نجمہ ثاقب :
یہ کون لوگ ہیں ؟ کدھر کو جاتے ہیں ؟ جبکہ ان کی جبینوں کا نور ان کی پیشانیوں سے ڈھلکا جاتا ہے۔
یہ مہر و ماہ کی ٹکڑیاں جُڑے خاک بسر وجود کس کے ہیں ؟
کہ جن پر خوشبو یوں لپکتی ہے گویا بدن صندل کے برادے سے گندھے ہوں اور نقشین اطلس و دیبا سے انھیں سنوارا گیا ہو۔
شاخ وقت سے اُترے یہ پتی پتی بکھرے گلاب کیسے ہیں ؟ جن کی ہر ہر پنکھڑی پر تتلیوں نے وفا کی وہ ان کہی داستانیں کاڑھی ہیں جنھیں کہنے کی نطق کو تاب نہیں۔
یہ صدیوں پُرانے وہ ان چھوئے نوشتے ہیں جنھیں تاریخ کی کہنہ دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ جن پر اپنوں کی اجنبیت، بے گانگی اور بے حسی کی دبیز تہہ جم گئی ہے اور جنھیں اب صرف اہلِ دل ہی پڑھ سکتے ہیں۔
احسن عزیز نے دمِ رخصت دنیا کو کس زور سے ٹھوکر رسید کی ہو گی؟ عذرا کی پلکوں پر ہمیشگی کے خواب کس شدت سے لرزے ہوں گے؟ احسن کے بدن سے خوشبو کی پھریری کیسے گزری ہو گی؟
اور عذرا کے لبوں پر ناز کی کا خرام کیا ہو گا؟
میں کیا جانوں ؟
میں جو بونوں کی بستی میں رہتی ہوں۔
اُس مقام کا ادراک کیسے پاؤں۔ جہاں فرشتوں کے بھی پَر جلتے ہیں۔ میرے ذہن کے دھندلے افق پر کچھ مناظر کھٹا کھٹ اُبھر رہے ہیں۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا اولڈ گرلز کیمپس ہے۔ کینٹین کے سامنے گڑے سنگی بنچوں پر ایک نوخیز لڑکی بیٹھی ہے۔ اُسے جامعہ میں آئے چند ہی دن ہوئے ہیں مگر یوں معلوم ہوتا ہے گویا وہ عرصہ سے یہاں آ رہی ہے۔ میں وہاں سے شاید کنی کترا کر گزر جانا چاہتی ہوں۔ مگر ایک آواز میرے قدموں کو زنجیر کرتی ہے۔
” نجمہ باجی! آج چھٹی کلاس کے بعد ہال میں درسِ قرآن ہے۔ آپ کو زہرا باجی نے بتایا تھا ناں ؟ “
” ہاں مجھے یاد ہے ۔“ مجھے کہنا پڑتا ہے۔
” باقی لوگوں کو بھی بتا دیجیے گا۔ “ گویا مجھے شرکت کا پابند بنایا جا رہا ہے۔
میں سر ہلا کر آگے بڑھ جاتی ہوں۔
پھر اگلا منظر اُبھرتا ہے۔
میں زہرا ترابی کے ساتھ اُس کی گاڑی میں لاہور سے واپس آتی ہوں۔ رات ہوسٹل میں جانے کے بجائے اس کے گھر واقع ۱۰/۱ میں ٹھہر جاتی ہوں۔ صبح عذرا مجھے بروقت جگاتی ہے۔
” جلدی تیار ہو جائیے ورنہ بس نکل جائے گی۔ “
میں اُس کے ہاتھوں کا بنا ناشتہ کرتی ہوں۔ وہ مجھ سے باتیں بھی کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ کمرے کی چیزیں بھی ٹھیک کرتی جاتی ہے۔
’’تم نہیں جاؤ گی؟‘‘ میں پوچھتی ہوں۔
” نہیں۔ امی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ زہرا باجی کو لے جائیے۔ میں گھر پر ٹھہر جاتی ہوں۔ “
پھر ایک اور منظر کھٹ سے سامنے آتا ہے۔
یہ ایک درمیانہ درجہ کا شادی ہال ہے۔ شام کا وقت ہے۔ پروفیسر الیف الدین ترابی کے بڑے بیٹے کی دعوت ولیمہ ہے۔ احباب جمع ہیں۔ یونیورسٹی سے عذرا اور زہرا کی مشترکہ سہیلیاں بھی مدعو ہیں۔ ماحول پر مجموعی طور پر سادگی کا تاثر ٹھہر گیا ہے۔
ہم ایک طرف بیٹھے آنے جانے والوں پر تبصرے کر رہے ہیں۔
”عذرا اور زہرا خدیجہ باجی کی نسبت زیادہ سادہ ہیں، “
کسی نے کہا تھا۔
” عائشہ کو بھی جیولری وغیرہ سے دیگر لڑکیوں کی طرح خاصی دلچسپی ہے۔“ قریب سے ایک اور آواز آتی ہے۔
عذرا مسکراتی ہوئی ہماری طرف آتی ہے۔
اپنے مخصوص انداز میں عینک ناک پر ٹکائے وہ ہم سے استفسار کر رہی ہے۔
’’آپ لوگ ٹھیک بیٹھے ہیں ناں ؟ کوئی مسئلہ تو نہیں ؟‘‘
اور یہ ایک آخری تصویر جیسے چوکھٹے پر ٹھہر گئی ہے۔
یونیورسٹی ہی کا سبزہ زار ہے۔ ہم جولیوں میں کھسر پھسر ہو رہی ہے۔
’’عذرا کی شادی ہے۔‘‘
’’ایں ! اتنی جلدی…؟ ابھی تو اس کا پہلا سال بھی مکمل نہیں ہوا۔‘‘
’’بھئی ابھی تو وہ بہت چھوٹی ہے۔‘‘ یہ میں نے زہرا سے کہا تھا۔
’’ہاں۔ مگر ابو نے ہم دونوں کے رشتے طے کر دیے ہیں۔ شادی بھی جلدی ہو گی۔ تم نے فلاں فلاں لڑکی کا عبایا دیکھا ہے ناں۔ ہم جہیز میں اُسی طرح کے عبایا سلوانا چاہتی ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
مگر میری توجہ زہرا سے زیادہ اُن بھنبھناہٹوں پر لگی ہوئی تھی جو عذرا کی خوش قسمتی کے تذکروں سے لتھڑی رشک کے جذبوں سے لبریز تھیں۔
’’عذرا کی شادی احسن عزیز سے ہو رہی ہے۔‘‘
’’احسن عزیز…؟؟‘‘
’’ہاں ہاں نوشابہ عزیز کا بھائی۔‘‘
’’ارے یہ وہی احسن عزیز تو نہیں جو نظمیں کہتا ہے؟‘‘
’’اچھا اچھا۔ میرے ایمان کے ساتھی والی دل پذیر نظم کا خالق احسن عزیز۔‘‘
’’بھئی اس کی کتاب ہم نے پڑھی تو تھی۔ کیا بھلا سا نام ہے۔‘‘
’’تمھارا مجھ سے وعدہ تھا۔‘‘
اور ہم میں سے سب سے زیادہ خوش الحان اکثر اونچی آواز میں گنگنایا کرتی تھی۔
مرے ایمان کے ساتھی!
