انصار عباسی :
مسلم لیگ نون اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اب بھی رابطے ہیں لیکن نواز شریف اپنی جارحانہ حکمت عملی پر پیش قدمی کے فیصلے پر قائم ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے اہم معاون شہزاد اکبر نے حال ہی میں کہا تھا کہ جس وقت شہباز شریف نیب کی حراست میں تھے اس وقت نون لیگ کے تین رہنمائوں نے ان سے ملاقات کی تھی۔
میڈیا کے کچھ مبصرین نے بھی اس ایشو پر بات کی تھی اور اشارہ دیا تھا کہ نواز شریف نون لیگ کے ان رہنمائوں سے ناراض ہیں جنہوں نے نیب کی جیل میں شہباز شریف سے ملاقات کی تھی۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اسلئے ناراض تھے کہ اُن تین نون لیگی رہنمائوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سینئر نمائندے کی ’’درخواست‘‘ پر شہباز شریف سے ملاقات کی تھی۔ یہ تین رہنما خواجہ آصف، احسن اقبال اور رانا تنویر حسین تھے۔
دی نیوز کے رابطہ کرنے پر احسن اقبال نے بتایا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے صدر سے میاں نواز شریف کو آگاہ کرنے کے بعد ملاقات کی تھی۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ نواز شریف ان سے ناراض ہیں۔ انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ ان کی ملاقات کا اہتمام اسٹیبلشمنٹ نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے نیب سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔
تاہم، نون لیگ کے ذرائع کہتے ہیں کہ نون لیگ کے وفد کے پاس شہباز شریف کیلئے ایک پیغام تھا۔ اس رابطے سے قبل، نواز شریف سے رابطے کی کوشش کی گئی تھی جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے پیغام لیکر آنے والوں کیلئے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ تاہم، فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع کا اصرار ہے کہ نون لیگ کے تین رہنمائوں کی شہباز شریف سے ملاقات کا اہتمام سلیمان شہباز کی جانب سے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔
سلیمان شہباز نے درخواست کی تھی کہ اس ملاقات کا انتظام کیا جائے۔
بیرسٹر شہزاد اکبر نے رابطہ کرنے پر دی نیوز کو بتایا کہ نون لیگ کے تین رہنمائوں نے شہباز شریف سے ملاقات کی اور اس صورتحال نے نواز شریف کو ناراض کر دیا۔
شہزاد اکبر نے ان تین نون لیگی رہنمائوں کے نام بتانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق تین رہنمائوں نے نواز شریف کے ’’جارحانہ رویے‘‘ کیخلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
شہزاد اکبر کے مطابق، نواز شریف ناراض ہیں کہ ان تین رہنمائوں نے شہباز شریف سے کیوں ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ اُس وقت سے لیکر نواز شریف نے پارٹی کو براہِ راست کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور نون لیگ کے رہنمائوں کے درمیان کئی رابطے ہوئے ہیں لیکن نواز شریف اپنا موقف نرم کرنے کو تیار نہیں۔
بلاول بھٹو، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کے دیگر رہنمائوں کے برعکس نواز شریف نے سینئر فوجی افسران کے نام لینا شروع کر دیا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ ان افسران نے سپریم کورٹ سے ان (نواز شریف) کی سزائوں کا ’’انتظام‘‘ کیا اور ساتھ ہی 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے حق میں ’’انجینئرنگ‘‘ کی۔
نواز شریف کے ایسے سخت موقف نے حکومت، اسٹیبلشمنٹ حتیٰ کہ نون لیگ کے کئی لوگوں کو پریشان کر دیا ہے۔ نواز شریف کے موقف کے برعکس، پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرپرس بلاول بھٹو اپنی تنقید کا مرکز اسٹیبلشمنٹ سے ہٹا کر عمران خان حکومت کی طرف لیجا رہے ہیں۔ ( بشکریہ روزنامہ جنگ )