” داتا گنج بخش “ کے مزار کے احاطے میں اور آس پاس رات کی تاریکی اور دن کے اجالے میں کون سے کھیل کھیلے جاتے ہیں؟ حیران کن انکشافات
انور جاوید ڈوگر :
ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط اول )
ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط دوم )
ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط سوم )
ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط چہارم )
یہ خاتون تو میری جان چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ یہاں پر تو میں خود حاضری دے رہا ہوں، وہ اگر یہ چاہتی ہے کہ اس کا کام ہو جائے تو پھر وہ میرے پاس ہوٹل کے کمرے میں آئے۔ یہاں پر میں آرام کرنے کی غرض سے مختلف اوقات میں جایا کرتا تھا۔ یہ خاتون طے شدہ وقت کے مطابق میرے پاس ہوٹل میں پہنچ گئی۔ اس دوران منیر بھٹی مجھے اس خاتون کے بارے میں تمام معلومات فراہم کر چکا تھا۔
اصل بات یہ تھی کہ سعدیہ کی بھابی اپنے کسی ہمسائے کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور وہ داتا دربار پر دعا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے درویش کی تلاش میں آئی تھی جو اپنے عمل یا تعویذ کے ذریعے واپس لا سکے۔ جب سعدیہ میرے پاس ہوٹل میں آئی تو میں نے اسے اصل حقیقت بتا دی کہ تمہاری بھابی تو اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی ہے۔
میرے اس انکشاف پر سعدیہ نے میرے پاؤں پکڑ لئے مگر میں نے خالصتاً پیروں کے سے انداز میں اسے جھٹک دیا اور دو چار گالیاں بھی سنا ڈالیں۔ میں نے سعدیہ کو تسلی دی کہ اس کی بھابی جلد واپس مل جائے گی۔ اور یہ بھی ہدایت کی کہ وہ اور اس کے گھر والے باقاعدگی سے نماز اد اکریں اور ذکر الٰہی میں مشغول رہیں۔ اس کی سمجھ میں میری یہ بات نہیں آرہی تھی۔
جب میں نے اصرار کیا تو وہ چیخ اٹھی کہ بابا جی ! اگر نمازیں ہم نے ہی پڑھنی ہیں تو آپ جیسے لوگ کس بیماری کا علاج ہیں۔ مجھے سعدیہ کی اس سوچ سے گہرا صدمہ ہوا اور میں سوچنے لگا کہ یہ جعلی پیر لوگ کس قدر سفاک اور ظالم ہیں کہ لوگوں کی نمازیں تک اپنے ذمے لے لیتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ خود بھی نماز ادا نہیں کرتے۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ داتا دربار پر آنے والے 95 فیصد زائرین 100 فیصد ملنگ درویش یا پیر نماز ادا نہیں کرتے تھے البتہ داتا دربار کے اردگرد کبھی کبھار سجدہ ریز نظر آتے تھے۔ ان ملنگوں نے دین اور حضرت علی ہجویری کی تعلیمات کا حلیہ اس قدر بگاڑ کے رکھ دیا ہے کہ عام لوگوں کو کبھی نماز یا ذکر الٰہی کی تلقین نہیں کرتے۔
تلقین بھی کیسے کر سکتے ہیں جب وہ خود نماز ادا نہیں کرتے تو انہیں دوسروں کو ایسا کہنے کی کیا ضرورت ہو گی؟ پھر یہ بھی ہے کہ اگر وہ کسی نماز کی تلقین کریں گے اور وہ شخص واقعی نماز ادا کرے گا اور اپنے رب سے مانگے گا تو پھر یقینا وہ ملنگوں کے پاس نہیں آئے گا۔
ملنگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس قسم کی تلقین سے خود ان کا کاروبار ٹھپ ہو سکتا ہے اس لئے وہ کسی کو بھی نیکی کی تلقین نہیں کرتے بلکہ برائی کی ترغیب دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔
سعدیہ میرے پاس سے چلی گئی تو اس نے نہ جانے کہاں سے منیر بھٹی کو تلاش کر لیا۔ میں جب دوبارہ دربار میں آیا تو وہ منیر بھٹی کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔ منیر بھٹی نے بعد میں بتایا کہ بھابی کی تلاش میں دعا کے لئے داتا دربار آنے والی کی اپنی حالت یہ ہے کہ شاہ جی! آپ جب چاہیں اسے بے وقوف بنا سکتے ہیں اور میں جب چاہوں اسے بلا کر جہاں چاہوں لے جا سکتا ہوں۔
جمعرات کا دن ولیوں اور ہستیوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جمعرات کو داتا دربار کے اندر اور باہر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ میرا تعلق تو سائیں نذر کے ساتھ مستقل طور پر قائم ہو چکا تھا۔ وہاں پر میرے بیٹھے کا کام تو سائیں نذر کر دیا تھا وہ یہ کہ اب میں کبھی ادھر ادھر ہوتا تو وہ ضرورت مند مرد و خواتین گھیر لیتا اور گاہے بگاہے مجھ سے ان کا کام کر دینے کی سفارش کرتا۔ سائیں نذر چونکہ حالات کے پیش نظر ایک پیشہ ور سائیں بن چکا تھا اس لئے وہ میری عدم موجودگی اور موجودگی میں بھی لوگوں سے نذرانے وصول کرنے میں ذرا تامل سے کام نہیں لیا کرتا تھا۔
تیسرے روز جب میں عشا کی نماز ادا کر کے آیا تو ایک جوڑا میرے اڈے کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ایک خاتون اور مرد یہ دونوں سادگی کا مجسمہ تھے۔ سائیں نذر نے بتایا کہ یہ میاں بیوی جڑانوالہ کے ایک گاؤں سے آئے ہیں ان کے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔ انہیں ان کے پیر نے بتایا ہے کہ نو دن اور نو راتیں داتا دربار جا کر گزاریں گے تو ان کی امید پوری ہو سکتی ہے۔
میں نے ٹالنے کے انداز میں کہا کہ ٹھیک ہے اگر ان کے پیر نے یہ مشورہ دیا ہے تو یقینا اللہ کرم کرے گا۔ اللہ جو چاہے ہو سکتا ہے۔ اس وقت داتا دربار کے باہر کیسٹوں کی ایک دکان پر فحش گانا بلکہ دوسری دکان پر ایک قوالی لگی ہوئی تھی۔ گانے کے بول یہاں دئیے نہیں جا سکتے۔ قوالی کا آغاز کچھ یوں ہوتا تھا۔ داتا دے دربار چڑیا بول پیاں۔
دیہات سے آنے والے دونوں میاں بیوی اس قوالی پر جھوم رہے تھے اور میں ان سے بے نیاز ہو کر کھلے میدان میں گپ شپ لگانے والے جوڑوں کو تاڑنے لگا جنہیں میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔ انہیں دیکھ کر میں نے یہ محسوس کیا کہ داتا دربار اب توسیع کے بعد محض ایک عبادت گاہ نہیں رہی بلکہ سیر گاہ بن چکی ہے۔ میں نے کئی نوعمر نوجوان اور عمر رسیدہ جوڑوں کو داتا دربار کے پارکوں میں بیٹھ کر محبت بھری باتیں کرتے اور عہد و پیما نبھانے کی قسمیں کھاتے دیکھا اور سنا۔
اس وقت مجھے انتظامیہ کی کارکردگی پر بہت غصہ بھی آتا جس نے جگہ جگہ پر لکھا ہوا تھا کہ پارک کے اندر بیٹھنا منع ہے۔ پارک کے اندر بیٹھنا تو کیا منع ہوتا یہاں پر تو فحش اور اخلاق سے گری ہوئی حرکات کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ دو چار گھنٹے بعد ایک دو پولیس اہلکار اور داتا دربار دربار کی سکیورٹی والے آتے۔ ایک دو افراد پر بڑی شفقت کے ساتھ ڈنڈے چلاتے اور واپس چلے جاتے۔
جونہی یہ اہلکار واپس ہوتے گپ شپ میں مصروف جوڑے پھر اپنی اپنی جگہ پر براجمان نظر آتے۔ میں ان جوڑوں کی غیر اخلاقی حرکات میں گم تھا کہ یکدم کیا دیکھتا ہوں کہ اولاد کی خواہش لے کر آنے والے جوڑے کے مرد اللہ دتہ نے میرے پاؤں دبانا شروع کر دئیے اور خاتون میرے سر میں مالش کرنے لگی۔ میں یہ صورتحال دیکھ کر قدرے پریشان ہوا لیکن سائیں نذر نے انکھ کے اشارے سے مجھے بتا دیا کہ وہ اس کے کہنے پر خدمت کر رہے ہیں۔
دونوں میاں بیوی کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ اولاد نہ ہونے کا دکھ ان کے چہرے سے عیاں تھا۔ وہ ہر آنے جانے والے ملنگ سے یہ درخواست کر رہے تھے کہ ہمارے لئے اولاد کی دعا کریں۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں اس لئے نہیں سویا کہ اس رات کو بہت زیادہ لوگ آتے ہیں ۔ رات گئے مجھے دیہات سے آنے والی خاتون نے بتایا کہ میں اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہوں ، پہلی بیوی سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیدا ہوئے تھے۔ بیٹا اللہ کو پیارا ہو گیا جب کہ بیٹی اس وقت جوان ہے۔
کئی سال تک پہلی بیوی میں سے اولاد نہیں ہوئی تو تین سال قبل میرے شوہر نے میرے والدین کو رقم دے کر میرے ساتھ شادی کر لی۔ تین سال ہوئے ہیں اب تک اولاد نہیں ہوئی۔ میں نے بانجھ عورت کا ارادہ تو نہیں کیا تھا۔ میں اس عورت کی باتیں سن کر بے حد حیران ہوتا ہوں اور پکی بات یہ ہے کہ میں نے اس روز رات کو دو اور تین بجے کے درمیان داتا دربار پر گڑگڑا کر خدا کے حضور دعا کی کہ اے میرے پرودگار اس خاتون کا گھر اولاد کی نعمت سے بھر دے یا تو ہر کام کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ اس موقع پر میں نے روتے ہوئے یہ دعا بھی کی کہ اے میرے پالنے والے اایسے حالات اور ……
اسی لمحے جب میں دعا کر کے دربار سے واپس لوٹ رہا تھا تو سفید لباس میں ملبوس مجھے ایک بزرگ نظر آئے۔ یہ بزرگ ہاتھ میں تسبیح پکڑے بلند آواز میں خواتین و حضرات سے کہہ رہے تھے:
بھائیو اور بہنو روزانہ 70 مرتبہ درود شریف پڑھیں 70 مرتبہ الحمد شریف پڑھیں، باجماعت نماز ادا کریں اور روزانہ مسواک کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی نعمتوں سے مالا مال کر دے گا۔ لہٰذا فجر تک اس بزرگ شخصیت کا یہ عمل جاری رہا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس بزرگ نے مجھے بے حد متاثر کیا میں نے ان سے نام دریافت کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ نماز فجر اور نماز عصر کے وقت داتا دربار کی مسجد میں مجھ سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ ( جاری ہے )