تجھے تو یاد ہی ہو گا
کہ ہم نے مصحفِ قرآن میں سورہ دہر پڑھ پڑھ کر
اس بستی کے نقشوں کو ان آنکھوں سے تلاشا تھا
تمھی نے تو کہا تھا ہاں
کبھی سرما کی راتوں میں
محاذوں پر بھی جاؤ گے
تم اس جنت کے چشموں کو ان آنکھوں میں بساؤ گے
اندھیری رات جب آئے
تو سرمشعل بناؤ گے
پھر عذرا بی اے ادھورا چھوڑ کے چلی گئی اور سارے مناظر ایک ایک کر کے ساکت ہوتے گئے۔ ذہنی افق پر کٹے رابطوں، نادیدہ مصروفیتوں، زمینی دوریوں اور بشری بے حِسیوں کی گدلی گدلی دھُند چھاتی رہی اور میری زندگی کے پندرہ خوبصورت برسوں کو کھا گئی۔
دیوسائی کی سی اس ٹھنڈی دھند میں راستہ اس وقت بنا جب عید سے چوتھے روز میرے فون پر ایک پیغام روشنی کی لکیر بن کر جگمگا رہا تھا۔
’’عزیز بیٹی عذرا ترابی شہید اور عزیز بیٹے احسن عزیز شہید کی غائبانہ نمازِ جنازہ ۱۰/۱ کی مسجد سلمان فارسی میں بعد از نمازِ جمعہ ادا کی جائے گی۔ اللہ شہادت قبول فرمائے۔‘‘
اور میرا ہاتھ خودکار مشین کی طرح فون کے بٹنوں کو دباتا چلا گیا۔
عذرا کے والد، کشمیر المسلمہ کے ایڈیٹر پروفیسر الیف الدین ترابی… وہ بوڑھا شیر… جس کی زندگی کشمیر میں باطل سے نبرد آزما جہادی قوتوں کی آبیاری میں گزر گئی۔ جس کا ہاتھ جنگ کی مہیب بھٹیوں میں پھٹکے، جھلسے جوانوں کے سروں پر دستِ شفقت بنا رہا۔ جس نے اپنے قلم کی نوک سے اُن کی راہوں میں بِکھرے خار مغیلاں کو ایک ایک کر کے چُنا اور نتیجہ میں وہ سارے نوحے اپنے دلِ فگار میں اُتار کر کسی متاع کی طرح سمیٹے بیٹھا ہے جو کشمیر کاز کو سبوتاژ کرنے والوں کے گرسنہ عزائم اور اندھے مفادات سے عبارت ہیں۔
وہ اس وقت بیٹی کی قربانی پر حوصلہ کی سنگی چٹان بنا راہ گم کردہ لوگوں کے لیے ’’پہاڑی کاچراغ‘‘ ہے۔ جس کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی میں اب عذرا کے لہو کا دیا جلتا ہے۔
عذرا کی ماں … آج سے نہیں … سالہا سال سے دل کی مریضہ ہے۔ جس کا میکہ اس سے اُس وقت بچھڑا جب اس نے شوہر سے وفا کا رشتہ قائم رکھتے ہوئے خونی لکیر کو عبور کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں اُس کے خون کے سارے بندھن بیوہ کی آہوں کی طرح اُس سے آن ملنے کو کُرلاتے ہیں اور وہ جُدائی کی دہلیز پر کھڑی اپنی ساری یادوں کو کسی سوغات کی طرح باندھے آنے جانے والوں میں عذرا کا وہ آخری خط بانٹ رہی ہے جس میں اُس نے آزمائش پر صبر اور اللہ سے جڑے رہنے کی تاکید کے ساتھ چند دعائیں لکھ کر بھیجی ہیں۔ جو ہاتھ میں تسلی اور صبر کی لاٹھی تھماتی ہیں۔
اُسے وطن سے دور، گولہ بارود کی بدبو میں، خاک اُڑاتے مٹی کے بگولوں کے درمیان ماں کا خیال ہے۔ اُسے اس جدائی کا ملال نہیں جو اس نے اپنی مرضی سے اپنا مقصد کی ہے۔ ہاں ماں کا صبر اور اس کے نتیجہ میں ملنے والا ہمیشہ کا اجر اُسے یاد ہے۔
ماں کا خیال تو اس وقت سے اس کے لہو میں رچا تھا جب اُس نے ہوش کی آنکھوں سے پہلی مرتبہ اُس کا چہرہ دیکھا تھا۔
جب پہلی مرتبہ اس کا وجود ماں کی گرم گود میں ہُمکا تھا۔
بڑے بھائی بچپن میں کہتے:
’’چلو بھئی! کون کون آئس کریم کھانے چلے گا؟‘‘
سب جھٹ میں تیار ہو جاتے۔
اور عذرا کہتی۔
’’میں امی جان کے پاس رہتی ہوں۔ وہ اکیلی ہیں ناں۔‘‘
بہنیں اگلی مرتبہ پر کہتیں۔
’’اب ہم میں سے کوئی رُک جاتا ہے۔ اب کی بار تم چلی جاؤ۔‘‘
مگر وہ رکے رہنے پر مصر رہتی۔ امی کو اکیلا چھوڑنا اُسے منظور نہ تھا۔
پڑھائی کے دوران گھر کے کام کاج سے کبھی غافل نہ رہی کہ امی پر بوجھ نہ پڑے۔ بلکہ وہ تو اکثر دوسری بہنوں کے حصے کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا کرتی اور اکثر اپنی ضروری اسائنمنٹس اس چکر میں لیٹ کر دیتی۔
میں بارہا اس پر چِڑا کرتی تھی۔
’’پڑھائی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔‘‘
اور زہرا اس کی ڈھال بن کر کہتی۔
امی بیمار رہتی ہیں ناں۔ گھر میں بہت کام ہوتا ہے۔ مہمانوں کا آنا جانا اور ابو کا حلقۂ احباب۔ عذرا لگی ہی رہتی ہے۔ اُسے احسان کرنا مرغوب تھا۔ پھر یہ رغبت اُس کی عادت بن گئی۔ ایسی عادت جو مُنہ سے لگی چھٹتی نہیں۔ حتیٰ کہ شادی کے بعد اپنا جہیز سسرالی رشتہ داروں میں بطور تحفہ بانٹ دیا۔
ایک نند سے کہا۔
’’باجی! آپ یہ صوفہ لے لیجیے۔‘‘
دوسری سے کہا۔
’’یہ بیڈ آپ کا ہوا۔‘‘
کسی کو کچھ پکڑا دیا اور کسی کو کچھ اور۔
سب ششدر ہیں۔ حیران ہو ہو پوچھتے ہیں۔
’’ارے پاگلو! تم لوگ کہاں سوؤ گے؟ کہاں بیٹھو گے؟ کیا استعمال کرو گے؟‘‘
تو ہنس کے بولی۔
’’ہم نیچے سو جائیں گے۔ مجھے اور احسن کو زمین پر بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
پھر سب کچھ دے دلا کر، راہِ خدا میں لٹا کر اس اللہ کی بندی نے زمین بچھانی اور آسمان اوڑھنا شروع کر دیا۔
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لُٹا دے اسے
لُٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
شوہر نے اپنے لیے کانٹوں بھرا راستہ چنا تو اسے پھولوں کا بستر سمجھ کر اس کے ساتھ ساتھ چلی۔ اُن کی جوڑی دیکھ کر ’’الطیبات اللطیبین‘‘ ’’والطیبین للطیبات‘‘ کی عملی تفسیر سمجھ میں آتی ہے۔ سفر میں، حضر میں، گھر میں، ٹارچرسیل میں ہر جگہ اُس کا عملی تعاون احسن بھائی کے لیے خضرِ راہ رہا۔
احسن بھائی روزگار کے پھندوں سے آزاد، فنافی اللہ تھے۔ عذرا بھرے پُرے سسرال میں رہتی تھی۔ میکے آ کر کبھی کسی محرومی کسی تنگی کا کوئی شکوہ اُس کے لبوں پر نہیں آیا۔ اپنا سارا زیور خواہ میکہ تھا یا سسرال سے، شادی کے بعد جلد ہی راہِ خدا میں دے دیا۔ ماں نے ہلکی پھلکی چیزیں دوبارہ بنا کے دیں کہ ہر وقت پہنے رکھو، وہ بھی دے دیں۔ پھر ماں جیسی ساس نے ہلکا زیور بنوا کر دیا وہ بھی لُٹا دیا۔
دنیا سے بے رغبتی اور خدا پر بھروسہ کا یہ عالم کہ اس کم عمری میں شوہر کے لا پتا ہو جانے پر کسی نفسیاتی عارضہ کا شکار نہیں ہوئی، نہ ذہنی بے سکونی سے واسطہ پڑا۔ جب نادیدہ ہاتھوں نے احسن عزیز کو اُٹھایا تواس نے اپنا دل اللہ اور قرآن (جو اُس کے سینے میں بچپن سے محفوظ تھا) کے بعد اپنی ساس سے لگا لیا۔
وہ بوڑھی اور کمزور عورت ہڈیوں کے ٹیڑھے پن کی بیماری میں مبتلا ہو چکی تھی۔ اُن کی خدمت عذرا کا شعار بن گئی۔ وقت پر انھیں دھوپ میں بٹھانا، اُن کی مالش کرنا، اُن سے باتیں کرنا، اُن کی قلبی تشفی کرنا یہ سب عذرا کا معمول تھا۔
پھر اُن کی یادداشت چلی گئی اور وہ ہر بات بھولنے لگیں۔ ابھی عذرا سے دلیہ کی فرمائش کی ہے وہ بنا کے لائی تو بگڑنے لگیں۔
’’لو بھلا! اب میں ہر وقت دلیہ ہی کھاتی رہوں اور کچھ نہ کھاؤں ؟ مجھے تو حلوہ کھانا ہے۔‘‘
تو عذرا بغیر تیوری پر بل لائے حلوہ بنانے چل دیتی اور جب عذرا چلی گئی تو وہ اُسے یاد کرتی تھیں۔ آنے جانے والوں سے پوچھا کرتیں:
’’عذرا کب آئے گی؟ اُس نے تم سب سے بڑھ کر میری خدمت کی ہے۔ تم سب مل کر بھی اُس کی برابری نہیں کرسکتیں۔‘‘
حتیٰ کہ وہ احسن عزیز، جس نے اُن کی کوکھ سے جنم لیا تھا، وہ جو لیفٹیننٹ کمانڈر عبدالعزیز کے بڑھاپے کی لاٹھی اور آنکھوں کا نور تھا۔ وہ جو لفظوں کا کھلاڑی تھا۔ جس کا قلم ان ساری آرزوؤں کو لفظوں میں انڈیلا کرتا تھا جو اپنے رب کے دیدار سے عبارت تھیں اور اس کے چٹان سینہ میں ہمکتی رہتی تھیں۔
وہ صالح نوجوان جس کی رگوں میں اپنے خالق سے وفا لہو بن کر دوڑا کرتی تھی۔ جو قرآن کا قاری بن کے ابتلا کی بھٹی میں داخل ہوا اور حافظ بن کر لوٹا۔ اس سعادت مند بیٹے کو یادداشت کا بگاڑ فراموش کر بیٹھا۔ اُن کی یادداشت کی گٹھڑی کھنگالنے پر احسن کے نام کی مٹھی بھر سوغات بھی نہ نکلتی۔ مگر عذرا انھیں تب بھی یاد تھی۔ وہ عذرا جو کئی کئی ماہ بعد شوہر کی گھر آمد پر ساس کے کہنے پر، شوہر سمیت اپنی چارپائی ان کے کمرے میں بچھا لیتی کہ انھیں اس کی عادت ہو گئی تھی اور اب اس کے بغیر انھیں نیند نہ آتی تھی۔
جب احسن عزیز نے اپنے آپ کو مکمل طور پر محاذوں کے حوالے کر دیا تو عذرا کی نند نوشی باجی نے کہا:
عذرا! تم اگر چاہو، تو آزاد ہو سکتی ہو۔ احسن تو اب آئے گا نہیں۔ تم اپنی زندگی کیوں لُٹاتی ہو۔
تو عذرا نے فوراً یہ بات رد کر دی۔
اگر احسن مجھے چھوڑ دیتے، تو مجھ پر کیا بیتتی۔ میں تو احسن کو کبھی نہ چھوڑوں گی۔
اور ٹھیک ایک سال بعد وہ اُس کے ہمراہ وہاں سدھار گئی۔ جہاں سے انھیں اکٹھے جنتوں کے سفر پر نکلنا تھا۔
چھ سال… چھ سال پر محیط ایک طویل عرصہ عذرا اور احسن نے اکٹھے گھر اور گھر کی آسائشوں سے دور، کچے خاک اُڑاتے گھروندوں، وحشی امریکیوں کے ڈرون حملوں، خاک اور خون کی بارشوں میں دل کی پوری آمادگی اور ربِ کعبہ کے لیے خود سپردگی کے ساتھ اس عالم میں گزارا کہ رونقوں بھری دنیا سے اُن کا رابطہ کبھی کبھار کاغذ کے کسی ٹکڑے کے ذریعہ ہوتا تھا۔
حتیٰ کہ وہ وقت آگیا جب رب عظیم نے ان کی قربانی قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
’’اور بے شک اللہ محسنوں سے ہی قبول فرماتا ہے۔‘‘
(القرآن)
رمضان المبارک کا آخری روزہ اور افطار کا وقت ہے۔ عذرا اور احسن کے ہاتھوں میں کھجور کا ایک ایک ٹکڑا ہے۔ ایک مہربان پانی لا رہا ہے کہ گرد و غبار کا ایک طوفان اُس کے اور پینے والوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ روزہ کھل چکا ہے۔ ایک زوردار دھماکا کی آواز آتی ہے۔ کھجوروں والے معلق ہاتھ گھائل ہو کر نیچے آن گرتے ہیں۔ میں چشمِ تصور سے دیکھتی ہوں۔
شام کے لمبے سائے فضا میں اُڑتے جسموں کو دمِ رخصت کا بوسہ دیتے ہیں۔
مسجد کے مناروں سے نکلتی اللہ اکبر کی صدا قربان گاہ میں پھیل جاتی ہے۔ گھروں کو لوٹتے پرندے جانے والوں کو الوداعی سلام کہتے ہیں اور رب کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے۔ عذرا ترابی اور احسن عزیز کا مادی وجود ابدی جنتوں کی طرف پرواز کر جاتا ہے۔ انھیں روزہ وہیں جا کر افطار کرنا ہے
جہاں جگنو چمکتے ہیں
جہاں خوشبو کی برکھا ہے
جہاں عزت کی مسند ہے
جہاں آرام کے تکیے ہیں
جہاں رحمت کے سائے ہیں
جہاں پر سندس و استبرق و دیبا کی خلعت ہے
جہاں چاندی کے کاسے ہیں
جہاں حوروں کی بستی ہے
جہاں سونے کے کنگن ہیں
جہاں ہر چیز سستی ہے
جسے نہ آنکھ نے دیکھا
نہ کانوں سے سنا اُس کو
اور میں جو مادی مفادات کے کیچڑ میں لت پت کم ظرف بونوں کی بستی میں رہتی ہوں
میں کیا جانوں !
جنوں کیا ہے؟
پری کیا ہے؟
حدیثِ دلبری کیا ہے؟
میں کیا جانوں ؟ کہ جب عذرا اور احسن عزیز کے جسم ٹکڑے ہو کر فضا میں اچھلے ہوں گے تو آخری لمحوں میں سرخروئی کا خواب کس طور ان کی آنکھوں میں اُترا ہو گا؟
اُس لمحہ ان کے دل کی کیفیت کیا ہو گی؟
احسن نے چلتے سمے دنیا کو کس زور سے ٹھوکر رسید کی ہو گی۔
عذرا کی پلکوں پر ہمیشگی کے خواب کس شدت سے لرزے ہوں گے۔ احسن کے بدن سے خوشبو کی پھریری کیسے گزری ہو گی۔ عذرا کے لبوں پر نازکی کا خرام کیا ہو گا؟
ابدی زندگی نے شہیدوں کے وجود پر کیسے تیشہ زنی کی ہو گی؟
اور فرشتوں کی منڈلی میں کھلبلی کس طور مچی ہو گی؟
میں کیا جانوں۔ یہ دیوانے لوگ کون ہیں ؟
جو زمین بچھاتے اور آسمان اوڑھتے ہیں۔
جن کی جبینوں کے نور اُن کی پیشانیوں سے ڈھلکے جاتے ہیں۔جن کے خاک بسر لہو لہو وجود ایسے ہیں گویا صندل کے برادے سے گندھے ہوں۔
میری سماعتوں میں فقط احسن عزیز کی نظم بازگشت بن کر ڈوب ابھر رہی ہے۔
ابابیلیں ہیں ہم
بس اس قدر ہی فرض ہے ہم پر
کوئی کنکر کوئی پتھر
ذرا ان ہاتھیوں کے لشکروں پر پھینک دیں اور پھر
افق کے پار جا پہنچیں
جہاں ساروں کو جانا ہے
حساب اپنا چکانا ہے
ہمیں لیکن وہاں جا کر
فقط زخمِ جگر اپنا دِکھانا ہے
پھر اس کے بعد کی دنیا کا
ہر منظر سہانا ہے