عبیداعوان
وزیراعظم عمران خان کا ایک اور خطاب گزشتہ روز سے زیربحث ہے جس میں انھوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تاریخ میں ذکر نہیں ہے، سینئر صحافی سید طلعت حسین نے خطاب کے ایک خاص حصے کی ویڈیو اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پر لگائی اور کہاکہ "اب دیکھتے ھیں کہ ملک کے وزیر اعظم کے ایک اور تاریخی دعوے پر حکومتی نمائندگان کیا روشنی ڈالتے ہیں”۔ سابق وزیرداخلہ احسن اقبال نے ایک فرد علی ڈار کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا جس میں کہاگیاتھا:”یہ خان صاحب کون سی تاریخ کی کتابیں پڑھتے ہیں جن مین اُن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر نہیں ملتا؟ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ اگر دین پر آپ کا مطالعہ محدود ہے تو یقین کریں کہ لکھی ہوئی تقریر پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔” ایک اور ٹوئٹر صارف گل بخاری کا کہناتھا:”سب سے زیادہ انتظار صدر عارف علوی صاحب کے بیان کا رہے گا -اس کے بعد فیصل جاوید کا ۔ جو متوقع طور پر اس بیان کے دفاع میں لغت میں “تاریخ”، “عیسیٰ”، پیغمبر”، “mention” جیسے الفاظ کے نئے نئے معنی متعارف کرانے شروع کر دیں گے۔ ”
صدر عارف علوی اور فیصل جاوید نے اپنے لیڈر کا دفاع کیا یا نہیں کیا، اس کے شواہد تاحال نظر نہیں آئے البتہ تحریک انصاف کے متعدد حامیوں نے اس نازک صورت حال میں بھی سوشل میڈیا کے میدان میں اپنے دلائل لے کر نکل آئے اور ثابت کرنے لگے کہ حضرت عیسی کا ذکر تاریخی کتب میں نہیں ملتا۔۔
کچھ غیرجانبدار حلقے بھی اس معاملے پر جناب وزیراعظم کو رعایت دینے کی بات کررہے ہیں۔ صحافی جمال عبداللہ عثمان بھی رحمۃ العالمین کانفرنس میں شریک تھے، وہ کہتے ہیں:”وزیراعظم نے آج رحمہ للعالمین کانفرنس سے خطاب کیا۔ میں نے پوری تقریر سنی اور بڑے غور سے سنی۔ دل کی دھڑکن مسلسل تیز رہی کہ کہیں یہاں بھی اپنے روایتی انداز میں جذبات سے مغلوب ہوکر بہک نہ جائیں کہ یہ “راستہ کوئی اور ہے”۔ ان کی گفتگو سے لگ رہا تھا کہ وہ بھی خاصے محتاط ہیں۔ لیکن ایک جگہ حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق وہ کچھ ایسا کہہ گئے جس پر کئی لوگوں کو معترض دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ وزیراعظم کہنا کچھ اور چاہ رہے تھے مگر کہہ کچھ اور گئے”۔
"غالب امکان یہی ہے کہ وہ یہ سمجھانا چاہ رہے تھے کہ اتنے انبیاء آئے مگر کسی کی زندگی اس طرح محفوظ نہیں جیسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ یہاں تک کہ حضرت عیسی اور حضرت موسی علیہما السلام جیسے جلیل القادر انبیاء کی سیرت بھی کہیں اس مرتب انداز میں محفوظ نہیں۔ لیکن وہ اس انداز سے کہہ گئے کہ اعتراض کرنے والوں کو موقع فراہم کردیا”۔
"کبھی آپ خان صاحب کو براہ راست سنیں تو وہ ایسی ہی گفتگو کرتے ہیں۔ قرآن کو حدیث اور حدیث کو قرآن کی آیت قرار دے ڈالتے ہیں۔ بعض اوقات کسی بزرگ کا قول حدیث قرار پاجاتا ہے۔ قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کئی ایسے مشہور واقعات اور روایات کو بہت کمزوراور ڈھیلے ڈھالے انداز میں پیش کیا”۔
جمل عبداللہ عثمان کہتے ہیں:”بہتر یہ ہے کہ وزیراعظم کسی بھی ایسی روایت کا ذکر کرنے سے پہلے کسی سے اس کا ذکر کریں۔ اسے پکا کریں اور اس کے بعد اس کا تذکرہ کریں۔ اس طرح وہ کسی بھی مستند بات کو کمزور اور سطحی انداز میں نہ صرف پیش کرنے سے محفوظ رہیں گے بلکہ انہیں مخالفین کی غیرضروری تنقید بھی نہیں دیکھنی پڑے گی۔ خصوصا حدیث کے باب میں اس شدید تنبیہ کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا”۔