اس کے رسول ﷺ سےکھلی جنگ ہے۔ ہم روکھی سوکھی کھالیں گے لیکن اپنے آنے والی نسل کی پرورش بینک کی آمدنی سے نہیں کریں گے۔“ سعدیہ نے بڑی متانت، مان اورمحبت سے اپنے شوہر کو چائے دیتے ہوئےکہا۔

قاسم کو اپنی بیوی سے ایسی بات کی توقع نہیں تھی۔وہ ایک دم سناٹےمیں آگیااور بولا:
” اووو میڈیم اگر میری بینک کی نوکری سے اتنا ہی اعتراض تھا تو مجھ سے شادی کیوں کی تھی۔ میں تو شادی سے پہلے بھی بینک ہی میں نوکری کرتا تھا۔ یہ جوتمہاری تمام خواہشات ہیں یہ بینک کی نوکری ہی سے پوری ہوتی ہیں۔ اگر میری نوکری سے اتنا ہی اعتراض ہے تو جاؤاپنے گھر واپس چلی جائو۔“

یہ کہتا ہوا وہ غصے میں بڑبڑاتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ سعدیہ ہونقوں کی طرح اپنےہاتھوں میں چائے کی پیالی پکڑےقاسم کوباہر جاتے ہوئے دیکھتی چلی گئی۔

آشنا سے چہروں کے ، اجنبی رویوں کو سہہ کر مسکرا دینا ، آفرین اذیت ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر میں خوب چہل پہل تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی عروسہ کی شادی جو ہورہی تھی۔ ہر طرف شور ہنگامے ہورہاتھا۔کہیں ڈھول کی تھاپ پر سہیلیاں گیت گارہی تھیں تو کہیں مہندی لگائی جارہی تھی۔ کہیں نت نئے مزیدار پکوان بن رہے تھے۔عروسہ بہت خوش تھی کہ سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق جو ہورہاتھا۔ مہنگے پارلر سے میک اپ مہندی اور سروسز کی بکنگ سے لے کر شہر کے مہنگے ترین برانڈ سے برائیڈل ڈریس کی تیاری تک سب کام اس کی الٹرا ماڈرن بہنوں اور خالاوں کے ہاتھ خیریت سے انجام پاچکا تھا۔

بس ایک دن اس کے لئے بہت برا گزرنے والا تھا جس روز اس کی پھپھوؤں کو بھی بابا نےشادی سے پہلے کھانے کی دعوت دی تھی۔ اس کی پھپھو بہت اللہ والی بنتی تھیں۔غریب سے علاقے میں رہنے والی اس کی پھپواسے وعظ و نصیحت کی مشین لگتی تھیں۔ اس نے اپنی بہنوں سے اس دن کے آنے سے پہلے ہی اپنا تمام جہیز جس میں اس کے من پسند برانڈیڈ فیبرکس کے ساتھ اس کے تمام ہوم اپلائینسس بھی تھے، اپنے سسرال روانہ کردیئے۔ تاکہ پھپھو اپنے وعظ و نصیحت کی پٹاری نہ کھول سکیں۔

بری بھی پہلے ہی منگوالی۔ سارا کام اس کی پلاننگ کے مطابق بالکل ٹھیک ہواتھا۔ جس شام پھپو نے آنا تھا وہ زرد رنگ کا جوڑا زیب تن کئے سلیقے سے تیار ہوئی تھی۔ پھپو آئیں ، اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ۔ وہ رسمی سلام دعا کے بعد ان سے دور چلی گئی مبادا اسے دیکھ کر انہیں کچھ یاد نہ آجائے لیکن جاتے ہوئے ہمیشہ کی طرح رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے اس کے کان میں یہ کہہ گئیں کہ

” بیٹا ! ہم توہندوانہ رسم و رواج کو اپنے سے دور ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ شادی سے پہلے زرد رنگ ہندوانہ تہذیب کی عکاسی کرتاہے۔ اگر تم کوئی اور رنگ پہنو تو تم پر بہت جچے گا۔“

