صاحبان ! بتانا یہ تھا کہ خاکسار کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آ گیا ہے، ہم بھی آخرکار اس بیماری کا شکار ہو ہی گیے۔
چھ ماہ سخت احتیاط کی، ماسک پہنے رکھا، گلوز پہنے، سینی ٹائیزر جیب میں رکھا، کہیں آنے جانے سے گریزکیا۔ کسی کے گھر دعوت قبول نہیں کی۔ اللہ کی مہربانی سے یہ سب احتیاطیں کارگر ثابت ہوئیں، دفتر میں ایک درجن سےزاید لوگوں کو ہوا مگر الحمدللہ محفوظ رہا۔
اب ستمبر کے وسط کے بعد سے کچھ ریلیکس ہوا۔ دوستوں کے ساتھ ایک ناشتے میں شریک ہوا، وہ غلطی تھی، شکر ہے کہ تب تک مجھے نہیں ہوا تھا، ورنہ ان سب کو ہوجاتا۔
غلطی یہ ہوئی کہ پیر یعنی اکیس ستمبر کو ہمارے ایک بہت سینیر قابل احترام صحافی دفتر آئے ، ان کے ساتھ کھانا کھانے چلا گیا۔ دو دن بعد پتہ چلا کہ انہیں کورونا پازیٹو ہوگیا ،اس دوران کچھ علامات میرے اندر بھی ظاہر ہوئیں، ٹیسٹ کرایا تو پازیٹو نکلا۔
طبیعت الحمدللہ بہتر ہے بخارسوتک ہو رہا ہے، پینا ڈول سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔ جسم میں البتہ درد رہتا ہے۔ اللہ کرم فرمائے گا۔
ٹینشن بالکل نہیں ہے، مورال بلند ہے، اس لیے حوصلہ کرنے کے رسمی مشورے نہ دیں۔ ڈاکٹرعاصم اللہ بخش کے مشورے سے ادویات شروع کی ہیں، امیونٹی بہتر کرنے کے بھی تمام نسخے آزما رہا ہوں۔ قہوہ جات، یخنی وغیرہ بھی۔
ٹینشن بس یہی ہے کہ پندرہ دن گھر میں قرنطینہ میں رہنا پڑے گا، اس کی مکمل تیاری کر لی ہے۔ ایس او پیز بنا لیے۔ کتابوں کی ایک فہرست بنا لی ہے جنہیں ان شااللہ پڑھیں گے۔
امام ابن کثیر کی سیرت انبیا ، مولانا مودودی کی رسائل ومسائل۔ قرآن کی تفاسیر اور کچھ فکشن کی کتابیں۔ جہلم بک کارنر والوں نے شمس الرحمن فاروقی کا شاہکار ناول ” کئی چاند تھے سرآسمان “ بھیجا ہے۔ اسے دوبارہ پڑھنا شروع کیا ہے۔ اللہ نے چاہا تو ان کتابوں پر لکھوں گا۔
ارادہ بنا رہا ہوں کہ بیماری کے دنوں کا روزنامچہ لکھوں۔ اگر کر پایا تو آج یا کل پہلے دن کی روداد لکھوں گا۔
یارو ! دعائوں میں یاد رکھیں۔ رب کی جو مرضی، جو بیماری آئی ، اس میں ہماری کچھ بہتری ہوگی۔ یہ سوچ رہا ہوں کہ شکر ہے ان دنوں میں بیماری آئی جب اس کا زور ٹوٹ گیا اور ادویات سمیت ہر چیز سستی اور دستیاب ہے۔ اگر یہ افتاد دو ماہ پہلے پڑتی تو نجانے کیا وحشت ناک صورتحال بنتی۔
رب کریم نے اتنا طویل عرصہ صحت مند رکھا، بہت کم بیماری ہوئی۔ اب آئی ہے۔ اس پر چیخ پکار کی تک نہیں بنتی ۔ رب کریم یقیناً بہتری فرمائیں گے۔ آپ دوستوں سےدعائوں کی درخواست ہے۔
رب کریم بہتری فرمائیں گے۔ جو اس ذات کو پسند ہمیں بھی اس پر سر جھکانا چاہیے۔ بس ایک خوف دامن گیر ہے کہ نامہ اعمال خالی ہے، رب کریم کچھ نیک عمل کرنے کی توفیق اور مہلت عطا فرمائے۔
ایک اطمینان ہےکہ سوشل میڈیا کے دس برسوں میں کچھ لوگ ناراض بھی ہوئےہوں گے، خاص طور پر جو بلاک شدگان ہیں، مگر مجموعی طور پر فیس بک پر محبتیں ہی سمیٹیں۔
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
ان شااللہ رابطہ رہے گا۔ لکھنا لکھانا اللہ ہمت دے تو چلتا رہے گا۔ کالم بھی لکھتا رہوں گا۔ ان شااللہ۔
آخری بات یہ کہ کورونا ختم نہیں ہوا، کنٹرول ہوا ہے۔ احتیاط جاری رکھیں۔ آپس کے انٹرایکشن کوچند ہفتوں کے لیے ملتوی کر دیں۔ ورنہ میری طرح کوئی بھی کورونا کا شکار ہوسکتا ہے۔
ہاں ! وہ احمق جو کورونا کو ابھی تک سازش سمجھتے ہیں، وہ اگر نظر آئیں تو ان کے سر پر ایک عدد ڈنڈا رسید کرنا چاہیے۔ خیالی ڈنڈا ہی سہی، میرے سامنے یہ لوگ آئیں تو ان کے ساتھ ان کے شایاں شان سلوک کروں۔
کورونا ایک حقیقت ہے، بے رحم حقیقت ۔ اسے مان کر بچیں، بجائے اس کے کہ شکار ہوجانے کے بعد پچھتائیں۔