عاصمہ شیرازی
جولائی 2007، لندن میں نواز شریف کی جانب سے ایک کُل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ میں خود اپنے چینل کی جانب سے اُس وقت لندن سے یہ کُل جماعتی کانفرنس کور کر رہی تھی۔ اس کانفرنس میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں اور اُن کے سربراہان ماسوائے محترمہ بے نظیر بھٹو کے شریک تھے۔ جناب عمران خان اُس وقت قومی اسمبلی میں ایک ہی نشست رکھتے تھے اور وہ خود بحیثیت اپنی جماعت کے سربراہ کے اس کانفرنس میں شریک تھے۔
بارہ مئی کا سانحہ ہو چکا تھا اور کراچی میں ایم کیو ایم کی مدد سے پرویز مشرف کی طاقت کا اظہار بھی۔۔۔ اپوزیشن جماعتیں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں تھیں۔ ملک میں جنرل مشرف کے خلاف زبردست تحریک اپنے عروج پر تھی اور فیصلہ کرنا تھا کہ کس طرح ایک صفحے پر اکٹھے ہو کر جنرل مشرف کو نکال باہر کیا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ جنرل مشرف کا دست راست کہلانے والی ایم کیو ایم کو عمران خان صاحب دہشت گرد پارٹی ڈکلیئر کروانا چاہتے تھے۔ اُن کی ایما پر اعلامیے میں ایم کیو ایم کو دہشت گرد جماعت قرار دیا گیا تھا۔ گئے وہ دن جب خلیل خان فاختائیں اڑایا کرتے تھے۔ ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ آج نہ صرف عمران خان کی حکومت ایم کیو ایم کے ووٹوں کے آسرے پر ہے بلکہ مشرف کی دست راست جماعت اُن کی طاقت کا باعث بھی ہے۔
وقت اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ سیاست میں حلیف اور حریف بدلتے رہتے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ پاکستان کا ایک آئین ہے جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت کا نفاذ ہے۔ کہنے کو تو ملک میں جمہوریت ہی ہے مگر یہ جملہ معترضہ ہو سکتا ہے۔
پارلیمان کی بے توقیری کا آغاز جناب نوازشریف صاحب نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔ عوام کی منتخب اسمبلی میں جہاں عوام کی اُمنگوں کے مطابق قانون سازی ہونا تھی محض اس لیے عدم دلچسپی کا شکار رہی کہ 342 کا یہ ایوان کیونکر اور کیسے فیصلے کر سکتا ہے۔ نواز شریف صاحب کی اس روش اور عدم دلچسپی نے اس ایوان کو محض ایک ڈبیٹنگ کلب بنا دیا۔ کوئی فیصلہ اس ایوان میں نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ طے ہوا کہ ضرب عضب کا اعلان قومی اسمبلی میں کیا جائے گا، نواز شریف صاحب نے خطاب تو ضرور کیا مگر اس کا اعلان نہ کیا اور یوں یہ فیصلہ افواج پاکستان کو ایک ٹویٹ کے ذریعے سُنانا پڑا۔
رہے عمران خان صاحب، تو اُنھوں نے ایوان کو بطور اپوزیشن رہنما بھی عزت نہیں بخشی۔ 146 دن عمران خان نواز شریف کے خلاف ڈی چوک پر صف آرا رہے اور پارلیمان کا تقدس چوک چوراہے میں دھوتے رہے۔ 2002 سے اب تک خان صاحب اور نواز شریف کی قومی اسمبلی میں کارکردگی میں کوئی خاص فرق نہیں۔۔
دن گزر گئے ہیں۔۔ اب عمران خان قومی اسمبلی کے ایوان میں براجمان ہیں۔ گذشتہ 90 دنوں میں بمشکل وزیراعظم دو سے تین بار ایوان میں تشریف لائے ہیں۔ قومی اسمبلی میں سوالات کے براہ راست جوابات دینے کا وعدہ دھرے کا دھرا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ابھی 100 دن مکمل نہیں ہوئے اور کورم کئی بار نامکمل ہو چکا ہے۔ پارلیمانی تاریخ میں ایسا کم ہی دیکھنے کو ملا ہے کہ حکومت خود کورم نہ ہونے کی نشاندہی کرے اور اجلاس برخاست کر دے۔
گذشتہ تین ماہ میں قومی اسمبلی میں کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ یہی نہیں بلکہ کوئی پارلیمانی قائمہ کمیٹی تشکیل نہیں پا سکی اور وجہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا تنازعہ ہے۔ میثاق جمہوریت کے مطابق قائد حزب اختلاف کو چئیرمین بنانے کی روایت ڈالی گئی تاہم موجودہ حکومت نہیں چاہتی کہ ن لیگ کی حکومت کے آڈٹ پیراز کو شہباز شریف کے سپرد کیا جائے۔ یہ مسئلہ کب تک حل ہو گا اس میں کم از کم موجودہ حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
آئے دن دونوں ایوانوں میں ہنگامہ ٹیلی وژن کے ذریعے گھر گھر پہنچ رہا ہے اور پارلیمانی نظام کے خلاف گھات لگا کر بیٹھنے والے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہاں فقط جھگڑے ہیں۔۔۔ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل پیش کرنے کی اہلیت ان ایوانوں میں موجود نہیں۔
آنے والے دنوں میں اس ایوان کو اہم فیصلے کرنا ہیں۔ ملک میں اس وقت تاریخ کے کم ترین زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ ہم اپنی بقا کے نازک ترین مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ عالمی سامراج ہمارے دروازے پر ڈو مور کے مطالبے لئے کھڑا ہے۔ آنے والے دنوں میں علاقائی محاذ بھی ہم سے تقاضے کرتے دکھائی دیں گے۔
ٹرمپ صاحب کا لہجہ دن بدن سخت ہو رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ہلکی سی دھونس زبردست کمزور ترین معاشی حالت کے سبب گھٹنوں پر لا سکتی ہے جو ملک میں انتشار کا سبب بن سکتی ہے اورہم نہ چاہتے ہوئے بھی ناپسندیدہ فیصلے کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
اس لمحے تک ہمیں ’دیرینہ‘ دوستوں کی جانب سے محض وعدوں پر ہی ٹرخایا گیا ہے۔ حالات کی سنگینی یہاں تک ہے کہ سب ادارے ایک صفحے پر ہیں، ایک ساتھ ہیں، یہاں تک کہ دوسروں سے مدد مانگنے کے لیے بھی ایک ساتھ کوشاں ہیں پھر بھی وہ کامیابی ہاتھ نہیں آ رہی جس کی اُمید جناب عمران خان کی حکومت کے آنے کے ساتھ ہی تھی۔
آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات میں کچھ نئے قوانین پر بات بھی ہو رہی ہے اُن میں کچھ قانون سازی آئی ایم ایف کے تقاضوں کے مطابق کرنا ہو گی جس پر شاید اپوزیشن آمادہ نہ ہو۔ پی ٹی آئی ایوان بالا میں وہ قانون سازی کیسے کرے گی یہ صورت حال پریشان کُن بھی ہے اور انتظار طلب بھی۔
ایسے میں تحریک انصاف کی حکومت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف محض احتساب کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ سب ایجنڈا ہے یا نااہلی مگر تحریک انصاف کو کاغذی کاروائیوں اور دھمکیوں سے باہر آنا ہو گا ورنہ ہمارے جیسی سیکیورٹی سٹیٹ کے لیے اگر بروقت دفاع کے اخراجات کا بندوبست نہ ہوا تو ناپسندیدہ فیصلے ہو سکتے ہیں۔
تحریک انصاف پارلیمان کو عزت دے۔ میثاق معیشت پر اپوزیشن سے بات کرے ورنہ دیر ہو جائے گی اور پارلیمنٹ کے خلاف سازش کا الزام بھی اسی حکومت پر لگے گا۔(بشکریہ بی بی سی)