ابن فاضل ، اردو کالم نگار، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ

بانگ ناخواستہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل :

پرانی بات ہے، ڈائیوو کمپنی موٹر وے بنارہی تھی. ایک اندرون ملک فضائی سفر کے دوران ہمارا ہمسفر ایک کورین انجینئر بنا. کافی عرصہ سے پاکستان میں تھا اور سہولت بلکہ روانی سے انگریزی بول رہا تھا. ہمیں کوریا کی صنعتی ترقی کی وجہ جاننے کا دیرینہ اشتیاق تھا، اور پاکستانی صنعتی ڈھانچہ سے متعارف ہوئے بھی لگ بھگ پانچ، چھ سال ہوچکے تھے، سو ہم نے انکا اور اپنا فرق جاننے کے لیے اس انجینئر سے بہت سے سوالات کیے. ان سوالات کے جوابات سے جو خام سی معلومات حاصل ہوئیں وہ کچھ ایسے ہیں۔

کوریا میں بھی بالکل پاکستان کی طرح ہی بہت بڑی، درمیانی، چھوٹی اور بہت چھوٹی فیکٹریاں ہیں. بہت بڑی سے یہاں مراد سینکڑوں ملازمین پر مشتمل، درمیانی سے مراد سو سےکم، چھوٹی سے مراد پچیس سے کم اور بہت چھوٹی سے مراد دس سے کم ملازمین پر مشتمل فیکٹریاں ہیں.

بڑی کمپنیوں جیسے کار، بسیں، جہاز یا دیگر مشینیں وغیرہ بنانے والی کمپنیوں کیلئے درمیانی کمپنیاں پرزے بناتے ہیں. درمیانی کمپنیاں اپنا کچھ کام چھوٹی اور بہت چھوٹی کمپنیوں سے کروا کر بالآخر بڑی کمپنیوں کو پرزے سپلائی کرتی ہیں جو کاریں اور بسیں اور مشینری وغیرہ بناتے ہیں. گویا کوریا یا چین میں ایک خراد مشین رکھنے والا خرادیہ بھی اس معیار کے پرزے بناتا ہے یا بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو ڈائیوو کمپنی کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں.

ہمارے ہاں بھی اس سے ملتا جلتا نظام ہے. مگر فرق یہ ہے کہ ہماری چھوٹی کمپنیاں اور بہت چھوٹی کمپنیاں علم وہنر کے اس معیار پر نہیں کہ ان کے بنائے گئے پرزے کسی کار یا بس کی تیاری میں استعمال ہوسکیں. بلکہ بہت سی درمیانی کمپنیاں بھی ٹیکنالوجی، ہنر اور مشینری کی لحاظ سے اس قابل نہیں کہ عالمی معیار کی کسی کار یا بس کے پرزے بناسکیں.

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سی صنعتیں ہونے کے باوجود بالکل عام اور کم معیار کے پرزے تیار ہوتے ہیں جن کی قیمت بھی انتہائی کم ملتی ہے. نتیجہ یہ کہ ایک تو منافع بہت کم ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر صنعت میں پیسے کی اتنی ریل پیل نہیں جتنا کہ کوریا یا حتی کہ چین کی صنعتوں کے پاس ہے. دوسرا نقصان اس عمل کا یہ ہے کہ بہرحال ہمیں اپنی ملکی ضروریات کیلئے اچھے معیار کے یر طرح کے پرزے باہر کے ممالک سے ہی منگوانا پڑتے ہیں جس پر اربوں ڈالر سالانہ زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے.

اس سارے معاملہ میں جو بنیادی کجی ہے وہ ہے ہنرمندی کی کمی. ہمارے ہنرمند کام کی بالکل بنیادی باتوں سے ہی آشنا نہیں اور اس کی بڑی وجہ ہے ہنرمندی کی باقاعدہ تربیت کا فقدان. ملک بھر میں خراد یا پرزہ جات بنانے والی دوسری مشینوں کے استعمال کی باقاعدہ تربیت تقریباً صفر ہے. ہر طرح کے تمام ہنرمند بطور شاگرد اداروں میں بھرتی ہوتے ہیں اور سالہا سال میں دستیاب علم اور تربیت حاصل کرنے کے بعد کاریگر بنتے ہیں.

صنعتوں میں تربیت کا یہ عمل اس قدر پیچیدہ اوراتنا زیادہ وقت لیتا ہے کہ عملاً اب کوئی کاریگر بننے پر آمادہ ہی نہیں. دوسری طرف یہی کام اگر باقاعدہ ادارے میں کورس کی صورت میں سکھایا جائے تو محض ایک سال میں کوئی بھی شخص اس سے کہیں بہتر کاریگر بن سکتا ہے جتنا وہ کسی ادارے میں دس سال میں بنتا ہے.

ہم نے بھارت کے ہنر مندی کے نظام کا تھوڑا سا جائزہ لیا. وہاں مڈل کے بعد دوسال کا خرادیہ کورس ہے. جس کا سلیبس دیکھنے کا اتفاق ہوا. ابتدائی ابواب میں ہی وہ معلومات موجود ہیں جن سے ہمارے کاریگر بیس بیس سال کام کرنے کے بعد نابلد ہیں. یہی وجہ ہے کہ بھارت ہر صنعتی شعبہ میں ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے.

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی ہمارے کسی پالیسی ساز کے ذہن یا سرکار کی ترجیحات میں کہیں ہنرمندی کی تربیت شامل نہیں لیکن یہ بات بہرحال طے ہے کہ صنعتی ترقی کے بغیرقومی معیشت میں دیرپا بہتری کی کوئی صورت نہیں اور صنعت کی ترقی ہنرمندی کی تربیت کے بغیر دیوانے کا خواب ہے.

ہمیں آج نوجوانوں کو جنگی بنیادوں پر نوجوانوں کو ہنر سکھانے اور تربیت دینے کی ضرورت ہے، ہمارے لیے یہ ہنرمندی اور تربیت… موٹرویز، میٹروز اور مہمان خانوں سے کہیں زیادہ اہم ہے مگر نہیں معلوم کون، کب کیسے وزارت صنعت وزارت منصوبہ بندی اور وزارت تعلیم کو یہ بنیادی باتیں اور ان کی اہمیت باور کروائے گا.. نہیں معلوم ہمیں کب ہوش آئے گی.

انہونی

لاہورکا نیا ائیر پورٹ بن رہا تھا، ایک دوست کو کچھ سامان فراہم کرنے کا آرڈر ملا. کچھ عرصہ وہ سامان دیتا رہا. مگر پھر آرڈر میں تسلسل نہ رہا. دوست نے پروکیورمنٹ مینیجر سے بات کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ کوئی غیرملکی ہے. انہوں نے ہمیں بطور مترجم ساتھ چلنے کا کہا۔

مینیجر صاحب سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ ایک دوسری کمپنی ہمارے دوست سے کم قیمت پر انہیں مال فراہم کررہی ہے لہذا وہ ان سے نہیں لے سکتے. ہمارے دوست نے ہمیں اردو میں بتایا کہ وہ انتہائی کم قیمت پر مال دے رہے ہیں اس سے کم قیمت پر مہیا کرنا ممکن نہیں. بات ختم ہوئی، ہم آٹھ کر آنے لگے تو دوست نے کہا کہ ان سے پوچھیں کیا ہم دوسری کمپنی کا فراہم کردہ مال دیکھ سکتے ہیں. اس نے کہا ہاں، آپ سٹور چلے جائیں، میں سٹور کیپر سے کہہ دیتا ہوں.

لوہے پر زنگ سے بچاؤ کیلئے جست چڑھایا جاتا ہے. جس کے عام طور پر دو طریقے ہیں. ایک کو ” ہاٹ ڈپ گیلوانائزنگ “ کہتے ہیں، اس عمل میں پگھلے ہوئے جست میں لوہے کے ٹکڑے ایک خاص کیمیائی مادہ لگا ڈبوئے جاتے ہیں جس سے خاصی موٹی جست کی تہہ لوہے پر چڑھ جاتی ہے. دوسرے عمل کو ” الیکٹروپلیٹنگ “ کہتے ہیں اس میں بجلی کے ذریعہ جست کی بہت باریک تہہ چڑھائی جاتی ہے. ہاٹ ڈپ گیلوانائزنگ اور الیکٹروپلیٹنگ کی عمر اور قیمت میں دس اور ایک کی نسبت ہوتی ہے.

جو ڈرائنگ انہیں ملی تھی اس پر ہاٹ ڈپ گیلوانائزنگ لکھا تھا. جبکہ سٹور میں جو پرزے دوسرے کمپنی کے فراہم کردہ پڑے تھے وہ الیکٹروپلیٹنگ والے تھے. ہم واپس مینیجر کے پاس آئے اور اسے بتایا. پہلے تو اسے یقین ہی نہیں آیا، ہمارے اصرار پر اس نے پرزے منگوا کر چیک کئے. پھر اس نے ایک جملہ بولا جس کی بازگشت آج بھی ہماری سماعتوں میں گونجتی ہے.

اس نے کہا کہ ” ہم تو تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ڈرائنگ پر ہاٹ ڈپ گیلوانائزنگ لکھا ہو اور کوئی شخص ہمیں الیکٹروپلیٹنگ والے پرزے مہیا کردے.“

جی چاہتا ہے کہ کاش ہمارا سماج بھی ایسا ہو جائے کہ ہم بھی کہتے ہوں” ہمارے ہاں تو تصور ہی نہیں کہ کوئی شخص ناجائز منافع کی خاطر غلط کام بھی کرسکتا ہے“


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں