ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ، لاڑکانہ

اس وقت بھٹو کی لاش تختہ دار پر لٹک رہی تھی( تیسرا اور آخری حصہ )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

اس وقت بھٹو کی لاش تختہ دار پر لٹک رہی تھی ( 1 )

اس وقت بھٹو کی لاش تختہ دار پر لٹک رہی تھی ( 2 )

میں نے حسب پروگرام آٹھ بجے رات فون کیا، اپنا تعارف کروایا، مدعا عرض کرنے لگا کہ دوسری طرف سے بات کاٹتے ہوئے جواب ملا :
Sorry Gentleman , I am working some papers, I am not in a position to

اور میری بات سنے بغیر انھوں نے فون بند کردیا۔ میں کسی قدر مایوس ہوا اور منیر کاظمی کو فون پر ” رپورٹ “ پیش کی۔ انھوں نے کہا :
” ہمارے لئے یہی کافی ہے۔ اب ہماری خبر ہر طرح سے مکمل ہے اور خبر یہ ہے کہ
بھٹو کو آج رات پھانسی دے دی جائے گی “

میں نے جب خبر مرتب کرکے راولپنڈی آفس بھجوائی تو جناب شورش ملک مرحوم نے مجھے بتایا کہ آپ کی خبر کی اس بار تصدیق پہلے ہی ہوچکی ہے۔ یہ تو طے تھا کہ بھٹو صاحب کی سزائے موت پر عمل درآمد آج رات ہی ہوگا۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہورہا تھا کہ پھانسی راولپنڈی جیل ہی میں ہوگی یا تمام مجرموں کو ان کے اپنے اپنے علاقوں کی جیلوں میں پھانسی دی جائے گی۔

بیگم نصرت بھٹو ، اپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات کے بعد جیل سے باہر آتے ہوئے۔ تصویر ڈان

رات نو دس بجے اطلاع ملی کہ بھٹو کے شرکائے جرم کو پھانسی دینے کے لئے لاہور لایا جارہا ہے۔ وہ رات مجھے دفتر میں گزارنی پڑی۔ ایڈیٹر نے مجھے رات بھر رابطے میں رہنے کی تلقین کی تھی جبکہ گھر میں فون کی سہولت نہیں تھی، اس لئے گھر اطلاع بھی نہ کرسکا۔

بچے پریشان ہوئے اور نماز فجر کے بعد برادرم غلام رسول چودھری دفتر پہنچ گئے، مجھے ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے :
” بھلے مانس ! رات بھر رپورٹنگ کرنی ہو تو گھر والوں کو مطلع کرنے کی بھی کوئی سبیل پیدا کرلیا کرو۔ “

میرے ایک ” سورس “ نے امکان ظاہر کیا تھا کہ ممکن ہے ، بھٹو کے شرکائے جرم کو راتوں رات لاہور منتقل کرکے ان کے آبائی شہر کی جیل میں پھانسی دی جائے۔ میرا ” سورس “ صاحبان اقتدار میں سے ایک اہم شخص تھا جو بھٹو اور ان کے شرکائے جرم کے آخری لمحات سے باخبر تھا۔

اس نے مجھے بہت سی معلومات دیں۔ ایک مرحلے پر اس ” سورس “ نے نادانستہ طور پر مجھے گمراہ بھی کردیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہر مجرم کو اس کے ضلع کی جیل میں پھانسی دی جائے گی۔ اس کے لئے انھیں‌ راولپنڈی سے راتوں رات لاڑکانہ لے جایا جارہا ہے۔

یہاں قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم فون پر گفتگو میں ممکن حد تک احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اس مقصد کے لئے بعض کوڈ ورڈز طے کرلیے گیے تھے۔ بھٹو صاحب کو ” اللہ رکھا “ کا نام دیا گیا تھا۔ شرکائے جرم کے لئے ” ساتھی مہمان “ کا نام تجویز کیا گیا تھا۔ ” پھانسی دینے “ کے لئے گاڑی پر چڑھانے “ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔

اخبار کے دفتر سے نصف شب کے بعد مجھے راولپنڈی آفس سے پورے وثوق سے مطلع کردیا گیا کہ بھٹو صاحب اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اور اس وقت ان کی لاش تختہ دار پر لٹک رہی ہے۔

بیگم نصرت بھٹو ، اپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر سن کر دھاڑیں مار کر رو رہی ہیں۔ تصویر ڈان

اس کے بعد مجھے اس خبر کی تلاش رہی کہ بھٹو نے جیل میں آخری رات کیسے گزاری؟
مجھے تفصیلات جاننے کے لئے کسی عینی شاہد کی تلاش تھی۔ ایک روز ” امروز “ لاہور کے دفتر میں ایک رپورٹر ساتھی سے ملاقات کے لئے گیا، اس کے کمرے میں منتظر بیٹھا تھا، وہاں ایک صاحب آئے اور کسی دوسرے رپورٹر کا پتہ دریافت کرنے لگے۔

ان سے تعارف ہوا تو پتہ چلا، وہ مجید صاحب ہیں جو بھٹو کو پھانسی دیے جانے کی رات ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داری انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے بتایا
” مجھے بھٹو کو یہ اطلاع دینے کا فرض سونپا گیا کہ یہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے۔ میرے ذمہ یہ بھی تھا کہ میں اس اطلاع کے بعد انھیں ذہنی طور پر پھانسی کے لئے تیار کروں۔

میں جب بھٹو کے سیل میں گیا تو یہ دیکھ کر حیران و پریشان ہوگیا کہ بھٹو گہری نیند سوئے ہوئے ہیں۔ ان دنوں بھٹو صاحب کو اکثر بے خوابی رہتی۔ ( وہ Insomnia کے مریض تھے)۔ جب خلاف توقع انھیں بے سدھ پایا تو پریشانی ہوئی، کہیں انھوں نے خودکشی نہ کرلی ہو! میں نے ” اوپر “ بھی اطلاع کردی۔

بعد میں ” سیل “ کے اندر جاکر بوکھلاہٹ میں بھٹو کے سینے پر اپنا کان رکھ دیا، دل دھڑک رہا تھا، میں نے آہستہ سے بھٹو صاحب کو آواز دی مگر وہ بیدار نہ ہوئے، جھنجھوڑا تو اٹھ بیٹھے۔ میں نے کچھ توقف کے بعد پھانسی کے متعلق انھیں مطلع کردیا۔ کچھ دیر کے لئے ان پر سکتے کی کیفیت طاری ہوگئی۔ بعد میں سنبھل گئے، خلا میں گھورتے رہے۔ جلد ہی انھیں پھانسی گھاٹ لے جانا تھا، وہ قدرتی طور پر بوجھل دل اور بوجھل قدموں سے چل رہے تھے مگر جلد ہی بہت زیادہ نقاہت ان پر طاری ہوگئی۔

اس کے بعد کی کہانی ایک اور ذمہ دار ” سورس “ سے معلوم ہوئی کہ انھیں بالآخر سٹریچر پر لادنا پڑا تھا۔ بہت نحیف اور لاغر تھے، انھیں سٹریچر پر لٹانے کے دوران میں ان کے کپڑے بھی پھٹ گئے۔ اپنے وقت کے دبنگ حکمران جو عالمی سیاست میں ممتاز مقام پر فائز رہے، نہایت بے بسی سے سوئے مقتل رواں تھے۔

موقع پر موجود فوجی اور سول افسران پر سکوت طاری تھا۔ بعض آنکھیں چھلکتی نظر آرہی تھیں۔ ان کے گلے میں پھندا ڈالا گیا۔ ہاتھ باندھے گئے تو ان کی زبان سے یہ جملہ سنا گیا ” یہ رسی مجھے تنگ کررہی ہے۔“ جس پر ہاتھ کی رسیاں ڈھیلی کردی گئیں۔

اس کے بعد انھوں نے کہا تھا : ”Finish it“۔۔۔۔ اور جلاد نے لیور کھینچ دیا۔

” خاتمے “ پر مامور ذمہ داروں نے جلاد کی مدد سے بظاہر ایک سیاسی کہانی ختم کردی جبکہ فی الحقیقت اس کہانی نے کہانیوں کے ایسے سلسلے کو جنم دے دیا جن کا خاتمہ دور دور نظر نہیں آرہا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں