مزمل سہروردی :
اپوزیشن کے ابتدائی جلسوں سے ملک کا درجہ حرارت اس قدر چڑھ گیا ہے، جس کی توقع نہیں تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ تو شہر کے لوگ بھی ظالم تھے لیکن کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق تھا۔ اپوزیشن کے جلسے تو شاید اتنے گرم نہیں تھے لیکن حکومت کے بیانات اور جواب الجواب نے انھیں گرم بنا دیا۔
جن باتوں کو نظر انداز ہو جانا چاہیے تھا۔ انھیں بھی اہم بنا دیا گیا۔ جن کا دوبارہ ذکر بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان کی گردان کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن تو اپوزیشن حکومت بھی حکومت کی طرح کردار نہیں ادا کر رہی ۔ اپوزیشن کا تو کام ہے حالات کو خراب کرنا ماحول کو گرم کرنا لیکن حکومت کا کام ماحول کو ٹھنڈا رکھنا ہے لیکن اس دفعہ تو حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اپوزیشن کا کردار نبھا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی حکومت ہے ہی نہیں دونوں طرف اپوزیشن میں ہی میچ ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تقاریر میں ریڈ لائن کراس کی جا رہی ہیں۔ لیکن اگر ایک طرف سے ریڈ لائن کراس کی جا رہی ہے تو دوسری طرف جواب الجواب میں بھی ریڈ لائن کراس کی جا رہی ہے لیکن جو بھی ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہو رہا۔ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان لڑائی جمہوریت کا حسن ہے۔ اپوزیشن کا عوام کے لیے سڑکوں پر آنا جمہوریت کا حسن ہے۔
حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ملک میں ایسا ماحول بنائے کہ لوگ اپوزیشن کے ساتھ سڑکوں پر نہ آئیں۔ حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ محاذ آرائی شدت نہ اختیار کرے۔ لڑائی ایک حد سے نہ بڑھے نظام حکومت چلتا رہے۔ لوگ حکومت اور اپوزیشن کی اس لڑائی میں حکومت کے ساتھ رہیں اور حالات اس نہج پر نہ پہنچیں کہ عوام اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
جمہوریت چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہے۔ اس میں اپوزیشن ایک بنیادی جزو ہے۔ اگر فعال اپوزیشن نہیں ہو گی تو چیک اینڈ بیلنس کا نظام فعال نہیں ہوگا۔ حکومت کو لوگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی خوف نہیں ہوگا۔ اچھی بھلی جمہوری حکومت بھی عوام دشمن بن جائے گی۔
آپ دیکھیں دو سال سے موجودہ حکومت اپوزیشن کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی۔ مہنگائی کا طوفان لاتے ہوئے حکومت کو کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ اپوزیشن نہیں تھی۔ بے خوف بجلی، گیس مہنگی کی گئی کیونکہ اپوزیشن پابند سلاسل تھی۔ پٹرول مرضی سے مہنگا کیا گیا۔
جب عالمی منڈی میں تیل سستا تھا تب بھی مہنگا کیا گیا کیونکہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا۔ ظلم کی انتہا یہ کہ ادویات چار چار سو فیصد مہنگی کی گئیں۔ صرف اس لیے کہ اپوزیشن خاموش تھی۔ کوئی احتجاج کرنے والا ہی نہیں تھا۔ لیکن دوسری طرف آج دیکھیں جب اپوزیشن میدان میں آئی ہے تو حکومت کو مہنگائی پر جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔
آٹا کے ریٹ نے حکومت کو بیک فٹ پر کر دیا ہے۔ اگر آج بھی اپوزیشن میدان میں نہ ہوتی تو مہنگائی پر حکومت دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور نہ ہوتی۔ بلکہ ڈھٹائی سے یہی کہا جاتا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ عجیب عجیب منطق پیش کی جاتیں جیسے گزشتہ دو سال سے پیش کی جا رہی تھیں۔
حکومت نے دو سال ایک ہی بیانیہ پیش کیا ہے کہ مسائل کی اصل وجہ گزشتہ حکومتوں کی کرپشن ہے۔ روپے کی قدر میں کمی گزشتہ حکومتوں کی کرپشن ہے۔ بجلی گیس مہنگی گزشتہ حکومت کی کرپشن ہے۔ لیکن اب یہ بیانیہ اتنا مضحکہ خیز ہو چکا ہے کہ لوگ اس کا مذاق اڑانے لگ گئے ہیں۔
حال ہی میں جب انڈے مہنگے ہوئے ہیں تو لوگوں نے مذاق بنایا ہے کہ انڈے اس لیے مہنگے ہوئے ہیں کیونکہ گزشتہ چور حکومت، مرغیوں کے ساتھ انڈے دینے کے مہنگے معاہدے کر گئی تھی۔اسی طرح دودھ مہنگے ہونے پر کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ حکومت، بھینسوں کے ساتھ مہنگے معاہدہ کر گئی تھی اس لیے بھینسیں مہنگا دودھ دے رہی ہیں۔
لوگ آٹا مہنگے ہونے پر بھی ایسے ایسے مذاق بنا رہے جس سے یہ بات صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ حکومت کو اب یہ احساس کرنا ہوگا کہ تمام مسائل کا ذمے دار گزشتہ حکومتوں کو ٹھہرانے سے اب معاملہ نہیں چلے گا۔ لوگ اب حکومت کے اس بیانیہ کو مزید قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب حکومت کے لیے مزید مہنگائی کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اب بجلی گیس پٹرول اور تمام اشیائے صرف کی قیمتوں کو بڑھانا مشکل ہو جائے گا۔ اپوزیشن میدان میں ہو تو کسی بھی حکومت کے لیے عوام پر ظلم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ فعال اپوزیشن حکومت کو عوام کی خدمت اور ان کی فلاح کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس لیے حکومت کو اب اپنی کارکردگی پر توجہ دینی چاہیے۔ پہلے دو سال مخالفانہ بیانات میں ضایع کر دیے گئے ہیں اور کوئی کام نہیں کیا گیا۔
اگر اپوزیشن ریڈ لائن کراس کر رہی ہے تو کیااس کے جواب میں ریڈ لائن کراس کرنا درست ہے۔ میں نہیں سمجھتا۔ ایک غلطی کے جواب میں دوسری غلطی کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔ اگر اپوزیشن کی جانب سے اداروں پر تنقید درست نہیں تو حکومت کی جانب سے اپنے سیاسی دفاع میں اداروں کو استعمال کرنا بھی درست نہیں ہے۔ غیرجانبداری کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ حکومت بھی سیاسی لڑائی میں ان کا استعمال نہ کرے۔ پہلے ہی عمران خان کی حکومت کی نالائقیوں کی قیمت اداروں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں۔ لوگ حکومت سے ناراض ہوں تو حکومت تبدیل کی جا سکتی ہے۔ لیکن عوام اور اداروں کے درمیان فاصلے ملک کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں موجودہ صورتحال کی ذمے داری عمران خان اور ان کی حکومت کو اٹھانا ہوگی۔ منظر نامہ کو بدل کر دیکھیں اگر آج عمران خان کی حکومت کی کارکردگی اچھی ہوتی، تمام وعدے نہیں نصف وعدے ہی پورے ہوئے ہوتے۔