محمد فیصل شہزاد :
ایک گروپ میں ایک بھائی نے اپنا مرثیہ لکھا کہ انٹر پاس ہوں اور عرصہ دس سال سے دوشیزہ ڈائجسٹ میں چھپ رہا ہوں، مگر چھولے بیچنے پر مجبور ہوں۔ یہاں تو ٹیلنٹ کی کوئی قدر ہی نہیں۔
پوسٹ پر جیسا کہ توقع تھی، بیسیوں روتے کرلاتے، ہائے وائے کرتے، قسمت اور معاشرے کو کوستے تبصرے رینگنے لگے۔
ہم صاحب پوسٹ سے قدرے بے تکلف تھے، چھیڑچھاڑ اکثر چلتی رہتی ہے، سو بے تکلفی سے درج ذیل تبصرہ لکھ گئے:
’’تو پیارے! کیا انٹر کی واجبی غیر تکنیکی تعلیم کے بعد آپ یہ سوچے بیٹھے تھے کہ ناسا اپنے اگلے پروگرام میں آپ کو خلا میں بھیجے گا؟
یا آپ دوشیزاؤں کے ناگفتنی قصے لکھ لکھ کے ادب کا نوبل پرائز حاصل کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے؟
بھائی! چھولے بیچنا کم تر کیسے ہو گیا؟
اور اس کے ساتھ لکھنے کی صلاحیت اور انٹر کی ڈگری کا جوڑ کیسے بےجوڑ ہو گیا؟
یہ میٹرک انٹرکی کمرشل نصابی واجبی سی پڑھائی کے بعد زیادہ سے زیادہ کلرکی کرکے بابو بن بیٹھنا ہی آپ کے نزدیک کامیابی کی معراج کیسے ہے؟
اورچھولے بیچ کر یا کسی اور طرح حلال کام کر نے سے آپ کے ساتھ ظلم کیسے ہونے لگا؟
ہاں آپ نے فنون یا علوم میں سے کسی میں اعلیٰ قابلیت حاصل کی ہو تو ہم یہ ضرور کہیں گے کہ چھولے بیچ کر حلال کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی قابلیت کو ملک و ملت کے لیے استعمال کرنے کی کوئی راہ بھی تلاش ضرور کیجیے۔‘‘
حضرت تو ہمارے اس تبصرے سے مگر بہت زیادہ ناراض ہو گئے۔
اگرچہ ہم نے پھر معذرت بھی کرلی، مگر طنز کرنے لگے کہ آپ تو گھر سے بابو بن کر نکلے اور مدیر بن صاف ستھرے کمرے میں جا بیٹھ گئے۔ یہ اتفاق سے ملنے والے مواقع ہیں جو آپ کو مل گئے، ہمیں نہ ملے۔ ہاں کبھی چھولے بیچے ہوں تو پتہ بھی چلے۔
ہم نے جواب دیا:
” چندا! ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بھی سڑک سے اٹھ کر کسی بھی تکنیکی شعبے میں جا بیٹھے اور عرصہ دراز تک اس کی نااہلیت کا پول نہ کھلے۔ بھیا! ایک ہی دن میں سب پول کھل جاتا ہے۔
پھر دوسروں کے حال کو دیکھ کر اپنی قسمت سے شاکی ہوجانا کہ انھیں تو گھر بیٹھے مواقع مل گئے، ہمارے ساتھ قدرت نے انصاف نہیں کیا، خود ترسی پر مبنی بہت ہی غلط سوچ ہے۔ استثنا تو ہر جگہ ہوتا ہے، مگر قانون قدرت بہرحال یہی ہے کہ اپنے حصے کی مشقت اور جدوجہد سب پہلے برداشت کرتے ہیں، پھر قدرت مہربان ہوتی ہے تو اپنے حصے کے پھل بھی کھاتے ہیں۔
آج آپ کو کسی کا بڑی سی میز سجا کر بیٹھنا تو دکھائی دیتا ہے مگراس کے پیچھے برسوں کی محنت آپ کی نظر سے پوشیدہ رہتی ہے۔
آپ نے طنز کیا ہے تو چلیے آج صرف آپ کی تشفی کے لیے پہلی بار اپنے کیے کچھ کام ذیل میں لکھتے ہیں، جن کے کرنے میں کوئی شرم رہی اور نہ ہی آج بتانے میں کوئی نفسیاتی مسئلہ مانع ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کے احساس کمتری کا کچھ مداوا ہو جائے۔
تو بھیا!