یہ سنناتھا کہ اس کے تمام ارمانوں آرزوئوں اور خوشیوں پر اوس پڑگئی۔ ان کے جانے کے بعد ماما سے بولی:
” ماما! یہ ہماری کیسی ہماری رشتہ دار ہیں، ان کے نہ آئے بناء کیا ہماری خوشیاں مکمل نہیں ہوسکتیں؟“

اوراس کی ماما اس کو ہوں ہاں کرکے تسلیاں دینے لگیں۔ اس پر اس کی بڑی بہن بولی:
” پھپوکی باتوں کو زیادہ دل پہ مت لیا کرو۔اصل میں ان کی بیٹیوں کو یہ سب آسائشیں نصیب نہیں ہیں نا جو ہمیں میسر ہیں۔ بس ! اسی لئے وہ ہم سے بری طرح جلتی ہیں“۔
یہ کہہ کر تمام بہنیں پھپو سے متعلق شکوے کرتے ہوئے صدیقہ بیگم کے ایمان کو بڑھانے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا کہ جتنا آپ دین سے جڑتے اور اللہ سے قریب ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔لوگوں کا رویہ محسوس اور غیر محسوس طریقے سے بدل رہاہے۔

لوگ اب آپ سےپہلے جیسی محبت نہیں کرتے۔
لوگ آپ کی بہت اہم بات کو بھی بالکل اہمیت نہیں دیتے۔
لوگ آپ کو اپنے سے کمتر،حقیر اور کم حیثیت سمجھتے ہیں۔
لوگ آپ پر دوسروں کو فوقیت دیتے ہیں۔

لوگ آپ کے ہر اچھے اور مثبت کام میں آپ کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔
لوگ آپ کی مثبت اور پیاری بات کو منفی انداز میں لیتے ہیں۔
لوگ آپ کو بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
لوگ آپ کوکہیں دیکھتےہی اپنی باتوں میں مگن ہوجاتے ہیں یا آپ کو مسلسل و مستقل و نظر انداز کرتے رہتےہیں۔ یعنی بقول احمد فراز

تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے
دیکھنا اے رہ نوردِ شوق! کوئے یار تک
کچھ نہ کچھ رنگِ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے

ہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھر
کون ہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں؟ ان سوالوں میں رہے
بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی
سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں کی چالوں میں رہے

اگر ایسا ہے تو آپ کا رویہ اس دوران کیسا ہوتا ہے؟
کیا آپ اداس مایوس اورناامید ہوجاتے ہیں؟ اپنے رویے پر نظر ثانی کرتے ہیں کہ کہیں آپ نے کسی کا دل دکھانے والی یا کسی کو نیچا دکھانے والی بات تو نہیں کی۔اگر ایساکچھ بھی ہوتااپنےآپ کو کس طرح مطمئن کرتے ہیں؟

کیا آپ نےایسی صورتحال میں کبھی اپنے آپ کو خوشخبریاں سنائی ہیں؟
نہیں نا۔۔۔!!

تو آئیے ! میں آپ کو وہ خوشخبریاں سناتی ہوں جو پندرہ سوسال پہلے میرے نبی مہرباں آخرالزماں احمد مجتبیٰ سیدالانبیاءخاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے آپ کو دی ہیں۔

ہم وہی اجنبی ہیں جو آپ ﷺ کے سلام کے مستحق بننے کے لیے کوشاں ہیں، جن کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا تھا کہ” سلام ہو ان اجنبیوں پر“۔

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری و مبارک بادی ہے“۔

دین کو اپنے طریقے سے چلانے کا آج جو رویہ روا رکھاجارہا ہے ٹھیک اسی طرح یہی رویہ آنحضورﷺ کی وصال کے بعد بھی روا رکھا گیا تھا ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آنحضورﷺ کا وصال 632ء میں ہوا اس کے بعد 656ء میں حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ اسلام کے دشمنوں خاص کر مسلمان نما منافقوں کو خلافت راشدہ اک نظر نہ بھاتی تھی۔

يہ منافق رسول اللہ سے بھی دنیاوی بادشاہوں کی طرح یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنا کوئی ولی عہد مقرر کریں گے۔ اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔

عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ 18 ذی الحجہ، بروز جمعہ بیاسی سال کی عمر میں انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران میں شہید کر دیا گیا۔

اور آنحضور ﷺ کی وصال کے فقط اڑتالیس 48 سال بعد واقعہ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں مشہور عام تاریخ کے مطابق اموی خلیفہ یزید اول کی بھیجی گئی فوج نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے۔

جب اتنے معتبر اور عظیم ہستیوں کے ساتھ سماج کا منافقانہ رویہ اتنا بڑھ سکتا ہے کہ انہیں اس اجنبیت کی راہ میں شہید کر دیا گیا۔ تو آپ اور ہم تو ابھی بہت پیچھے ہیں ۔ کیونکہ لوگوں نے آپ کو ابھی تک پتھر نہیں مارے صرف زبانی باتوں کے باعث ناامید نہ ہوں۔ اپنے دل کو مضبوط کیجئے۔ دل اداس ہو تو ان عظیم ہستیوں کی سوانح عمری پڑھ لیا کیجئے کہ جو اولولعزمی اور عزیمت کی راہوں میں اس قدر آگے نکل گئے کہ موت بھی ان کا راستہ نہ روک سکی۔

مصر کے سابق صدر ڈاکٹر مرسی شہید ہوں یا اخوان المسلمون کے سید قطب شہید۔ آپ کے ملک آپ کے اپنے شہر کی مظلوم بیٹی عافیہ ہو یا اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے مخلص افراد کی مظلومانہ شہادتیں۔ یہ سب ہمیں خوشخبریاں سنارہی ہیں۔ ان آوازوں پر لبیک کہتے ہوئے مکمل اور پر خلوص ہوکر ان کے قافلے میں شامل ہوجایئے۔ اس لذت آشنائی سے تعلق مضبوط کرلیجئے جو آپ کو دو عالم سے بیگانہ کردے۔ تاکہ روزقیامت آپ کے استقبال کے لئے فرشتے اپنے پر پھیلائے آپ کے منتظر ہوں۔

آخر میں ماضی کے مرد جانباز مولانا محمد علی جوہر کی وہ شاعری جو انھوں نے ایسے ہی اجنبیوں کے نام لکھی تھی آپ کی نذر کرتی ہوں:

تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لئے ہے
پر غیب سے سامانِ بقا میرے لئے ہے
پیغام ملا تھا جو حسین ابنِ علی کو
خوش ہوں وہی پیغامِ قضا میرے لئے ہے

یہ حورِ بہشتی کی طرف سے ہے بلاوا
لبیک کہ مقتل کا صلا میرے لئے ہے
کیوں جان نہ دوں غم میں ترے جب کہ ابھی سے
ماتم یہ زمانے میں بپا میرے لئے ہے

میں کھو کے تری راہ میں سب دولتِ دنیا
سمجھا کہ کچھ اس سے بھی سوا میرے لئے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے

سرخی میں نہیں دستِ حنا بستہ بھی کچھ کم
پر شوخئ خونِ شہداء میرے لئے ہے
راحل ہوں مسلمان بصد نعرہء تکبیر
یہ قافلہ یہ بانگِ درا میرے لئے ہے

انعام کا عقبٰی کے تو کیا پوچھنا لیکن
دنیا میں بھی ایماں کا صلا میرے لئے ہے
کیوں ایسے نبی پر نہ فدا ہوں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لئے ہے

اے شافعِ محشر جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لئے ہے
اللہ ہی کے رستے میں موت آئے مسیحا
اکسیر یہی ایک دوا میرے لئے ہے

کیا ڈر جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
ہے ظلم بہت عام ترا پھر بھی ستمگر
مخصوص یہ اندازِ جفا میرے لئے ہے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں