سعدیہ ارشد ………
مرد دنیا کی انتہائی مظلوم ترین ہستی ہے۔ ارے! ارے!! رکیں!!! یہ سچ کہہ رہی ہوں میں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے یہ الفاظ کوئی خاتون کیسےکہہ سکتی ہے کیونکہ عورت کی نگاہ میں تو مرد سراسر ظالم اور جابر قسم کی مخلوقہوتا ہے، مرد ایسا حاکم ہوتا ہے جوعورت پر زیادہ ترظلم ہی کرتا ہے۔ ویسے آپ کو ایک راز کی بات بتاﺅں کہ پہلے میری بھی یہی سوچ تھی مگر وقت نے میری سوچ بدل کر رکھ دی۔ یہ سوچ کیسے بدلی؟ اس کے پیچھے جدید ٹیکنالوجی کا ہاتھ ہے جس کے استعمال نے ہم سب کی زندگیوں میں راحت سی بھر دی ہے۔ ارے! میں کسی جنگی ہتھیار قسم کی ٹیکنالوجی کی بات نہیں کررہی ہوں، ویسے یہ بھی کسی جنگی ہتھیار سے کم نہیں ہے، یہ ہے جدید ٹیکنالوجی کا ایک شاہکار اور اسے کہتے ہیں فیس بک۔
جی ہاں! جب میں نے فیس بک کا استعمال شروع کیا تو مجھے پتہ چلا کہ اس کا استعمال زیادہ تر یہی مظلوم مرد طبقہ کرتا ہے، بعض بیچارے تو اس قدر مظلوم ہوتے ہیں کہ اپنی جنس ہی تبدیل کرلیتے ہیں۔ شاید انھیں ڈر ہوتاہے کہ یہاں بھی مرد بنے تو مزید ظلم کا نشانہ بننا پڑے گا۔ میری سوچ کیسے بدلی؟ اس کا سبب چند واقعات ہیں۔ فیس بک استعمال کرنے والے جانتے ہیں کہ اس میں ایک آپشن ہوتاہے فرینڈشپ ریکوئسٹ کا، اس سے ایک دوسرے سے رشتہ ناتا بنتاہے۔ جیسے ہی میں نے فیس بک کی دنیا میں قدم رکھا، بہت سے لوگوں نے اسی فرینڈشپ ریکوئسٹ کا آپشن استعمال کرتے ہوئے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ ان میں سے ایک ہمارے قریبی جان پہچان کے فرد بھی شامل تھے، میں نے انھیں جان پہچان کا سمجھ کر درخواست کو منظور کرلیا۔ ظاہر ہے کہ یہ درخواست فیس بک دوستی ہی کی ہوتی ہے مگر کچھ لوگ اسے رشتہ سمجھ لیتے ہیں اور مزید بات کہی جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ درخواست نکاح کا کوئی پیغام ہوتاہے جو قبول ہوجاتاہے۔ ان صاحب سے سلام دعا ہوئی، وہ خیر سے شادی شدہ اور پانچ بچوں کے اباجان تھے، ہمارا ان کے ہاں زیادہ آناجانا نہیں تھا مگر میری ان کی اہلیہ سے اچھی خاصی دوستی تھی، یہ بھی فیس بک کی بدولت ہی قائم ہوئی تھی۔
مذکورہ بالا صاحب نے آہستہ آہستہ سلام دعا سے آگے بات بڑھانا شروع کردی اور بہانے بہانے سے اپنی بیوی کے ظالم ہونے کے قصے سنانے لگے کہ ’بات بات پر شور کرتی ہیں، میں زیادہ بولتا نہیں ہوں، وہ میری عزت نہیں کرتی نہ ہی میرے ماں باپ کی حالانکہ میں انھیں روزانہ اچھا خاصا جیب خرچ دیتاہوں‘۔ مجھے بے انتہا حیرت ہوئی کہ ان کی اہلیہ کو میں بھی جانتی ہوں، ان سے بہت لمبی چوڑی گپ شپ بھی ہوتی ہے، وہ ایسی لگتی تو نہیں جیسے یہ صاحب بتارہے ہیں۔بہرحال ممکن ہے کہ ایسا ہو کیونکہ قبرکا حال مردہ ہی جانتاہے۔ یہ سوچ کر میں خاموش ہوگئی۔ اسی طرح وہ صاحب بیوی کے ظلم و زیادتی کے قصے سناتے رہے، اب میں ان سے کیا کہتی کہ بس! بہت ہوگیا، چپ ہوجاﺅ۔ پھر ایک دن وہ ان فیس بک فرینڈ نے ظلم کی ایسی داستان سنائی کہ میرا بھی سرچکرانے لگا۔کہنے لگے:” آج میری طبعیت خراب تھی، میں نے کہا کہ میں کام(ملازمت) پر نہیں جاسکتا تو اس نے مجھے بہت سنائیں، یوں میں مجبوراً کام پرآگیا اوراب چکر آرہے ہیں“۔انھوں نے ایسی ہی کچھ مزید باتیں بھی سنائیں،میں نے ازراہ ہمدردی کہہ دیا کہ یہ بہت غلط بات ہے، تو وہ روتی ہوئی شکل والے ’ایموجی‘ بھیجنے لگے۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان کی بیگم سے بات کروں، یہ سوچ کر ان کی ساری باتوں کے سکرین شارٹس لئے اور ان کی بیگم کو فون کیا کہ ذرا ! فیس بک پر آنا، ایک ضروری چیز دکھانی ہے، وہ فوراً ان باکس میں پہنچ گئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے شوہر کے ساتھ کتنا غلط سلوک کرتی ہیں اور پھر وہ سارے سکرین شارٹس انھیں دکھادئیے۔ دوسرے دن پتہ چلا کہ وہ صاحب تین، چار دن ہسپتال میں رہ کر آئے ہیں اور مجھے بلاک کر دیا، ممکن ہے کہ انھوں نے اپنی طرف سے مجھے ’بلاک‘ کے بجائے ’ہلاک‘ ہی کردیا ہو۔
اسی طرح ایک اور صاحب تھے، وہ سمجھے کہ ہم لوگ گنگو تیلی ہیں۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے بھی اپنی کہانی شروع کی، ممکن ہے کہ آپ ان کی رام کہانی سننے کے لئے بے تاب ہوں مگر ذرا توقف فرمائیں، یہاں کہانی میں ٹوئسٹ ہے، یہاں ظالم بیوی نہیں ہے بلکہ بیوی ہی کی ایک رشتہ دار ہیں، یعنی رفیقہ حیات کی اماں جان، جنھیں خوش دامن بھی کہاجاتاہے۔ ان صاحب کی کہانی پڑھنے سے پہلے ایک لطیفہ پڑھ لیجئے۔ ایک دفعہ ایک شوہر نے اپنی بیوی سے لڑائی کی، خوب زورو شور کا جھگڑا ہوا۔ بیوی نے غصے میں سامان باندھا کہ میں اپنی ماں کے گھر جا رہی ہوں۔ ساتھ ہی اپنی ماں کو فون کردیاکہ امی! میرا منے کے ابا سے جھگڑا ہوگیا ہے، میں ایک مہینے کے لیے آ رہی ہوں، اس کی ماں نے کہا: نہیں بیٹی! ایسے مت کرو اس کو سزا دو اور اسے بتاﺅ کہ میری امی یہاں چھ ماہ کے لیے آ رہی ہیں۔ ان حضرت کے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ میری بیوی تو بہت اچھی ہے مگر اسے بہکانے والی میری ساس ہیں، آئے روز اپنی بیٹی کو بہکاتی ہیں اور ہر روز ایک نئی کہانی، میرا دل چاہتا ہے کہ میری بیوی ایک سمارٹ عورت ہو جو دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے والی ہو، جس سے میں اپنے دل کی ہر بات کہہ سکوں۔ میں نے کہا: آپ اپنی بیوی کو سمجھائیں کہ وہ اپنی امی کی نہ سنیں،آپ اس کے شوہرہیں۔ کہنے لگے:” آپ کو کیا معلوم، وہ میری ایک نہیں سنتیں“۔ میں نے پوچھاکہ کیا آپ کی بیوی فیس بک استعمال کرتی ہیں یا کوئی سالی یا آپ کی بیوی کا کوئی بھائی؟ کہنے لگے:” نہیں، ان کے ابو ہی فیس بک استعمال کرتے ہیں۔“ میں نے کہا:” ان کی کیا آئی ڈی ہے؟ ان بھولے بھائی صاحب نے مجھے اپنے سسر کی آئی ڈی فراہم کردی۔ میں نے ان صاحب کی باتوں کے سکرین شارٹ لیے اور ان کے سسر سے کہا: ”انکل ! اپنی بیوی کو سمجھائیں، اپنی بیٹی کا گھر نہ اجاڑیں“۔ آگے کا حال معلوم نہیں کیونکہ وہ صاحب اچانک غائب ہوگئے۔
ممکن ہے کہ اسی فیس بک دنیا میں موجود کچھ دوسرے اسی قسم کے مظلوم و مقہور شوہر میری یہ تحریر پڑھ کر مجھے ہی کوسنے دے رہے ہوں کہ بھلا کیا ضرورت تھیں سکرین شارٹس لینے اور بھیجنے کی۔ سوال یہ ہے کہ کوئی ظلم کا ہاتھ روکنے کی کوشش بھی نہ کرے؟ اس قدر بے حسی بھی اچھی نہیں ہوتی بھائی! میری دیگرتمام خواتین سے درخواست ہے کہ وہ بھی ایسے ہر بے چارے، مظلوم شوہرکو مزید ظلم سے بچائیں، ان کی ظالم بیویوں کا محاسبہ ہم خواتین نہیں کریں گی تو کون کرے گا، وہ اپنے شوہروں کی سنتی نہیں ہیں۔ ہاں! آخر میں ایک الجھن دور کرنے میں قارئین ہی میری مدد کریں کہ یہ مظلوم شوہر مجھے کیوں بلاک کردیتے ہیں، میں ان کی ظالم اہلیہ کو آئینہ ہی دکھاتی ہوں بس!