عبید اللہ عابد :
ایک سمجھ دار کرکٹر کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اگر بائولر ہے تو اپنی گیندوں سے بلے باز کو غصہ دلاتا ہے، فرسٹریشن کا شکار کرتا ہے، اسی فرسٹریشن میں بلے باز غلط شارٹ کھیلنےکی کوشش میں اپنی وکٹ دے دیتا ہے۔ اسی طرح سمجھ دار کرکٹر بلے باز ہے تو وہ بائولر کی گیندوں پر ایسا انداز اختیار کرتا ہے کہ بائولر فرسٹریشن کا شکار ہوکر اپنی لائن اینڈ لینتھ بھول جاتا ہے اور چوکوں، چھکوں کے لائق گیندیں کراتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان جب کرکٹر ہوا کرتے تھے تو سمجھ دار بائولر، سمجھ دار بلے باز اور سمجھ دار کپتان ہوا کرتے تھے۔ ان سے محبت رکھنے والوں کو امید تھی کہ وہ سیاست کے میدان میں اتر کر ایک سمجھ دار سیاست دان ثابت ہوں گے، مخالف کھلاڑیوں کو رلائیں گے، انھیں حواس باختہ کریں گے اور پھر ان کا شکار کریں گے۔
تاہم معاملہ الٹ ہوا۔ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں فی الحال کچھ کہا نہیںجاسکتا البتہ ان کے کھلاڑیوں کے حرکات و سکنات سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ خاصے فرسٹریشن کا شکار ہیں، حواس باختہ ہیں۔ ایسے محسوس ہورہاہے کہ انھیں جلد اپنی اننگ ختم ہونے کا ادراک ہوچکا ہے۔ کیسے؟ آئیے ! بتاتے ہیں آپ کو۔
بعض تجزیہ کاروں ، سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ گیارہ جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) نے دو برس تک حکومت کی صلاحیت و اہلیت کا مکمل تجزیہ کرنے کے بعد اب بلے بازوں کے مقابلے میں ایسے بائولرز سے اوور کرانا شروع کردیے ہیں کہ بلے باز اوور شروع ہونے سے پہلے ہی بدحواس ہوچکے تھے، انھیںایسا لگ رہاہے کہ جیسے کسی بھی گیند پر ان کی وکٹ اڑ سکتی ہے۔
اب تک دو گیندیں ہوچکی ہیں اور دونوں کا اچھے انداز میں مقابلہ کرنے کے بجائے بلے بازوں نے بدحواسی ہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بالخصوص میاں نواز شریف کی ایک تقریر گوجرانوالہ سٹیڈیم کے اندر ہی نشر ہورہی تھی، کے مقابل ایسا ردعمل ظاہر کیا گیا ہے کہ سارے پاکستان نے وہ تقریر سن لی، جس نے نوازشریف کی تقریر نہیں سننی تھی، وہ بھی گوگل پر سرچ کرکے نوازشریف کی طویل تقریر کا ایک ایک حرف سن رہا ہے۔
ان جلسوں میں شریک لوگ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور پی ڈی ایم کے قائدین ہی کے کارکنان ہیں، عام پاکستانی فی الحال اپنے گھروںمیں بیٹھ کر ان جلسوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ عام پاکستانی اپوزیشن کے جلسوں میں ضرور شرکت کرے گا، فی الحال وہ ان جلسوں میں شرکت کے لئے اپنا موڈ بنا رہا ہے۔ اپوزیشن کے جلسے حکومت اور اس کے حامیوں کی نظر میں ناکام ہیں، حقیقت تو یہی ہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں اپوزیشن کے جلسے ہمیشہ حکمرانوں کی نظر میں ناکام ہی ہوتے ہیں۔
ویسے اب یہ بات مزید لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ اگر عمران خان حکومت چاہتی ہے کہ عام پاکستانی اپوزیشن کے جلسوں میں شرکت نہ کرے تو اسے گھروں میں بیٹھے رہنے پر قائل کرنا ہوگا۔ اس کی واحد صورت یہ تھی کہ عام پاکستانیوں کو ریلیف دیا جائے، مافیاز سے چھین کر عام پاکستانیوں کی جیبیں بھری جائیں لیکن دو برسوں کے دوران میں سب کچھ الٹ ہوا۔ عام پاکستانیوں سے چھین کر مافیاز کی تجوریاں بھری گئیں۔ اس لئے اب یہ سب لکھنے کو کوئی فائدہ نہیں۔
بلے باز حکومت ایسا کوئی بھی ریلیف عام پاکستانیوں کو دینے کے قابل ہی نہیں ہے ۔ عام پاکستانی بھی اس صورت حال کو بخوبی سمجھ ہوچکا اور اس قدر مایوس ہے کہ وہ اپوزیشن کا بندہ ہو یا نہ ہو لیکن لگتا ہے کہ اب وہ گھر میں نہیں بیٹھے گا بلکہ وہ اپنی زندگی بچانے کے لئے کچھ بھی کرے گا، اپوزیشن کو قوت فراہم کرے گا۔
بلے بازوں کے خلاف بائولر ایک ایک گیند پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پھینک رہے ہیں۔ ان کی حکمت عملی بہت سادہ ہے کہ بلے باز فرسٹریشن کا شکار ہوکر اپنی وکٹ دیدے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کم ازکم رنز بھی نہ بناسکے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ آسان ترین اوورز میں بھی بلے باز رنز نہیں بنا رہا تھا ، اب آدھے اوورز ختم ہونے والے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ اس طرح کی اننگ زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گی۔ بلے باز اب تک رنز نہیں بنا سکا تو آنے والے اوورز میں بھی کچھ نہیں کرسکے گا، یوں اس پر دبائو بڑھتا چلا جائے گا۔
اپوزیشن کا منصوبہ یہی ہے کہ اگر بلے باز حکومت نے جلد اپنی وکٹ نہ دی تو پھر ” چلو ، چلو اسلام آباد چلو “ کا نعرہ گونجے گا، اس کے بعد کسی بھی صورت میں حکومت کا قائم رہنا ممکن ہی نہ ہوگا۔ جیسا کہ سابقہ سطور میں بتایا جاچکا ہے کہ حکومت کو اس کا ادراک ہوچکا ہے۔ اس کی عکاسی وزیراعظم اور وزرا کے بیانات سے بخوبی ہورہی ہے۔
مثلاً وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت رہے یا نہ رہے لیکن این آر او نہیں دوں گا۔ اس کا مطلب ہے کہ انھیں کہیں نہ کہیں سے حکومت کے لئے خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ شیخ رشید کا کہناہے کہ عمران خان حکومت چھوڑ دیں گے، اسمبلی توڑ دیں گے لیکن این آر او نہیں دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو اندر سے بھی خطرہ ہے، جس کے نتیجے میں عمران خان اسمبلی توڑنے کا آپشن اختیار کریں گے۔
اپوزیشن کے جلسوں کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے کھیل سے نظام جاسکتاہے۔ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ شاہ محمود جیسے جہاندیدہ سیاست دان کو اپوزیشن تحریک سے خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ ںظام جاتاہے یا نہیں لیکن حکومت ضرور جاتی ہوئی معلوم ہورہی ہے۔ ایسے ہی کچھ دیگر وزرا کے بیانات بھی حکومت کی بے بسی اور پریشانی ظاہر کررہےہیں۔ میڈیا پر یہ بیانات بہت آسانی سے روز سنے ، پڑھے جاسکتے ہیں۔
دوسری طرف حکومت کی کمزور حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ایک ایک کرکے اتحادی ان سے الگ ہورہے ہیں، چودھری برادران پہلے ہی سے الگ نظر آرہے ہیں۔ اگلے روز پی ڈی ایم کے جلسہ کراچی میں سردار اختر مینگل بھی شریک تھے۔ وہ ایک عرصہ سے حکومت سے نکلنا چاہ رہے تھے لیکن حکومت والے ان کا بازو پکڑ کر انھیں اپنے ساتھ بٹھا لیتے تھے ۔ تاہم اب وہ اپوزیشن کے سٹیج پر پہنچ چکے ہیں۔ یوں پارلیمان میں حکومتی اکثریت تمام ہوئی۔
پاکستان تحریک انصاف کے اندرون کا حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی میجر طاہر صادق کا کہناہے کہ عمران خان کی ٹیم نااہل لوگوں پر مشتمل ہے، قیام پاکستان سے لے کر آج تک اتنی کرپشن نہیں ہوئی جتنی موجودہ دورمیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بلدیاتی نظام لولا لنگڑا بنا دیا ہے، 10 ارب کی بجائے صرف سوا 3 کروڑ درخت لگائے گئے، 10 ارب درختوں کیلئے اِن کے پاس نرسریاں ہی نہیں ہیں۔
میجر ریٹائرڈ طاہرصادق نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کنٹرول سے باہر ہو گئی، غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، نااہل انتظامیہ مسلط ہے۔ موجودہ حکومت کی دو سالہ پالیسی مایوس کن ہے، انتظامیہ کی کارکردگی صرف فوٹو سیشن اوروٹس ایپ گروپ تک محدود ہےِ۔
وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری بھی روزانہ حکومت کو اس کی غلطیاں بتا رہے ہیں۔ وہ حکومت کے اندر موجود اپنے مخالفین کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں حکومتی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں بعض شرکا وزیراعظم عمران خان پر برس پڑے۔
رکن قومی اسمبلی ثنا اللہ مستی خیل نے حکومتی کارکردگی ، وزرا اور مشیروں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہماری حکومت کے وزیر اور مشیر نکمے ہیں اور ایک ٹکے کے نہیں، یہ عوام سے گندے انڈے کھانے کیلئے تیار ہوجائیں۔
انہوں نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کی ٹیم کارکردگی نہیں دکھا رہی اور مکمل ناکام ہوچکی ہے ، مہنگائی، بجلی، گیس کے بلوں میں اضافے پر تشویش ہے ،عوام بل نہیں دے پا رہے ، حکومت اور عوام کیلئے حالات بہتر ہوتے نظر نہیں آرہے ، ملک میں خوراک کا بحران پیدا ہوتا نظر آرہا ہے،
آئی این پی کے مطابق مستی خیل نے وزیر اعظم سے کہا آپ کے وزیر نکمے ہیں اگر آپ کی جگہ میں ہوتا تو میں ان کو بیس بیس مرتبہ گولی مارتا، جب تک آپ ٹیم ٹھیک نہیں کریں گے حالات بہتر نہیں ہو سکتے
کئی دیگر ممبران نے بھی ثنا اللہ مستی خیل کے خیالات سے اتفاق کیا، بعض اراکین کا یہ کہنا تھا کہ وہ مہنگائی کی وجہ سے اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے لوگ ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور نئے پاکستان کا طعنہ دیتے ہیں ۔
ایم این اے نورعالم نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کی ٹیم ناقص ہے، مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اس کو کنٹرول کرنا مشکل کام ہے ، بجلی کے بلوں کا بوجھ بہت زیاد ہے۔
بجلی ،گیس کے بل ہم سے دئیے نہیں جاتے، آٹا چینی مہنگی ہو گئی ہے، سبزی دال بھی نہیں کھا سکتے ، ہماری اصل اپوزیشن مہنگائی ہے ، بجلی اور گیس کے بل عوام سے نہیں دئیے جا رہے اس میں کمی کریں، انہوں نے شکوہ کیا حکومت میں ارکان پارلیمنٹ کو عزت نہیں دی جاتی ،پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ والے کرپٹ ضرور تھے لیکن وہ ارکان اسمبلی کو عزت دیا کرتے تھے۔
پیارے پڑھنے والو ! اب آپ ہی بتائیے کہ ان حالات میں حکومت سنبھل پائے گی؟ یقیناً بہت مشکل ۔ شاید ناممکن ۔ اپوزیشن رہنمائوں کے لہجوں کا تیقن بتا رہاہے کہ کچھ نہ کچھ ہوکر رہے گا، بالخصوص سابق وزیراعظم نوازشریف جس طرح جارحانہ خطاب کیا، وہ حیران کن تھا۔ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں :
” شیر( نوازشریف ) اور چیتے (عمران خان ) کی لڑائی میں بظاہر چیتے کا لشکر بھاری ہے، فی الحال اسے ہاتھیوں، گھوڑوں اور پیادوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف شیر کا انحصار پیادوں یا پھر ایسی شہ پر ہے جس کا مرکز ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ جو لوگ بوڑھے شیر کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آخری لڑائی میں آخری وار تب ہی کرتا ہے جب اُس نے پورا حساب کتاب لگا لیا ہوتا ہے۔ وہ چیتے کی طرح غصے میں ردِعمل نہیں دیتا بلکہ اپنے غصے کا اظہار صرف اُس وقت کرتا ہے جب اُس کی ٹائمنگ ٹھیک ہو۔
شطرنج کے سارے مبصرین دم سادھے بیٹھے ہیں کہ بوڑھے شیر کے پاس وہ خفیہ کارڈ کونسا ہے جس کی بنیاد پر وہ برسرپیکار ہے۔ وہ اِس وقت نہیں لڑا جب اقتدار سے نکالا گیا، تب بھی نہیں لڑا جب نااہل ہوا، اُس وقت بھی نہیں لڑا جب قید ہوا۔ اب آخر اُس کو کس کی شہ ملی ہے یا کونسا کارڈ ہاتھ آیا ہے کہ وہ پھر سے شیر ہو گیا ہے؟ “