٭ گرچہ میں نے چھولے نہیں بیچے، مگر سات سال کی عمر میں اسکول سے آکر تھال میں ابلی ہوئی شکرقندی رکھ کر ضرور گلیوں میں گھوم پھر کر بیچی ہے۔
٭ میں نے ابو کے ٹھیلےسے بن کباب لے کر سینما میں انٹرول کے موقع پر دروازے پر آوازے لگا کر بیچے ہیں۔
٭ میں نے میڈیکل اسٹور کا کام سیکھا ہے اور باٹا کی دکان پر مزدوری بھی کی ہے۔
٭ چائلڈ لیبر کے طور پراپنوں کے گھروں میں برتن مانجھے اور ڈانٹ پھٹکار برداشت کی ہے۔ (اور بلاشبہ یہی ایک سب سے بدترین اور ہولناک تجربہ رہا)
٭ ڈیڑھ سال تک ایک فیکٹری میں ٹرک لوڈ ان لوڈ کیا ہے۔ میڈیکل کمپنی میں بوتلیں تیزاب سے دھوئیں، مشینیں چلائیں اور کھانے کے وقفے میں تین روپے گھنٹہ اوورٹائم پر جھاڑو پونچھا تک کیا ہے۔
٭ دو سال تک ایک ماچس فیکٹری میں اسٹور کیپری کی ہے۔
٭ پان کے کیبن پر بھی کھڑا ہوا ہوں۔
٭ پھلوں (کھجور اور فالسے وغیرہ) کی بین الصوبائی تجارت بھی کی ۔
٭ گفٹ سنٹر کی اپنی دکان کئی سال چلائی۔
٭ کنفکشنری کا کام بھی کیا اور اس کی مارکیٹنگ کے لیے پورے پاکستان کی مارکیٹ کی خاک چھانی اور ہوٹل گردی کی۔
٭ عید پر اسٹال بھی لگایا ہے۔
بے شک درج بالا کاموں کے ساتھ ہمارے موجودہ کام کا جوڑ واقعی نہیں ہے، مگر یہ بھی ایسے ہی نہیں ہوگیا۔ اس کے پیچھے بھی ایک پوری کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔
قصہ مختصر
2005 میں اچانک فیلڈ بدلی اور کئی میگزینز میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔
عین ادارت کے وقت بھی یہ حال رہا کہ ڈیوٹی سے واپسی میں جیب میں پریس کارڈ ہے اور رات گئے تک ٹوٹی ہوئی سائیکل پردکانوں پر ٹافیاں پاپڑ سپلائی کرتے تھے۔
کھجور املی کی چٹنی بنا کر بھی انہی دنوں بیچی اوراہلیہ کے ساتھ مل کر گھر پر دودھ کی بوتلیں بھی بنائیں۔ ان دنوں (2008) میں محض پانچ روپے کرایہ نہ ہونے کی بنا پراکثر کام والی جگہ سے گھر تک چار کلومیٹر تک پیدل آتا رہا ہوں۔
یوں پورے ملک کی خاک چھاننے کے بعد کہیں جا کر بقول آپ کے، آج صاف ستھرے کمرے میں بیٹھا ہوں۔
اور ہاں، درج بالا فہرست میں صرف وہ چنیدہ کام ہیں جن میں کم ازکم چھے ماہ سے دو سال لگائے ہیں۔ ورنہ بیسیوں چھوٹے موٹے کام جو چند ماہ کیے اور دربدر پھرے، وہ تو لکھے ہی نہیں جا سکتے۔
آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی نوکری ایک فیکٹری میں ڈیڑھ سو روپیہ ہفتے میں کی، جس میں سے صرف دس روپے (تنخواہ ملنے والے دن) ایک گلاس فالودہ اور ایک پیالہ حلیم کی عیاشی ہم کرتے تھے، باقی 140 روپے میں گھر کا اوپری سودا سلف آجاتا۔
تو دوست! بات بس یہ ہے کہ قدرت سے شکوہ کرنے اور دوسروں کو حسرت سے دیکھنے کی بجائے مسلسل محنت اور دعاؤں میں لگنا چاہیے۔ موجودہ پرشکر، آئندہ کے لیے دعا اور مسلسل محنت کیے جانے سے ممکن ہی نہیں کہ آپ کو آپ کے حصے کے پھل نہ ملیں۔
اور بظاہر آپ کو کوئی لگے کہ کسی شخص کو محض قسمت سے مواقع مل گئے اور وہ جا کر ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ گیا تو یاد رکھیے کہ ایسا عموما ہوتا نہیں ہے۔ سب کو اپنے حصے کی مشقتیں کرنی اور جوتیاں گھسنی ہوتی ہیں، تب جا کر ہی کہیں کچھ ملتا ہے،
اور الحمدللہ ملا بھی…
مال بھی بہت کہ بلاشبہ لاکھوں آئے، لاکھوں ہی خرچ کیے
اور عزت اور محبتیں تو اتنی… کہ دامن چھوٹا پڑ گیا۔
بے شک خداند کریم کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا…!