جماعت اسلامی پاکستان کی خواتین ریلی

جماعت اسلامی پاکستان : واحد نظریاتی جماعت ، واحد امید !

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عظمیٰ پروین :

رسولِ کریمﷺچونکہ خاتم النبیین ہیں لہذا آپ پردین کی تکميل کردی گئی ۔ کلامِ الٰہی کی علمی وضاحت کےساتھ ساتھ عملی تصویر بھی دکھادی گئی۔ ان تعلیمات کے مطابق ایک الٰہی نظام عملاً قائم کرکے ہر طرح کے شک،تذبذب اور بےراہروی کا دروازہ بند کردیا گیا۔

برصغیر پاک وہند میں بسنے والے کچھ صالح افراد نے آج سے 79 سال قبل سیدابوالاعلیٰ مودودی کی راہنمائی میں جماعتِ اسلامی کی بناڈالی جس کا مقصد اسلام کے مکمل ضابطہ حیات کوانسانی زندگی میں جاری کرنا ہے تاکہ مخلوقِ خدا ایک بارپھر بندوں کی غلامی سے نکل کر اپنے ربِ حقیقی کی کامل بندگی بجا لانے کے قابل ہو۔ ہرطرح کی وفاداریوں،مجبوریوں اورمفادات کو پسِ پشت ڈال کراپنے رب ہی کے حکم کردہ صراطِ مستقیم کواپناکر دنیا وآخرت کی فلاح سے ہمکنار ہو۔

مسلمانوں کی محیرالعقول کامیابیاں اسلام دشمن عناصر کے لیے شدید اذیت کاباعث بنیں، وہ بجاطور پراس راز کوپاگئے کہ اخوت واتحاد، جذبہ ءجہاد اور شوقِ شہادت ہی دراصل عروج کی وہ سیڑھی ہے جس نے مسلمانوں کو ناقابلِ شکست قوت بنادیاہے۔

یہ بات بھی ان سے پوشیدہ نہ تھی کہ کھلے کھلے کفر کی دعوت مسلمانوں کے لیے قطعی ناقابلِ التفات ہے لہذا انہوں نے دین کے چہرے کو بگاڑ کر اسلام کا وہ ایڈیشن تیارکرلیا جس میں ذاتی زندگی سے متعلق تعلیمات کوتو بڑھاچڑھا کر اہمیت دی گئی لیکن اجتماعی اصولوں کو ناقابلِ عمل اور قطعی غیراہم قرآر دیا گیا۔

بصیرت سے عاری مسلمان اور دشمنوں کے لیے قطعی بے ضرر دین ہی کو نجات کے لیے کافی سمجھ لیا گیا۔آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ زبانی اقرارِ ایمان ہی حیات اخروی کی نجات کی یقینی سند بن چکا ہے۔یہ سب قرآن سے دوری ہی کا نتیجہ ہے،اگر مسلمان قرآن سے جڑے رہتے تو اس شرمناک انجام سے ہرگز دوچار نہ ہوتے۔

جماعتِ اسلامی نے مسلمانوں کو قرآن مجید کی طرف رجوع کی دعوت دی اور لوگوں کو بتایا کہ اسلام سارے کا سارا قابلِ عمل اورذریعہ کامیابی ہے۔ یہاں زندگی کے ہر شعبے کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں۔ زندگی ذاتی ہو یااجتماعی،اخلاقی ہو یا معاشی، معاشرتی ہو یا سیاسی قرآن ہی مسلمانوں کے لیے قانونِ حیات ہے۔ قرآن کے جس گوشے کو بھی نظرانداز کیا جائے گا اللہ کا غضب ہم پر ٹوٹے گا اوردنیا وآخرت کی ذلت ہم پر برسے گی۔
یہی دراصل وہ گناہِ عظیم ہے جس کا خمیازہ آج ساری امت بھگت رہی ہے۔

جماعتِ اسلامی ملک کی واحد نظریاتی جماعت ہے۔ اسے وطنِ عزیز کی سب سے بڑھ کر جمہوری جماعت ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔ یہاں غریب سے غریب شخص بھی بہترین کارکردگی کی بناپر نمایاں مقام حاصل کرسکتا ہے۔افراط وتفریط سے جماعت کا دامن پاک ہے ۔ یہاں انسانی زندگی کے ہر شعبے کی اصلاح کو پیشِ نظررکھا جاتا ہے۔ دعوت، تنظیم ، تربیت ، خدمت اور سیاست سب کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔

بنگلہ دیش، انڈیا ، سری لنکا ، انڈونیشیا اوردیگر کٸ ممالک میں جماعتِ اسلامی اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی جدوجہد میں مشغول ہے۔ بہت سے ملکوں میں بانی جماعت کے لٹریچر کی راہنمائی میں خدمتِ دین کا فریضہ سرانجام پارہا ہے۔

جماعتِ اسلامی نے بےبس اور مفلس بہن بھائیوں کی مدد کے لیے الخدمت فائونڈیشن قائم کی جو مشکل کی ہر گھڑی میں عوامی خدمت کے لیے میدانِ عمل میں پیش پیش رہی۔ زلزلہ ہو یا سیلاب یاآج کے وبائی حالات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بےروز گاری اورافلاس،الخدمت فائونڈیشن نے ہمیشہ عوامی خدمت کا حق اداکردیا۔

جماعت اسلامی ہردور میں امت کے مظلوم طبقوں کی آواز بنی۔ کشمیریوں کی بےبسی، فلسطینیوں کے زخم ،
شام کی تباہی اور برما والوں کی زبوں حالی پر جماعت ہمیشہ سراپااحتجاج رہی۔ جتنی اور جیسی کچھ امداد ہوسکی جان پر کھیل کراپنے ان مظلوم بہن بھائیوں کو فراہم کی۔

نیب اور سپریم کورٹ نے جماعتِ اسلامی کو کرپشن فری جماعت قرار دیا۔ ملک کے اس سیاسی منظرنامے میں جہاں ہر ایم این اے اورہر ایم پی اے عوام کو دھوکادیتا اوراپنی تجوریاں بھرتا دکھائی دیتا ہے، جماعت اسلامی کے راہنماٶں کے دامن پر کسی دھبے کی نشاندہی نہیں کی جا سکی۔ گویا کہ یہ خوبصورت موتیوں کی چھوٹی سی مالا ہے جو کوڑے کے ڈھیرپربھی اپنی چمک دمک قائم رکھنے میں کامیاب ہے۔ایسی بےداغ سیاست کی مثال قائدِاعظم کے بعد ملکی تاریخ میں مفقود ہے۔

سیاست کے متعلق ہمارا مٶقف بالکل واضح اوردوٹوک ہے،جتنا اسلام سیاسی ہے اسی قدر ہم بھی سیاست کو اہمیت دیں گے۔ لہذا قرآن وسنت کے نفاذ کی خاطر ہی ہمیشہ انتخابات میں حصہ کیا جاتا ہے،جو چند نمائندے ایوانِ بالا تک رسائی حاصل کرپاتے ہیں وہی دراصل غیراسلامی قوانین کی منظوری کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔عوام کو اندھیرے میں رکھ کر بہت سے غیراسلامی قوانین اسمبلیوں میں پیش کیے جاتے ہیں لیکن جماعت سارے پردے فاش کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دجالی میڈیااوراباحیت پسند طبقہ ہم سے اکثر نالاں ہی رہتا ہے۔

قوم کا نوے فیصد طبقہ بفضلِ ربی آج بھی اسلام پسندہے۔ معصیتوں اورکوتاہیوں کے باوجود لوگوں کاایمان ہے کہ اسلام ہی فلاح کی راہ دکھاتا ہے لیکن دس فیصد لوگ خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا کر لذت پرستی اور عیاشی ہی کو سب سے بڑی خوش بختی سمجھ رہے ہیں اور پوری قوم کو اسی ہولناک جہنم کی طرف لے جانے میں اپنا سرمایہ وقت اور محنتیں صرف کررہے ہیں۔

یہی لوگ دراصل بیرونِ ملک اسلام دشمن عناصر کے آلہ کارہیں، قومی وسائل پرقابض ہیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر پوری طرح چھا چکے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو انہی کے ترتیب کردہ نصابِ تعلیم پڑھائے جاتے ہیں۔انہی کے بنائے ہوئے فحش پروگرام آج گھر گھر نشر کیے جارہے ہیں۔یہی طبقہ امت کے زوال کا سب سی بڑا سبب ہے۔

اسلامی نظام کا ظہور ہی عوام کی سب سے بڑی فتح ہے۔آج یہی بات زبان زدِعام ہے کہ جماعت کی کامیابی کا تو کوئی چانس ہی نہیں۔ ہماراایمان ہے کہ ہرطرح کے معاملات اللہ تعالٰی ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ وہی قادرِمطلق جس نے فرعون کوڈبو کر بنی اسرائیل کے عروج کا دروازہ کھولا،حضرت یوسف کوزنداں کے تنگ وتاریک گوشوں سے نکال کر تختِ شاہی پر متمکن کردیا،مکے کے ظالم اور متکبر سرداروں کو بدر کے میدان میں کھیت کردیا وہ یقیناً ہماری مدد پر بھی پوری طرح قادرہے ۔

رب نے جب مصر کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کیا تو بادشاہ کے دل کو ایمان کی طرف مائل کردیا۔ دل تو آج بھی ربِ عظیم کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، جدھر چاہے انھیں موڑدے لیکن اللہ تعالیٰ رحیم وودود ہونے کے ساتھ ساتھ عادل وحکیم بھی ہے ،فتح کے دروازے تب ہی کھولتا ہے جب بندے وفاشعاری کا حق ادا کردیتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب اللہ کے حضوراپنے گناہوں کی توبہ کریں،حرام آمدنیوں کو خیرباد کہیں،آئیندہ زندگی اطاعتِ الٰہی میں گزارنے کا عزمِ صمیم کریں۔ اللہ کی خاطر حق کی حمایت کرنے والوں کے قوتِ بازو بن کر انسانیت کے نجات دہندوں میں شامل ہو جائیں !


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں