داتا دربار، مزار حضرت علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش

ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط ششم )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

” داتا گنج بخش “ کے مزار کے احاطے میں اور آس پاس رات کی تاریکی اور دن کے اجالے میں کون سے کھیل کھیلے جاتے ہیں؟ حیران کن انکشافات

انور جاوید ڈوگر :

ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط اول )

ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط دوم )

ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط سوم )

ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط چہارم )

ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط پنجم )

ایسے پیروں کی ایک بڑی تعداد داتا دربار کی مسجد کے حجروں میں بھی موجود ہیں۔ ہر پیر یا درویش نے اپنے مریدوں کو اپنے اردگرد بٹھا رکھا ہے، لاہور کے بازار گناہ کا معروف کردار پیر کاکی تاڑ سیدھے میرے پاس آتے ہیں۔ ان کے لئے جگہ بنائی۔ وہ براجمان ہوتے ہی مجھے کہنے لگا کہ آپ وارثی سلسلہ کے فقیر ہیں۔

انہوں نے یہ اندازہ میرے لباس سے لگایا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ نے درست پہچانا۔ میں وارثی سلسلہ سے تعلق رکھتا ہوں ۔ پیر کاکی تاڑ نے کہا کہ آپ کے سلسلے کے روحانی پیشوا سیدنا حاجی حافظ وارث علی شاہ صاحب آف دیوہ شریف ایسے درویش تھے جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

پیر کاکی تاڑ نے مجھ سے دوسرا سوال کیا کہ اس وقت لاہور میں بھی کوئی اصل وارثی ہے۔ میں نے بے ساختہ کہا کہ اصل سے آپ کی کیا مراد ہے؟ پیر کاکی تاڑ گویا ہوئے: میرا مطلب یہ ہے کہ اصل وارثی دنیا چھوڑ کر دین کی خدمت کرتا ہے، پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے ، پیلے رنگ کا لباس زیب تن رکھتا ہے ، 24 گھنٹے باوضو رہتا ہے، کسی سے نذر نیاز نہیں لیتا اور دین الٰہی کی مکمل پیروی کرتا ہے۔

میں بعض وارثی درویشوں کو نام سے جانتا تھا لیکن ان کے اتے پتے مجھے یاد نہیں تھے۔ میں نے آئیں بائیں شائیں کی تو کاکی تاڑ نے کہا :
سائیں ! وارثی سلسلہ کے ایک بزرگ مجھے کراچی میں ملے تھے۔ وہ واقعی درویش تھے۔ جب آپ کو لاہور میں کوئی ایسا کامل شخص ملے تو مجھے ضرور آگاہ کرنا۔

پیر کاکی تاڑ سے میری کئی ملاقاتیں ہو چکی تھیں لیکن پیر کے لباس میں وہ مجھے نہیں پہچان سکے۔ انہوں نے مجھے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا تو میں نے کہا کہ میں نے اخبارات میں آپ کے کالم پڑھے ہیں، آپ لڑکیوں سے دھمال ڈلوا کر مختلف بیماریوں کا جو علاج دریافت کرتے ہیں وہ کیا فلسفہ ہے؟

پیر کاکی تاڑ نے کہا : سائیں ! میں نے کوئی نیا فلسفہ پیش نہیں کیا ، یہ تو لوگوں نے مجھے خواہ مخواہ بدنام کر رکھا ہے۔ کنجری کے کوٹھے پر بیٹھ کر دھمال کے ذریعے بیماریوں کا علاج کرنے کی بات میں نے خانقاہی نظام کے پیش نظر کی تھی۔ اپنی بات کہنے سے قبل میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے ہیرامنڈی کو اپنا مرکز کیوں بنایا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا درویش اور کنجری کا دورازہ کسی پر بند نہیں ہوتا۔

اب کچھ لوگوں نے اپنی اجارہ داری کی خاطر درویشوں کے مزارات اور خدا کے گھروں تک کو تالے لگا رکھے ہیں لیکن کنجریوں کے دروازے آج بھی کھلے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں ایسے علاقے میں بیٹھا ہوا ہوں جہاں کے دروازے کسی کے لئے بھی بند نہیں ہوتے۔

میں نے کہا کہ کنجری کے دروازے بھی تو مال دار لوگوں کے لئے کھلے ہوتے ہیں، عام آدمی تو انہیں ایک وقت کا کھانا نہیں کھلا سکتا۔ اس لئے عام آدمیوں کے لئے کنجریوں کے دروازے بند ہی ہوتے ہیں۔ پیر کاکی تاڑ نے کہا کہ آپ وارثی سلسلہ کے اس پیلے رنگ کے لباس میں خالی ہاتھ آج ہیرا منڈی آجائے گا۔

سب کنجریاں بزرگ سمجھ کر آپ کا احترام کریں گی اور جہاں تک ممکن ہو سکے گا آپ کی خدمت کریں گی۔ آپ کی موجودگی میں گاہکوں تک کو لفٹ نہیں کرائیں گی لیکن مختلف درباروں میں آپ کو مخصوص لوگوں کی چودھراہٹ نظر آئے گی اور آپ جیسے لوگوں کو کونوں کھدروں میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔

پیر کاکی تاڑ کے پاس اس دوران کچھ مرید اور مریدنیاں آئیں ، وہ سب کو ایک ہی ہدایت کرتے تھے کہ داتا دربار کے پہلو میں بیٹھ کر دربار کی جالی پکڑ کر سلام پیش کرنے کے بعد آنکھیں بند کر کے دعا مانگیں ، آپ کی دعا ضرور پوری ہو گی۔ اگر دعا پوری نہ ہو تو مجھے آکر پکڑ لیں. عقیدت مند مرد و خواتین کو یہ ہدایات جاری کرتے تھے کہ جاتے جاتے مجھے مل کر جائیں۔

ایک مرید جب واپس آیا تو پیر کاکی تاڑ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارا کام ہو گیا ہے؟ عقیدت مند نے کہا کہ اللہ بہتر کرے گا۔ پیر کاکی تاڑ نے گالیاں بکنا شروع کر دیں اور کہا کہ او الو کے پٹھے ! مجھے بے وقوف بناتے ہو، میرے دل کے اندر دیکھنے والی آنکھیں ہیں ، تمہارا کام نہیں ہوا ، جاﺅ ! جس طرح میں نے بتایا ہے، جالی پکڑ کر خشوع و خضوع کے ساتھ فوراً دعا کرو۔

یہ مرید دربار دعا کے لئے چلا گیا۔ پیر کاکی تاڑ نے پھر مجھے دھمال کے ذریعے مختلف بیماریوں کے علاج کے فلسفہ کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ پیر کاکی تاڑ کہہ رہے ہیں کہ

ہر انسان کے دل کی دھڑکن سے اللہ کی آواز آتی ہے ، یہ بات آج سائنس نے ثابت کر دی ہے۔ اب آپ دیکھئے دنیا کے اندر موسیقی کے ذریعے مختلف مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک موسیقی روح کی غذا ہے۔ ڈھول کی تھاپ اور اب رقص کرتے ہیں تو ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

میں یہ کہتا ہوں کہ جب انسان وجد کی کیفیت میں دنیا سے بے نیاز ہوتا ہے تو اس کی روح کے اندر موجود تمام کثافتیں جاتی ہیں ، جب روح ٹھیک ہو گی تو جسم بیمار ہو ہی نہیں سکتا۔ اسے کئی لوگوں نے ناچ کر اپنی روحانی پاکیزدگی کو تسلیم کروایا۔

دنیا بھر میں اب اس بات پر ریسرچ ہو رہی ہے کہ موسیقی سے علاج کس طرح ممکن ہے، ہم یہاں بات کرتے ہیں تو مولوی صاحب کو اندازہ ہوتا ہے ۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ مجھے داتا دربار کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا اور کہتے ہیں کہ اس کے پاس کنجریاں آتی ہیں۔ اب اگر ان لوگوں نے مجھ سے مسجد یا کے دروازے بند کیے ہیں تو آپ دیکھ نہیں رہے کہ آپ کے لئے داتا دربار کے صحن میں پارک بن گئے ہیں اور آپ برآمدوں میں بیٹھ کر کاکیاں اور کاکے گپ شپ کرتے ہیں۔

فحاشی کےلئے داتا دربار کی مسجد کے صحن تک محدود تھی ، وہ اب باہر کے پارکوں میں آچکی ہے۔ میرے نزدیک یہ فحاشی ، انہی لوگوں کے نزدیک یہ فحاشی ہے وہ اسے کیوں نہیں روکتے. اب تو سرکار داتا دربار کی جگہ ایک پارک کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ اب میں ایک جوڑے کی تاڑ میں آیا ہوں ۔ جونہی مجھے وہ نظر آیا میں آپ کو چھوڑ کر چلا جاﺅں گا۔ یہ بات مکمل کرتے ہی پیر اٹھ کر دوسری جانب چلے گئے اور جاتے ہوئے مجھے یہ بتا کر حیران کردیا کہ بندے اور بندی کو تاڑ رہا تھا ، وہ آگئے ہیں اب مجھے نہیں سنتے۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں