گٹکا

لمحے کی خطا بنی ناسور‎

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمیرا غزل :

اس کی آنکھوں میں آنسو تھے،زبان لڑکھڑائی ہوئی تھی، الفاظ بڑی مشکل سے ادا ہو رہے تھے۔ لمحے کی خطا اس پر بڑی بے رحمی سے حملہ آور ہوئی تھی۔آج وہ خود اپنا حال بتا رہا تھا مگر صاف ظاہر تھا کہ گولے اس کے حلق میں اٹک رہے ہیں۔

اس نے خود اپنے منہ سے علاقے کےسیاسی و سماجی رہنما سے کہا کہ میری ویڈیو بنا کر جاری کریں تاکہ لوگوں کے لیے میری غفلت عبرت بن جائے۔

روتے روتے کہا :” دیکھیں میرا حال ، نہ میں کھا سکتا ہوں نہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مل کر زندگی کا لطف لے سکتا ہوں۔ تکلیف کی شدت اتنی ہے کہ ساری ساری رات جاگتے اور روتے ہوئے گزر جاتی ہے۔

کوئی ہے جو اس مافیا کو لگام دے؟
کوئی ہے جو ہمارا حساب کرے؟
کوئی ہے جو اس گورکھ دھندے کو روکے؟

نہیں کوئی نہیں ہے ، حرام کاروبار سے حرام کما کر اپنی بلڈنگیں کھڑی کر کے یہ سب محفوظ ہیں۔
دنیا میں اپنے بچوں کو آرام دہ زندگی دے کر سکون میں ہیں ، مزے کر رہے ہیں۔
چین کی بنسی بجا رہے ہیں۔

مگر ہمارے بیوی بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں کہ اب ہم تو کما کر بھی نہیں لاسکتے۔
آپ کو اپنی حفاظت خود کرنی ہوگی خود کو بچانا ہوگا اس گورکھ دھندا کرنے والے شکاریوں سے۔

اس نے گزارش کی ہے حکام سے کہ وہ ایسے تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کریں جو انسانیت کے قاتل ہیں۔
کتنے ہی جوان ان کے بیچے گئے زہر سے مر گئے۔
کتنی ہی مائوں کی گود اجڑ گئیں۔
کتنے ہی بچے یتیم ہوگئے۔
اور کتنے ہی خاندان ہیں جو متاثرین میں شامل ہیں۔

کتنے ہی بچے ہیں جو باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیم ہیں کہ زندگی کی خوشیوں سے محروم ہیں ان کے لیے کھلونے لانے والا باپ ایک ایسی بیماری کا شکار ہوچکا ہے جو اپنے پنجے گاڑ دے تو زندہ بھی کسی کام کا نہیں رہتا۔

اور وہ عورت جو ابھی عمر کے اس حصے میں ہے جس میں رنگوں اور سپنوں کی دنیا ساتھ ساتھ چلتی ہے ، آج کسی بیوہ کی مانند زندگی گزار رہی ہے۔
وہ جو آج گٹکا اور ماوا جیسے ناسور کا شکار ہو کر ناسور اپنے منہ میں لیے بیٹھا ہے منہ کے کینسر میں مبتلا ہے۔

لانڈھی کا یہ رہائشی علاقے کے متعلقہ حکام سے مخاطب ہے ،
ان سے درخواست کر رہا ہے کیا وہ اس کی درخواست سنیں گے؟ اور سن کر کچھ کریں گے؟ یا صم بکم خاموش تماشائی بن کر مداریوں کی کٹھ پتلی بنے رہیں گے۔

کہیں یہ ٹھیکے سرکاری تو نہیں، اگر نہیں سنیں گے تو روز قیامت کیا منہ دکھائیں گے؟ رب کو اور جنت کے پھولوں کی شکایت کے آگے کیا کہہ پائیں گے؟

کیا حساب دے پائیں گے؟ ان آنکھوں کا جو اس وقت ملگجے دوپٹے کے سوراخ سے جھانک رہی ہیں حالانکہ ان کے تو گوٹا کناری پہننے کے دن تھے۔

کیا جواب دے پائیں گے ؟ان بچیوں کے سوالوں کا جن کی پونیاں دودھ کی تھیلی کی ربڑ سے باندھ دی گئی ہیں جب کہ یہ تو رنگ برنگی بینڈز کی اہل تھیں۔
اگر یہ ٹھیکے سرکاری نہیں ہیں تو پھر کاہے کی پردہ داری؟
ان کے ساتھ اہلکاروں کی جانب داری نہیں ہے تو دیر کس بات کی ہے؟

اس نے اپنا نقصان کر لیا ہے ، اب پچھتا رہا ہے، آپ تو قوم کا نقصان نہ کیجیے کہ فطرت افراد سے اغماض کرتی ہے، ملت کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی۔ وطن عزیز کو افرادی قوت مہیا کیجیے نہ کہ قوم کو اپاہج بنتا دیکھتے رہیے۔

قوم کی بیٹی آپ سے فریاد کرتی ہے کہ اس کے پاکستان کو سنہرا بنادیں جس کے خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھے تھے اور جس کی کہانیوں سے ہماری آنکھیں روشن ہیں ۔

خدارا یہ گھر گھر مرثیوں کی اور نوحوں کی جو آوازیں ہیں انھیں سر سنگیت میں بدل ڈالیے کہ ہر درد مند دل رکھنے والے پاکستانی کی یہی دعا ہے کہ
جگ جگ جیے میرا پیارا وطن


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “لمحے کی خطا بنی ناسور‎”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    حکومتوں کی نا اہلی بجا ھے لیکن خدا کے لئے ہر شخص کے اپنے کردار اور غلط فیصلوں کے لئے حکومتوں کو مورد الزام نہ ٹھرائیں۔ حکومت خواہ کتنی بھی سختی کرے گی یہ بدعتیں موجود رہیں گی ۔ انسان کو خود اپنے کردار کو مضبوط اور سوچ کو پختہ بنانا ھوگا۔