ابن فاضل :
لاہور میں جی ٹی روڈ پر پاکستان منٹ نامی ایک ٹیکسال ہے جہاں سکے بنتے ہیں. اس کے عین سامنے ایک لوہے کا لنڈا بازار ہے. جہاں سے لوگ پرانا لوہا خرید کر استعمال کرتے ہیں. بہت پرانی بات ہے اس بازار کے باہر کچھ مکئی کے سٹے بیچنے والے کھڑے ہوا کرتے تھے۔
دوسرے شہروں کا علم نہیں مگر لاہور میں سٹوں کی ایک مختلف سی قسم فروخت کیلئے لائی جاتی ہے، جس میں سٹے بڑے سے ٹوکرے میں کوئلے ڈال کر ان میں دبائے جاتے ہیں تاکہ تادیر گرم رہیں اور پھر بوقت فروخت ان پر لیموں اور مصالحہ لگا کر فروخت کیا جاتا ہے.
پاکستان منٹ کے باہر کھڑے ان سٹہ فروشوں میں ایک بالکل چھوٹی سی عمر کا پٹھان لڑکا تھا، جب تک ملازم لوہا مارکیٹ سے لوہا خرید رہا تھا ، ہم نے پٹھان بچے سے سٹہ لیا اور گاڑی میں بیٹھے ہی کھانے لگے. وہ سٹہ بہت ہی نرم، میٹھا اور لذیذ تھا. اسے کھانا ایک زبردست اور منفرد تجربہ تھا۔
کچھ دن بعد وہاں سے گزر ہوا تو ہم نے جانا کہ لاشعوری طور پر ہماری آنکھیں اس پٹھان لڑکے کو تلاش کررہی تھیں. کچھ تلاش کے بعد وہ مل گیا۔ پھر اسی سے سٹہ خریدا. وہ پھر بھی ویسا ہی تھا نرم اور لذیذ. اور جب تک وہ لڑکا وہاں رہا ہم نے کبھی کسی اور سے سٹہ نہیں خریدا. بلکہ شاید درجنوں اور لوگوں کو بھی اس کا بتایا.
یہ ہے معیار کا سحر!
آپ ایل سی ڈی خریدنے جاتے ہیں، جی میں خواہش ہوتی ہےکہ کہیں سے اصلی جاپانی مل جائے، کسی واقف کار سے پوچھتے ہیں، بھئی کوئی ایسا بندہ ہو جو اصلی جاپانی ایل سی ڈی لے کر دے سکے. ملائشیا، کوریا، چین کی مصنوعات کی بازار میں بہتات ہے مگر آپ کا دل میڈ ان جاپان کیلئے ترسیدہ ہے.
یہ ہے معیار کا سحر!
آپ گوجرانوالہ والے سے چڑے کھانے جاتے ہیں، ملتان سے حافظ کا سوہن حلوہ خریدنے لگتے ہیں، موچی دروازہ لال کھوہ کی برفی یا خلیفہ کی خطائیاں لینے جاتے ہیں، ماڈل ٹاؤن سے بھیا کے کباب کھانے جاتے ہیں، آپکو پانچ پانچ دس دس اصلی چڑے والے، اصلی لال کھوہ والے، اصلی بھیا کباب والے ملتے ہیں جبکہ اصل صرف ایک ہوتا ہے. آپ محنت کرکے، تلاش کرکے لوگوں سے پوچھ پوچھ کر اصل کے پاس جاتے ہیں.
یہ ہے معیار کا سحر!
اگر آپ کی فروخت کیلئے پیش کی گئی چیز کے معیار سے گاہک کے اطمینان کی ایسی ہی سطح ہے جیسی ہماری اس سٹے کے معیار سے تھی تو یقین مانیں آپ کے کاروبار کو پھیلاؤ کیلئے کسی ایڈورٹائزنگ، کسی سہارے کی ضرورت نہیں. گاہک آپ کو تلاش کرکے آپ تک پہنچیں گے. خود بھی خریدیں گے، پانچ لوگوں کو بھی بتائیں گے. اور اگر مطمئن نہیں تو نہ صرف یہ کہ خود دوبارہ نہیں خریدیں گے بلکہ بیس لوگوں کو بھی منع کریں گے کہ فلاں شخص سے سامان کبھی مت خریدنا.
بہت سی صورتوں میں معیار بہتر بنانے کیلئے بہت زیادہ فالتو رقم خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف تھوڑا سا علم اور تھوڑی سی توجہ درکار ہوتی ہے. مثال کے طور دیگی لوہے کی ڈھلائی کے سینکڑوں کارخانے ہیں لاہور میں. بہت سے دوست اچھی کوالٹی کا دیگی لوہا بنانے کیلئے مشورہ کرنے آتے ہیں.
ہم انہیں بتاتے ہیں کہ صرف ایک سے دوروپے فی کلوگرام کے فرق سے آپ دوگنا طاقت کا لوہا بنا سکتے ہیں بشرطیکہ آپ لوہے کے اجزاء ترکیبی کے متعلق تھوڑا سا بنیادی علم حاصل کرلیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نوے فیصد لوگوں کا جواب ہوتا ہے کہ علم حاصل نہیں کرسکتے، بس آپ کوئی ایسی پڑیا دیدیں جو ہم جاکر ڈالیں اور طاقت دوگنا ہوجائے. ہم کہتے ہیں ایسی جادو کی پڑیا ابھی ایجاد نہیں ہوئی.
اسی طرح آپ دیکھیں فرنیچر بنانے والا کاریگر اگر تھوڑی توجہ سے اور مہارت سے لکڑی کاٹے، اسے خوبصورتی سے جوڑے، کاٹتے وقت بالکل گنیے میں کاٹے، جوڑتے وقت کنارے بالکل برابر رکھے تو جو چیز بنے گی اس میں توازن ہوگا وہ آنکھوں کو بہت بھلی لگے گی جبکہ وہی لکڑی چاہے مہنگی سے مہنگی ہو، اگر بے ڈھنگی کاٹی اور جوڑی گئی ہوگی اسے دیکھ کر ہر بار دل دکھے گا.
اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ذہن میں بٹھا لیں، کامیابی کی منزل کوالٹی کی سیڑھی چڑھے بغیر نہیں مل سکتی. آج سے اپنی مصنوعات یا خدمات کے معیار پر توجہ دیں، دل میں ٹھان لیں کہ میں نے کسی صورت بھی جاپان یا جرمنی کے معیار سے کم معیار کی چیز نہیں بنانا یا فروخت کرنا، پھر اس کیلئے لازمی علم حاصل کریں، ضروری ہنر سیکھیں. جس دن آپکا گاہک آپکی مصنوعات کے معیار کے سحر میں گرفتار ہوگیا، آپکا ملک میں ہی نہیں دنیا بھر میں نام ہوگا.
ایک تبصرہ برائے “یہ ہوتا ہے معیار کا سحر”
ابن فاضل صاحب آپ نے بالکل بجا فرمایا۔ معیار کو عوام اور خواص ان پڑھ اور پڑھے لکھے سبھی تلاش کرتے ہیں لیکن مہیا کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ غیر معیاری چیزیں فروخت کرنے والا بھی اپنی ذات کے لئے معیار ڈھونڈتا ھے۔ ایسی تحریریں عام کرنے کی ضرورت ھے۔۔۔اس لئے میں کئی لوگوں سے شئیر کر رہی ھوں۔