فیض اللہ خان :
حب ریور روڈ پہ کئی ایکڑوں پہ پھیلے جامعہ فاروقیہ میں مختلف شعبے دیکھ چکے ، واپسی کی تیاریاں تھیں تو مولانا ڈاکٹر عادل خان صاحب بولے:
” بس ! جامعہ میں مختص قبرستان بھی دیکھ لیں۔“
وہاں پہنچے تو مولانا نے چہار دیواری میں موجود قبرستان کا دروازہ خود کھولا اور صاف ستھرے ترتیب سے بنے قبرستان میں لے گئے جہاں ان کے والد محترم شیخ سلیم خان سمیت دیگر علماء و متعلقین کی قبریں موجود تھیں ۔
مولانا کا حسن انتظام و تحرک اور نفاست جامعہ میں دیکھ چکے تھے، وہی کچھ قبرستان میں بھی جھلک رہا تھا۔ کچی قبروں میں آسودہ خاک بڑے لوگ دنیا کی حقیقت بتارہے تھے ، صفائی ترتیب سے لگے پھول اور درخت ماحول کو غم کی کیفیت سے نکالنے کی کوشش میں تھے ۔
مولانا کہنے لگے :” یہیں ہماری بھی جگہ مختص ہے۔ مرحومین کے واسطے فاتحہ پڑھی، پھر واپس ہولئیے۔ کیا عجیب اتفاق تھا کہ ان سے ملاقات کا اختتام قبرستان میں ہوا۔ دوران گفتگو بےتکلفی رہی دن بھر ہم وہاں تھے عبدالجبار ناصر بھائی ، برادران ضیاء چترالی ، اے کے محسن ، منیر شاہ اور وکیل بھائی سمیت کچھ اور احباب ملاقات کا حصہ تھے۔ مولانا طلحہ رحمانی بھی ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ ساتھ رہے ۔
مولانا کہنے لگے اگلی ملاقات رات میں ہوگی، یہاں باربی کیو کریں گے ۔ بڑی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے ۔ خوب لطف آئے گا ۔ حال ہی میں ان کی تاریخ پاکستان سے متعلق تصنیف دو تین جلدوں کی صورت میں شائع ہوچکی ہے۔ اسلام و پاکستان سے محبت ان کا مشن تھا۔ ریا ، تکبر، کروفر سے پرے ایک عالم باعمل ۔۔۔
مولانا تو چلے گئے ، اللہ پاک کامل مغفرت فرمائیں ، سوچتا ہوں جامعہ فاروقیہ میں ان کے اگلے منصوبوں کو کون آگے لے کر جائے گا ، وہ اداروں جتنا کام تنہا کر رہے تھے۔ ایسے باصلاحیت مخلص شخص کا قتل ان تمام منصوبوں کو روک دے گا ، ہاں خدا چاہے تو کوئی کام ناممکن نہیں۔
مولانا سے ہوِئی رواں سال جولائی کے آخر میں ملاقات کا احوال بھی اسی تحریر میں شامل کر رہا ہوں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز دن کا بڑا حصہ مولانا ڈاکٹر عادل خان کی میزبانی میں چند صحافی دوستوں کے ساتھ گزرا ، خوشی ہوئی ایک پی ایچ ڈی عالم جو ایک دہائی تک ملائیشیاء کی اسلامی یونبیورسٹی میں استاد رہے، امریکہ میں بھی پانچ برس گزارے ، سو سے زائد ممالک کے اسفار کرچکے ہیں ، اب اپنے وژن، تجربے اور خاندان کی علمی روایت کو مزید اچھے انداز میں آگے لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مولانا خود اپنے والد کے شیخ سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کے قائم کردہ ادارے جامعہ فاروقیہ سے فارغ التحصیل بھی ہیں ۔ میری ڈاکٹر عادل خان صاحب سے یہ پہلی ملاقات تھی ۔ حب ریور روڈ پہ واقع جامعہ فاروقیہ فیز ٹو کی اچھی بات ساری تعلیم کا عربی میں ہونا ہے۔ اگلے منصوبوں میں طلبہ کو آئی ٹی اور ایم ایس سمیت طب یونانی کی تعلیم بھی دینا ہے۔ جدید علوم سے آراستہ کرنے کا مقصد ایسے رجال کار کی تیاری ہے جو امامت، خطابت سمیت دین سے جڑے کام بلامعاوضہ کرسکیں اور دیگر فنون کے نتیجے میں آمدن حاصل کریں۔
مولانا نے دوران گفتگو بتایا کہ مختلف مسالک کے درمیان اختلاف کو کم کرنے کے لئِے سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں مفتی منیب الرحمان کی مکمل معاونت بھی انہیں حاصل ہے۔
میں نے سوال اٹھایا کہ اختلافات کی اصل تو وہ فتاویٰ ہیں جس میں ایک دوسرے کو گستاخ، گمراہ ، مشرک ، بدعتی یا یہودی قرار دیا گیا ہے، کیا انہیں ریویو نہیں کیا جاسکتا ؟
انہوں نے کہا کہ ضرورت اختلافات کو کم کرنے کی ہے اگر اس طرف گئے تو نئے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ گو کہ اس پہ مزید بات ہوسکتی تھی لیکن آداب محفل کے خلاف لگی تو خاموشی اختیار کی۔ اس دوران دوست احباب بھی مختلف سوالات پوچھتے رہے۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھاکر یہ بھی پوچھا کہ کیا ہمارے مدارس کا علمی تحقیقی معیار ہند و بنگال سے بہتر ہے ؟؟؟
مولانا نے کہا کہ اگر میرے جواب کو تعصب نہ سمجھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے بلکہ عرب ممالک سے بھی آگے ہے۔ امریکی ائیر پورٹ کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے بتانے لگے ایک بار ہوائی میدان میں قطار میں کھڑا تھا ۔اپنی باری پہ جب متعلقہ افسر کے پاس پہنچا تو کہنے لگا:
کہاں سے ہو ؟
جواب دیا : پاسپورٹ آپکے ہاتھ میں ہے پوچھنے کی کیا زحمت ؟؟
افسر بولا آپ کا لباس بہت خوبصورت و شاندار ہے ، اچھا لگا ۔۔۔۔
مولانا کہتے ہیں: بیرون ملک جب جاتا ہوں ،شیروانی زیب تن کرلیتا ہوں اس روز بھی یہی لباس تھا ۔۔۔۔۔
ملاقات میں تشنگی تو رہی کئی سوال و تجاویز تھیں جن پہ وقت کی کمی کے سبب بات نہ ہوسکی۔ گفتگو کا ایک حصہ آف دی ریکارڈ تھا ۔ مولانا نے مرحومین قاضی حسین احمد ، علامہ شاہ احمد نورانی اور میمن مسجد کے مولانا رضاء المصطفی الاعظمی سے ملاقاتوں کا دلچسپ احوال بھی بتایا جس کا ذکر پھر کبھی سہی ۔
مجموعی طور پہ اچھی نشست رہی ۔ اختتام مجلس پہ صحافیوں نے فرمائش کی کہ ایک گروپ فوٹو ہوجائے تو بڑی محبت سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے دلوں میں بطور عکس رہیں گے ۔ بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن جب تصاویر کا مرض بہت عام ہوچکا ہے ایسے میں غیر ضروری تصاویر سے اجتناب مجھے تو بہت بھایا ۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب وفاق میں بھی فعال کردار ادا کر رہے ہیں قدیم و جدید علوم اور تحقیقی مزاج رکھنے کے اثرات ان کی جامعہ پہ نظر بھی آرہے ہیں۔ بلاشبہ اس ویرانے میں انہوں نے گلستان سجایا ہے۔ دیکھیے اس کی خوشبو کہاں تک جاتی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اگر روایتی دینی تعلیم کے ساتھ جدید دور کی مکمل آگاہی بھی ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہوگا ورنہ بلاشبہ لاتعداد مدارس بےشمار مولوی پیدا کر رہے ہیں مگر ان سے مطلوب دعوتی اسلوب معاشرے میں اثر انگیزی نہیں دکھا پارہا ۔۔۔ الا ماشااللہ