منزہ شاھین :
” کسی شاپنگ سنٹر میں چلے جائیں
دکاندار آپ سے کہےگا:” باجی ! یہ امپورٹڈ سوٹ ہے ، امپورٹڈ کراکری ہے “
” سکول سارے انگلش تعلیم دے رہے ہیں بچوں کو میوزک کی کلاسز اٹینڈ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے “
” یہ کیا ہو رہا ہے آخر اس ملک میں ! کدھر لےجایا جا رہا ہے اس ملک کو ۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ ہی حافظ ہے اس ملک کا ۔۔۔ “
ایک ٹاک شو میں ایک دانشور صاحب زور وشور سے بیان کر رہے تھے ۔ تقریباً ہر چینل پر اکثر اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں، مسائل کا انبار ہے جو بیان کیا جاتا ہے مگر مسائل کی وجہ کوئی نہیں بتاتا، حل کوئی نہیں بتاتا۔کیایہ حقیقت نہیں ہے کہ عوام الناس کی جو ڈیمانڈ ہوتی ہے تاجر وہی پیش کرتے ہیں۔ جب تاجر کو پتہ ہے کہ میرے گاہک نے امپورