ذرا سی بات / محمد عاصم حفیظ :
کل ہی وزیراعظم پاکستان کی فیس بک کی اعلیٰ ترین عہدیدار سے تفصیلی ویڈیو لنک میٹنگ ہوئی۔ تفصیل آپ وزیراعظم کے فیس بک پیج پر پڑھ سکتے ہیں ۔ اسی شام چینی اپیلیکشن ٹک ٹاک کو بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس اقدام کو پاکستانی سوشل میڈیا پر خوب سراہا جا رہا ہے۔ بھارت امریکہ اور کچھ اتحادی ممالک کے بعد پاکستان میں اس اپلیکیشن کو بند کیا گیا ۔
بظاہر اسے فحاشی پھیلانے کے الزام میں بند کیا گیا ۔اور یہ حقیقت ہے کہ ٹک ٹاک کی وجہ سے نوجوان نسل میں منفی رجحانات پھیلے ہیں ۔میں ذاتی طور پر اس کی بندش سے خوش بھی ہوں اور ایسی دیگر ویب سائٹس پر بھی سخت ضابطہ اخلاق کا حامی ہوں لیکن کیا واقعی ” فحاشی “ واحد وجہ ہے ۔ ٹک ٹاک سمیت ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو فحش مواد کے حوالے سے ضابطہ اخلاق اپنانا چاہیے یا پھر انہیں بین کیا جائے۔
بڑی سادہ سی بات ہے کہ تمام بڑے ٹک ٹاکرز کے یو ٹیوب اکاؤنٹ اور انسٹاگرام اکاؤنٹ موجود ہیں جن پر اسی قسم کا مواد اور اکثر وہی مواد آپ لوڈ ہوتا ہے ۔ فیس بک پیجز پر بھی یہی ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں ۔ واٹس ایپ پر بھی شئیرنگ ہوتی ہے ۔
کیا یوٹیوب فیس بک اور انسٹاگرام کو بند کیا جا سکتا ہے؟
اسی طرح لائیو چیٹ کی بے شمار اپلیکیشنز ہیں جو باقاعدہ طور پر جرائم پیشہ گروہ جنسی کاروبار اور عریانی و فحاشی کے ذریعے پیسہ کمانے کےلئے استعمال کرتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یو ٹیوب شارٹ ویڈیوز کے لیے یعنی ٹک ٹاک طرز پر باقاعدہ ایک نئی اپلیکیشن لانچ کر رہا ہے جسے ابتدائی طور پر لانچ ہی ہندی زبان میں کیا جائے گا جو کہ بھارت پاکستان میں سمجھی جاتی ہے۔
پیارے پاکستانیو !
اب آپ ٹک ٹاک طرز کی وہی ویڈیوز چین کی اپلیکیشن کی بجائے امریکہ کی یوٹیوب شارٹس پر دیکھیں گے جبکہ انسٹاگرام یوٹیوب اور فیس بک پر پہلے ہی وہی مواد موجود ہے۔ مواد نہیں بدلے گا بس اپلیکیشن بدلنا پڑے گی ۔ ان ویڈیوز کی کمائی چین کی بجائے امریکہ کو جائے گی ۔ اور بس۔
فیس بک آئندہ کچھ عرصے میں بہت جلد پاکستان میں ویڈیو مونیٹائزیشن شروع کر رہا ہے ۔ یعنی یوٹیوب کی طرح اس کی ویڈیوز دیکھنے پر بھی کمائی ہو گی۔ اس کے لیے فیس بک نے اپنا لے آؤٹ اپ ڈیٹ کر دیا ہے ۔
آپ یہ بھی ضرور جانتے ہوں گے کہ ٹک ٹاک اب تک اشتہارات نہیں شو کرتی یا بہت ہی محدود پیمانے پر جبکہ مواد آپ لوڈ کرنے والوں کو بھی کچھ نہیں ملتا لیکن اب ٹک ٹاک نے بھی یوٹیوب کی طرز پر آدائیگی شروع کر دی تھی ۔ اسی طرح مارکیٹنگ کمپنیاں ٹک ٹاک کو اشتہارات کےلئے بھی استعمال کرنے لگیں تھیں ۔ ٹک ٹاکرز بھی مختلف کمپنیوں کے اشتہارات شئیر کرنے لگے تھے ۔
یہ مارکیٹ اجارہ داری کا چکر ہے ۔ برصغیر کی ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کی مارکیٹ پر قبضے کی جنگ ۔ بات بڑی سادہ سی ہے کہ جب آپ قرضے آئی ایم ایف سے لیں گے تو پھر مارکیٹ بھی وہیں سے کنٹرول ہو گی ۔ آپ اسے کسی خاص حکومت وزیراعظم سے منسلک نہیں کر سکتے یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا چکر ہے ۔
بہت سے پرجوش سوشل میڈیا پر پھولے نہیں سما رہے ۔ اور واقعی اس ماحول میں اس بارے میں لکھنا بھی خود کو تنقید کا نشانہ بنانے کے مترادف ہے۔
اگر تو یہ واقعی فحاشی کے خلاف مہم ہے تو پھر فیس بک اور یوٹیوب انسٹاگرام بھی بند ہوں گی ۔ یوٹیوب شارٹس کو پاکستان میں ضرور بین کیا جائے گا یا کم سے کم کوئی لائیو چیٹ آپلیکیشنز ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہونے والا ، یہ مارکیٹ اجارہ داری کی جنگ ہے جس میں آپ کو وہی فیصلہ کرنا مجبوری بن جاتی ہے جو کہ قرضہ دینے والے چاہتے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر بیہودہ مواد کا کوئی بھی دفاع نہیں کرتا اس حوالے سے سخت ضابطہ اخلاق بننا چاہیے ۔ ٹک ٹاک کے اثرات اور مواد پر کئی تفصیلی پوسٹیں لکھیں اور اس حوالے سے ضابطہ اخلاق کا مطالبہ بھی کیا
لیکن یوں اچانک ٹک ٹاک کی بندش کچھ اتنا بھی سادہ معاملہ نہیں ہے ۔ مارکیٹ کے بڑے مگر مچھ ابھرتے ہوؤں کو برداشت نہیں کرتے ۔ ٹک ٹاک اب بزنس ایپلیکیشن بننے جا رہی تھی ۔ جب تک یہ صرف تفریح کے لئے تھی تو ٹھیک بزنس کرنا شروع کیا تو پابندیاں ۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور بھارت نے بھی فحاشی کی وجہ سے پابندی لگائی ؟؟ کیا سرحدی کشیدگی کی وجہ سے لگائی ؟ ہرگز نہیں ۔ بھارت اور چین کے درمیان تو جنگیں بھی ہو چکیں لیکن ٹریڈ ہوتی رہی ۔ تب بھارت روس کا اتحادی تھا ۔ اب امریکہ کا اتحادی ہے جس کے ساتھ تعلقات کی بنیاد ہی مارکیٹ ہوتی ہے ۔
دوسری اہم بات حکومت کافی عرصے سے یہ خواہش بھی رکھتی ہے کہ ٹوئٹر فیس بک اور یوٹیوب پر حکومت مخالف ناپسندیدہ مواد کو ہٹانے کا اختیار دیا جائے یا اس پر فوری عمل کیا جائے ۔ امید ہے ٹک ٹاک کو مارکیٹ سے آؤٹ کرنے پر یوٹیوب اور فیس بک پاکستانی اداروں کو کچھ نہ کچھ سہولیات ضرور دیں گے۔
امید ہے ٹک ٹاک کے بعد باقی سوشل میڈیا ویب سائٹس کو شکنجے میں لایا جائے گا ۔ ٹک ٹاک کی بندش پر کوئی نہیں بولے گا دراصل یہ سنجیدہ پلیٹ فارم ہی نہیں تھا اور اہم لوگ اس سے منسلک نہیں رہے لیکن اس کے اثرات آپ کو پاک چین تعلقات میں بھگتنا پڑیں گے ۔
سوشل میڈیا پر فحش مواد ایک سنجیدہ معاملہ ہے ۔ اس پر سخت فوری اور ٹھوس بنیادوں پر ایکشن ہونا چاہیے ۔ ٹک ٹاک ہو یا امریکن ویب سائٹ و اپیلیکشنز ہر ایک سے اس کو ہٹانا چاہیے لیکن اس کے لئے باقاعدہ منظم اقدامات کی ضرورت ہے۔
صرف ٹک ٹاک کی بندش حل نہیں ۔ یوٹیوب شارٹس کو لانچ کی اجازت نہ دی جائے جبکہ فیس بک اور یوٹیوب کو بھی فحش مواد ہٹانے پر مجبور کیا جائے ورنہ صرف اکیلی ٹک ٹاک کے خلاف ایکشن مشکوک ہو جائے گا ۔