عبید اللہ عابد :
گزشتہ روز نیشنل پریس کلب میں دوپہر کا کھانا کھا کر باہر نکلا تو دیکھا، قریبا ً 100 افراد ” ایاز صادق غدار ہے “ کے نعرے لگارہے تھے، ان کے درمیان تحریک انصاف کا ایک پرچم لہرا رہا تھا۔ حب الوطنی کا یہ مظاہرہ حکمران جماعت کی طرف سے تھا لیکن شرکا کی تعداد صرف ایک سو۔
کچھ ایسا ہی مظاہرہ کراچی میں بھی ہوا، وہاں بھی کم و بیش اتنے ہی شرکا حب الوطنی کا اظہار کررہے تھے۔ اب یار دوست تحریک انصاف کے سب سے مقبول جماعت ہونے پر بھپتیاں کس رہے ہیں۔
کوئی وقت تھا کہ عمران خان کا خطاب سننے کے لئے ہر شہر میں تاحد نظر لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان میں زیادہ تر وہ نوجوان ہوتے تھے جو نئے نئے ووٹر بنے تھے لیکن اب اسلام آباد میں 100 اور کراچی میں بھی ایک سو یا چند ایک زیادہ افراد کا مظاہرہ حکمران جماعت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس سے زیادہ حاضری جماعت اسلامی کے مقامی مظاہروں میں ہوتی ہے جس کی اسمبلی میں ایک ہی سیٹ ہے۔
مظاہروں میں اس قدر کم حاضری کے دو ہی مطلب نکالے جاسکتے ہیں:
اول: تحریک انصاف کی حکومت عدم مقبولیت کی بدترین حالت کا شکار ہوچکی ہے، جب ہلکا سا جھونکا بھی حکومت گرانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔
دوم : جو قوتیں پہلے زور لگا کر تحریک انصاف کے جلسوں کی حاضری کئی ہزار گنا فیصد بڑھایا کرتی تھیں، انھوں نے واقعی اپنا ” دست شفقت “ کھینچ لیا ہے۔ اب تحریک انصاف کو اپنے جلسے جلوس خود ہی نکالنے ہوں گے کیونکہ ” انھیں “ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔
شاید حکومت میں شامل لوگوں کو مندرجہ بالا دونوں مطالب کے درست ہونے کا اندازہ ہے۔ حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی، اسی لئے وہ لوگوں کو مسلسل تلقین کرتے ہیں کہ گھبرانا نہیں، بس! تھوڑا سا مزید صبر کرلیں۔ تاہم لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو سنبھالا دینے لئے ضروری اقدامات بھی نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ اپنی ٹیم کو بار بار کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے خلاف زیادہ بلند آواز کے ستھ بولو۔
ان کے اقدامات تو یہ ہیں کہ یوکرائن کے کسان سے مہنگی گندم خرید کر پاکستان درآمد کی جارہی ہے جبکہ پاکستانی کسان کے لئے گندم کی قیمت کا ریٹ بہت کم مقرر کیا گیا۔ تحریک انصاف اقتدار میں آنے سے پہلے پچھلی حکومتوں کو کسان دشمن قرار دیتی تھی ،اور لوگوں سے وعدہ کرتی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت کسان کو زندگی کی طرف لائے گی، اسے پائوں پر کھڑا کرے گی، پھر اسے ایسی توانائی بخشے گی کہ وہ دوڑے گا لیکن حکومت میں آنے کے بعد وہ اپنے وعدے پورے کرنے کے بجائے سیاسی مخالفین کے پرخچے اڑا دینے کی حکمت عملی تیار کرتی رہتی ہے۔
وزیراعظم بھلے ایک کروڑ 69 لاکھ تین ہزار سات سو دو لوگوں ( تحریک انصاف کو ملنے والا ووٹ انتخابات 2018) کو اپوزیشن کو زیادہ اونچی آواز میں گالیاں دینے پر مامور کردیں تو بھی ان کی مقبولیت گرنے کا سلسلہ رک نہیں سکتا۔ ویسے تو 2018 کے انتخابات کے دن بھی آٹھ کروڑ سے زائد پاکستانیوں نے تحریک انصاف کو ووٹ نہیں ڈالا تھا، تاہم تحریک انصاف کی بری حکمرانی کے سبب ان کے ایک کروڑ 69 لاکھ ووٹوں میں سے بھی بہت سے آپ کے مخالف ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے مظاہروں میں لوگوں کا شریک نہ ہونا اسی بات کی عکاسی کرتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف اپنے مخالف ووٹروں کو بھی اپنا بنانے کے لئے اقدامات کرتی لیکن ایسی کوئی بھی حکمت عملی تیار نہ کی گئی۔ شروع دن سے ہی عمران خان نے اپنی ٹیم کو اپوزیشن کے خلاف بیانیہ کی آنچ تیز رکھنے پر زور دیا گیا۔
دوسری طرف پہلے لوگوں سے پہلے سو دنوں کا وعدہ کیا گیاکہ کچھ نہ کچھ کرکے دکھائیں گے، پھر تین ماہ کا، اس کے بعد چھ ماہ کا، پھر کہا گیا کہ پچھلی حکومتوں نے معاملات اس قدر خراب کردئیے ہیں کہ انھیں سنوارنے میں وقت لگے گا، اب تحریک انصاف والے کہتے ہیں کہ 73 سال کا گند ہے، اس کے لئے پانچ سال تو دیں۔
اب وزیراعظم کہتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے مافیاز ہیں، وہ مجھے تبدیلی نہیں لانے دیتے۔
تحریک انصاف کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا مزید نہیں چلے گا، اسی ڈگر پر چلتے رہے تو جو چند ایک فیصد مقبولیت باقی بچی ہے، وہ بھی صفر ہوجائے گی۔ اپوزیشن سڑکوں پر نکلی ہے تو حکومت نے پیسوں کے حساب سے چیزیں سستی کرنا شروع کی ہیں۔ حالانکہ مہنگی روپوں کے حساب سے کی تھیں۔
اپوزیشن کا راستہ روکنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مہنگائی کم کرنے کے نام پر لوگوں کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکی جائے۔ انھیں حقیقی معنوں میں ریلیف دیا جائے، ان کی زندگی اس قدر آسان کی جائے ، جتنی نوازشریف دور میں تھی۔ لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ نوازشریف حکومت اپنے وسائل کی مدد سے لوگوں کی زندگی آسان کرتی تھی یا غیرملکی قرضے لے کر۔ انھیں اپنی زندگیوں میں آسانی چاہئے تھی، شریف حکومت نے آسانی پیدا کی۔
عمران خان حکومت کو بچنا ہے تو عام آدمی کو شریف حکومت سے زیادہ ریلیف دے کراپنے ساتھ ملانا ہوگا بصورت دیگر دنیا کی کوئی طاقت حکومت کو بچا نہیں سکتی، چاہے وہ ایک پیج پر ہی کیوں نہ رہے۔