سید امجد حسین بخاری :
آج آپ کو کشمیر کے ہر گھر کے سب سے پسندیدہ اور ثقافتی مرکب سے متعارف کراتا ہوں ۔ اسے چائے اور باقرخانی کہا جاتا ہے۔ یہ ہر کشمیری گھر میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک پیالے میں چائے ڈالی جاتی ہے، جس میں باقرخانی کو توڑ کر ڈالا جاتا ہے۔ باقرخانی چائے میں مکس ہوجاتی ہے ، جس کے بعد اسے چمچ کے ساتھ کھایا جاتا ہے ، لیکن اس مرکب کو انگلی کے ساتھ کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔
چائے اور کشمیری کلچہ بھی اسی طرح کھایا جاتا ہے۔ کشمیر میں مہمان کو کھانے سے قبل چائے اور باقرخانی یا کلچہ لازمی کھلایا جاتا ہے۔
باقرخانی ماضی میں صرف کشمیر میں ہی تیار کی جاتی تھی مگر اب تقریباً پاکستان بھر کی تمام بیکریز پر باقرخانی دستیاب ہے۔ چائے کا لطف دوبالا کرنے کیلئے اس میں کلچہ یا باقرخانی ڈال کر کھائیں ۔ مزا نہ آئے تو پیسے واپس۔
اگر آپ کو کسی شخص کے بارے میں شک ہوکہ وہ کشمیری نہیں ہے تو اس کے سامنے چائے اور باقرخانی رکھیں اگر وہ باقرخانی توڑ کر چائے میں ڈالے تو یقین کریں وہ سو فیصد کشمیری ہے ، لیکن ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ آپ کو جتنا بھی یقین دلائے وہ کشمیری نہیں ہوسکتا۔
یاد رکھیں ! چائے باقرخانی کا بھرپور مزہ صرف پیالوں میں چائے ڈالی کر ہی آتا ہے۔ چلیں جناب پھر چائے باقرخانی کھائی اور راقم کو دعائیں دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
پرندے ، آسمان ، موسم اور تہذیب کے کھلے پنکھ ہی انسانیت کی بقا کے ضامن ہیں ۔ کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے ۔ کشمیر کی تہذیب میں دنیا کی کئی تہذیبوں کا اثر پایا جاتا ہے، کھانوں میں ایران سے وسط ایشیاء کا اثر، پہناوے شرق و غرب کا امتزاج ، رہن سہن اور بود و باش چین و پنجاب کے قریب قریب ہیں، زبان میں فارسی کی ملاوٹ ہے ۔ بہرحال کشمیر کے موسم سب سے جدا ہے ۔
شاعروں کا تخیلاتی ساون کشمیر ہی میں ملتا ہے ، افسانوں میں شام کا منظر کشمیر کی پہاڑیوں کی اوٹ میں ڈوبتا سورج دیکھ کر ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ کشمیر میں عموماً تعلیمی اداروں میں موسم گرما کی بجائے سردیوں میں تعطیلات ہوتی ہے ، اس لئے بچے گرمیوں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
ساون کی ابتدا ہی میں بادل کشمیر کی وادیوں پر سایہ کرلیتے ہیں ، اجلے اجلے سفید بادل آسمان سے اتر کر گھروں کے اندر بھی گھس جاتے ہیں ، اس دوران حد نگاہ انتہائی کم ہوجاتی ہے ، ایک دوسرے کو دیکھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
سکولوں سے واپسی کے وقت بچے ہمیشہ دعا کرتے ہیں کہ بارش ہوجائے تاکہ گھر تاخیر سے پہنچنے کا ذمہ دار بارش کو ٹھہرایا جاسکے۔ اسی طرح علی الصبح پگڈنڈیوں سے چلتے ہوئے سکول جانا بھی انتہائی روح پرور نظارہ ہوتا ہے، ساون میں طلبہ و طالبات تختی لکھنے سے جان چھڑا لیتے ہیں، ساون سے کئی یادیں وابستہ ہیں، جو طوالت کے باعث شئیر نہیں کی جاسکتیں، بہرحال جس نے ساون کی برسات اور موسم سے لطف اٹھانا ہے تو اسے بستر اٹھا کرکشمیر پہنچ جانا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔
کچن کارڈننگ ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے ، خاص کر شہروں میں گھر میں سبزیاں کاشت کرکے کچن کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں ، کشمیر کا بیشتر علاقہ پہاڑی ہے ، جہاں کھیت پنجاب کی نسبت چھوٹے ہوتے ہیں ، دیہاتوں میں خواتین گھر کے اطراف چھوٹی چھوٹی کیاریاں بناتی ہیں جن میں مختلف اقسام کی سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں ۔
کشمیر میں عموماً ٹماٹر، مرچ ، پیاز ، لہسن ، کھیرا، کدو ، لوکی ، پالک، چقندر ، لوبیا اور بھنڈی کاشت کی جاتی ہے۔
ضلع حویلی کی لوبیا، کدو ، لوکی اور کھیرا ، ڈنہ کچیلی کے ٹماٹر، ضلع پونچھ میں بھنڈی، عباس پور کی مرچ جبکہ مقبوضہ وادی کے بیشتر علاقوں میں آلو اور پیاز بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے، گلگت بلتستان کے آلو پنجاب کی اکثر منڈیوں میں فروخت کئے جاتے ہیں ،
اس وقت پاکستان بالخصوص پنجاب کے محکمہ زراعت کو کشمیر میں کچن گارڈننگ کی مقبولیت سے سیکھنا ہوگا ، شہروں میں کچن گارڈننگ کا فروغ خوراک کی کمی کو پورا کرنے کیلئے لازمی ہے۔