محترمہ نیرتاباں کے سوالات تھے کہ اتنی ساری لڑکیاں خود پاکستان میں اور ان کے شوہر ان سے دور کسی اور ملک میں ہیں۔ کیا لانگ ڈسٹینس محبت برقرار رہ سکتی ہے؟
جیسے آن کیمپس پڑھائی آسان اور آن لائن پڑھائی مشکل ہے، تو کیا اس طرح ورچوئل ریلیشن شپ نبھانا مشکل نہیں؟ غلط فہمیاں تو نہیں بڑھنے لگتیں یا پھر دور رہنے سے محبت بڑھتی ہے؟
کسی بھی ریلیشن شپ میں ابتدائی دن ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے درکار ہوتے ہیں۔ کیا دور رہنے سے یہ سمجھنے سمجھانے کا سلسلہ مشکل اور طویل ہو جاتا ہے؟
ٹائم زون کا فرق ہو سکتا ہے۔ سونے جاگنے کے اوقات الگ، مصروفیت اور فراغت کے اوقات جدا۔ بیوی کو شوہر کی جاب اور ملنے ملانے والوں کا زیادہ ادراک نہ ہو۔ بیوی پاکستان میں دوستوں اور ملنے ملانے والوں میں، سسرال اور بچوں میں، جاب میں کھپی ہوئی ہو۔ ایسے میں
How to keep the spark alive?
کیسے اپنی اپنی ٹائم زون میں اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ایک دوسرے کو ساتھ شامل رکھا جائے؟
کوالٹی ٹائم کا انتظام کس طور کیا جائے؟
کیا بس حال چال اور روز مرہ کی روٹین پوچھ لینا کافی ہے؟
سپیس کس قدر دی جائے اور کہاں بریک لگایا جائے؟
انھوں نے مخاطبین سے کہا کہ وہ اس پر کچھ کہیں۔ اس پر اطہر بلال سید نے ایک دکھی کردینے والا واقعہ سنایا:
” کمپنی کے ایک فرینڈ نے دبئی سے بیٹھ کر اپنے سسرال میں رہنے والی معصوم عالمہ بیوی کو طلاق دے دی تھی جبکہ طلاق کے اگلے مہینے اس کا بیٹا پیدا ہوا۔ یہ طے تھا کہ پیدائش کے بعد بیوی اس کے پاس جائے گی۔ پر آسائش زندگی کا خواب دیکھتی لڑکی کو یک دم فون پر ہی طلاق مل گئی۔ بعد میں وہ شدید پچھتاتا رہا۔“
” شادی سے قبل وہ مجھ سے ہونے والی مسز کے لئیے کراچی سے عبایا منگواتا تھا اور شدید محبت کرتا تھا۔ تب ہی اس کی جاب بیرون ملک ہوئی۔ شہری بیگم کو اپنے گائوں میں واقع گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ بس فیملی کے لگانے بجھانے کے چکر میں جذبات میں یہ اسٹیپ لیا اور بعد میں پچھتاتا رہا۔ “
شہلہ طیب نے کہا :
” اگر چہ ایسا تجربہ نہیں الحمدللہ ، لیکن مشاہدہ بہت ہے ۔ دوستوں کا ، کولیگز کا۔ ایسی لڑکیوں کی زندگی کا دوسرا نام بے بسی ہوتا ہے۔ ہماری امی شروع سے کہتی تھیں آدھی روٹی کھا لوں گی بیٹے کو پردیس نہیں بھیجوں گی لیکن وہ ضد کر کے گیا اور دو سال بھی پورے نہ ہوئے واپس آ گیا۔ ہم نے اپنی بہن کی شادی اس شرط پر کی کہ لڑکا پاکستان آ جائے ۔ بہنوئی نے واپس آتے آتے آٹھ سال لگا دیے اگر چہ بہن کے سسرال والے بہت اچھے تھے اور ہیں لیکن ہماری بہن کو وہ جدائی کی اذیت کھا گئی۔
ایک عزیزہ کہنے لگیں جس دن میرے شوہر واپس جاتے ہیں اسی دن مجھے ساس کے کمرے میں سونا ہوتا ہے۔ میں تو کھل کے رو بھی نہیں سکتی ۔ غرضیکہ ہر دوسرے گھر میں یہ مسئلہ ہے جس کو مسئلہ سمجھا نہیں جاتا۔ “
”میں کبھی کبھی سوچتی ہوں میرے پردیسی بھائی اتنی محنت یہاں کیوں نہیں کرلیتے جو وہاں کرنے میں ان کو کوئی عار نہیں ہوتا۔ “
حاجرہ سعید نے کہا :
” میاں بیوی ساتھ رہیں تو اتنا تحمل طلب رشتہ ہوتا ہے ان کا کجا کہ دور رہیں۔ دور رہنا اور سالانہ چھٹی پر ایک مہینے کے لیے بیوی کے پاس آنا۔ میں نے ایسی کئی دلہنوں کی نم ناک آنکھیں دیکھی ہیں۔ جو ہنستے ہنستے بولتی ہیں ’ کل ان کو گئے ہوئے آٹھ مہینے پورے ہوگئے ہیں۔ ‘ ہائے! ایک ایک گھڑی گن گن کر گزرتی ہے اس لڑکی کی۔
اور اگر اللہ نے سہولت دی ہوئی ہے، شوہر باہر رہ کر کماتا ہے اور ہر چار مہینے میں گھر کا چکر بھی لگاتا ہے، عید بیوی بچوں کے ساتھ کرتا ہے، خاندان کے شادی بیاہ میں شرکت کے لیے بھی پہنچ جاتا ہے تو بیوی زندہ رہتی ہے۔ “
ایمن طارق نے کہا :
” یہ ایسا موضوع ہے کہ اگر اس پر بات ہو تو بہت دور تک جائے گی لیکن واقعی تکلیف دہ ۔ میں تو خوشی اور رضامندی سے وقتی فائدوں کی خاطر بھی ٹھیک نہیں سمجھتی کیونکہ زندگی اور موت کا پتا نہیں اور انسان پتا نہیں کس خوش فہمی میں جو لمحات اللہ نے دیے وہ بھی دور گزار دے اور پھر ناخوشی اور کسی پریشر پر دور دور رہنے اور سالہا سال گزار دینا تو ایک اذیت ہے ایک دوسرے پر ظلم ہے ۔ نہ تعلق ویسا رہتا ہے نہ عادت رہتی ہے بلکہ بڑی جلدی انسان اپنے اپنے معمولات میں سیٹ ہوجاتے ہیں ۔ پھر کھینچ تان کر لگاوٹ پیدا کرنی پڑتی ہے ۔ “
” بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے ۔ اگر تو کسی آدمی کے گھر والے اس پر زور ڈال کر اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے بہن بھائیوں کی شادیوں کے خرچے پورے کرنے کے لیے زبردستی کرکے بیٹے کو باہر رہنے پر اصرار کرتے ہیں تو یہ سراسر ظلم عظیم ہے۔ “
” ایک آدمی کو بھی اتنا دبو اور مجبور نہیں ہونا چاہیے کہ جیتے جاگتے انسانوں کی خواہش ، محبت اور احساس کا گلا گھونٹ کر پیسے کمانے کی مشین بن جائے ۔ بھوکا رہ کر گزارا کریں لیکن ساتھ کریں ۔ یہ بات کہنے میں آسان ہے جانتی ہوں اور بھوک اور مجبوری بہت کچھ کروا لیتی ہے لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود جب ایک عمر میں جاکر واپس مڑیں اور رشتے ہی نہ ملیں تو بھی انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ “
” میں جب کسی ایسے جوڑے کو دیکھتی ہوں جو سالوں سال ایک دوسرے سے دور ہیں تو اپنے دل میں شدید تکلیف محسوس کرتی ہوں ۔ دل ڈر جاتا ہے کہ انسان اپنے منصوبوں اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اتنا پر اعتماد کیسے ہوسکتا ہے کہ اچھا حالات اچھے ہونے پر اکھٹے رہنے لگیں گے لیکن کیا بھروسہ کہ حالات اچھے ہوں اور زندگی وفا نہ کرے ۔ حالات اچھے ہوں لیکن ایک دوسرے سے تعلق نہ رہے ۔ دوسرا ایک مرد جب اپنی بیوی کو چھوڑ کر دور رہتا ہے اور جذباتی سہارا بھی نہیں دیتا تو بگڑنے ، بہکنے کے چانسسز دونوں جانب بڑھ جاتے ہیں ۔ “
صائمہ عثمان :
” میرے والد صاحب نے چالیس سال سے زیادہ عرصہ ملک سے باہر گزارا ۔ ظا ہر ہے مجبوریاں تھیں۔ مجھے امی اور ابو دونوں کی محنت، مشقت اور بے تحاشا قربانیوں کا بہت بچپن سے احساس ہے۔ اور اسی احساس کے ساتھ بڑی ہوئی کہ یہ بہت مشکل ہے اور کسی بھی فیملی کو اس طرح نہیں رہنا چاہئے کہ دو جیون ساتھی ایک ملک میں اور دوسرا دیار غیر میں جلا وطن ہو رہیں۔ اس لئے میں سب اپنےرشتہ دار اور جاننے والے لڑکوں کو مشورہ دیتی رہتی ہوں کہ یا تو فیملی ساتھ لے کر جائو یا ملک میں ہی محنت کرو جو رزق لکھا ہے مل جائے گا یہ عمر قید خود کو اور بیوی بچوں کو نہ دو۔“
” سب سے زیادہ دکھ کی بات ہمارے والدین کی جنریشن کی یہ تھی کہ جب ساری عمر محنت کر کر کے بڑھاپے اور صحت کی خرابی کے ساتھ واپس آئیں گے تو بچے اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو چکے۔ میاں بیوی کو اب ایک دوسرے کے ساتھ کی کچھ خاص ضرورت اور عادت بھی نہیں رہی۔ حاصل کیا ہوا سب سے زیادہ مشقت کرنے اور قربانی دینے والے کو؟ “
زہرہ ترین :
”میرے شوہر گئے تھے لیکن دو مہینے سے زیادہ نہیں رہے ان کا دل خود اداس ہو گیا تھا اور یہی دو مہینے میرے لئیے بہت مشکل گزرے ، وہ وقت یہاں لکھ بھی نہیں سکتی کیونکہ وہ وقت میں یاد نہیں کرنا چاہتی ۔ بس اتنا کہوں گی کہ زندگی میں سب کچھ پیسہ اہم نہیں ہوتا بلکہ رشتے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ “
عظمیٰ معروف :
” میرے ایک استاد سکالرشپ پر اٹلی گئے تو بیوی بچوں کو ساتھ لے گئے، ، حلانکہ سکالرشپ محدود سا ہی تھا۔ مگر اُن کا یہ ماننا تھا کہ روٹی چاہے آدھی کھاؤ لیکن بیوی بچوں کو ساتھ رکھو۔ اس سوچ کو سلام ہے۔
ہمارے ایک جاننے والے کچھ عرصہ کے لئے اسلام آباد کے ایک کالج کے پرنسپل تعینات ہوئے۔ یہ کالج ہمیشہ سے ہی غنڈوں کا مسکن رہا ہے۔ انہوں نے اپنے طور تحقیق کروائی کہ
To find out who are the troublemakers…
پتہ یہ چلا کہ 80 فیصد وہ لڑکے ہیں جن کے والد ان کے ساتھ نہیں رہتے بلکہ تلاشِ روزگار کے سلسلے میں عرب ممالک میں مقیم ہیں۔
آسان پیسہ اور جوان اولاد پرنظر رکھنے والے باپ کی غیر موجودگی ، یہ دو عوامل وجہ بنے بگڑی نسل کا۔ “
سلیم وردک :
اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور سب سے باخبر ہے، اللہ ہمیں اس اذیت بھری زندگی سے نجات دیں۔ کون چاہتا ہے کہ سارا دن عرب کی آگ برساتی ریگستانوں میں کام کریں اور شام کو خود اپنے کپڑے دھوئیں، خود ہانڈی روٹی بنائیں اور پھر اکیلے سوجائیں۔ بچے باپ کے ہوتے ہوئے یتیموں کے طرح اور بیوی شوہر کی زندہ ہوتے ہوئی بیوہ کی طرح زندگی گزاریں۔ بس ! کچھ مجبوریاں، کچھ مروت، کچھ ماں باپ کے ارمان، کچھ بہن بھائیوں کا فکر ، کچھ بیوی بچوں کے بہتر مستقبل کی سوچ ۔ یہ سب کروا دیتی ہیں بندے سے یہ مسافریاں۔ “
غزالہ ظہور :
” بہت مشکل ہوتا ہو گا یقینآ ۔ مجھے ” سونا چاندی“ ڈرامہ یاد آتا ہے ، اس میں ایک بشیر فورمین ہوتا تھا بیرون ملک روزگار کے سلسلے میں۔ بیوی سسرال میں تھی۔ اف ! یاد کرتی ہوں اس کا دکھ ، ایک چومکھی لڑائی تھی اس کی خود سے ، بچوں سے ، سسرال سے اور شوہر سے ۔ ہر محاذ پر وہ شکستہ ، دکھی ، مایوس اور محروم اور بشیر فورمین کے دکھ ۔ کیا تحریر تھی ، کیا اداکاری تھی ، کیا ڈرامہ نگاری تھی ، میں بہت چھوٹی تھی جب وہ ڈرامہ دیکھا تھا ، مگر اس کے درد کو بھرپور محسوس کیا تھا ، آج بھی یاد کرتی ہوں تو دل درد سے بھر جاتا ہے ۔“
سحرش عثمان :
” مجھے تو بس اتنا معلوم ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جن کی زبان پر رب نے حق جاری کیا تھا ان کا فرمانا تھا:
اگر سرحد پر جنگ ہو اور دشمن سرحدوں پر گھسنے والا ہو تو بھی سپاہی کو چوتھے مہینے گھر آنا ہوگا تو بھی چھٹی ہوگی سپاہی کو۔
اب آپ ہی بتائیے سال دو سال بعد آنے والے کے لیے سپارک کون لائے اور کہاں سے؟ “
ارسا فاطمہ :
” بہت ہی عجیب سی حقیقت ہے اور وہ یہ ہے کہ محبت قربت مانگتی ہے، ساتھ مانگتی ہے، توجہ اور احساس مانگتی ہے جو کہ ساتھ رہ کر ہی ممکن ہے شادی شدہ مرد کا گھر بیوی سے دور رہنا قطعاً مناسب نہیں ہے ۔انسان کی فطری ضروریات سے منہ نہیں موڑا جا سکتا جسے پورا کرنے کے لئے مرد نا صرف آزاد ہوجاتا ہے بلکہ بہت حد تک مجبور بھی۔
یہاں بیوی کی زندگی بھی عجیب دوراہے پر ہوتی ہے ، سسرال میں دل نہیں لگتا ۔ پھر بھی نا صرف رہنا پڑتا ہے بلکہ اپنا مقام بنانے کے لئے حددرجہ محنت بھی کرنی پڑتی ہے کہ سر کا سائیں تو دور پردیس میں بیٹھا ہے اور گھر میں ایک بھی حمایتی نہیں، میکہ جائے تو بھابھیوں کے منہ سیدھے نہیں ہوتے.. گویا انگاروں پر چلتے ہوئے زندگی گزرتی ہے.. میں سخت خلاف ہوں اس چیز کے کہ کسی کی بہن بیٹی کو لا کر والدین کی باندی بنا چھوڑا اور خود کولہو کے بیل کی طرح دن رات پردیس میں کمانے میں گزار دیے.. پیسہ تو کمایا پر سکون گنوا کر۔“
حرا امام جمیل :
” اپنی کم عمری، کم دانست اور ناتجربہ کاری کے باوجود سمجھ میں یہی آتا ہے کہ ساتھی ساتھ نبھانے کیلئے ہوتے ہیں. ایک دوجے کی تکلیف اور خوشی دیکھیں گے نہی تو بانٹیں گے کیسے؟ ایسے کیسز میں سپارک الائیو رکھنا ایک آئیڈیل سیچوئشن ہے جہاں دو الگ بھی ہوں، بائنڈگ بھی اچھی ہو، اپنے پرسنل مشغلوں میں مصروف. ملنے ملانے کے کچھ دن مختص ہوں، اور کوئی تیسرا غلط فہمی نا پیدا کر سکے
مگر ایسا ہوتا نہیں ہے اور ہمارے معاشرے میں اس بات کو کوئی نہیں سمجھتا. کہہ دیا جاتا ہے سب رہتے ہیں. مثالیں دی جاتی ہیں فلاں کا شوہر پانچ سال سے باہر اپنی بیوی کیلیے محنت کر رہا ہے ( کیا وہ شوہر شوہر ہے؟ ) لوگوں کے بے حس رویوں پہ حیرت ہوتی ہے. جس پہ گزرتی ہے وہی جھیلتا ہے. “
شازیہ شریف :
”محبت کے لئے لمس بہت ضروری۔ بطور ٹیچر ہم نے آن لائن کلاسز کا آئیڈیا اپنی زندگی میں ہی ناکامی سے دوچار ہوتا دیکھ لیا۔ ٹیچر کی سرزنش ،کبھی پیار ۔ سامنے رہ کے حالات سے آگہی اور طرح سے ہوتی۔ کجا اتنی دور کہ آنسو بھی نظر نہ آئیں کوئی تکلیف میں تھپکنے والا بھی نہ ہو۔
بعض اوقات تنگ کرنے والے بچوں کے ساتھ صرف ٹچ تھراپی سے کام لیا جاتا ہے۔ الگ روم میں بلوا کے دونوں ہاتھ پکڑ کے سامنے بٹھاتے، پوچھتے آپ تو اتنے اچھے بچے ہو، یہ آج ایسا رویہ کیوں کر رہے ہو؟ بچہ پھوٹ پھوٹ کے رو دیتا۔
فاصلاتی تعلیم کی طرح فاصلاتی محبت کی بھی کوئی اہمیت نہیں ۔ رشتہ ہے تو سرعام ہو ، سال میں چند دن کیا ہوا، کیا ہمیں تین وقت بھوک نہیں لگتی۔ عورت کی بھی جذباتی اور بائیولوجیکل ضروریات وہی ہیں جو مردوں کی ہیں۔ مجھے تو ایسی عورتیں لاوارث بیوائیں لگتی ہیں۔ معذرت اگر کسی کو برا لگے۔ مجھے بھی بہت پریشرائز کیا گیا تھا کہ شوہر کو باہر جانے دو پونڈز آئیں گے۔ میں نے کہا دونوں یہاں کام کر لیں گے روپوں میں ہی گزارا کر لیں گے۔
میرے والد کسی بھی پردیس میں کام کرنے والے کو رشتہ دینے کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے سسرال والے ذلیل کرتے بچیوں کو، رل جاتی ہیں بچیاں یا تو شوہر ساتھ لے جانے کی پوزیشن میں وگرنہ نہیں۔ لڑکی بہت تیز ہو تو مرد کو اپنے ساتھ باندھ لیتی، اگر یہ گن ماں بہن میں ہوں تو سمجھیں گھر برباد۔ مرد تو کاٹھ کا الو ہوتا اس کیس میں۔ “
پیارے پڑھنے والو اور پڑھنے والیو !
آپ کیا کہتے ہیں اس موضوع پر؟ نیچے تبصرہ میں لکھیے اپنے خیالات یا پھر علیحدہ سے لکھ بھیجئے ہمیں درج ذیل ای میل ایڈریس پر
[email protected]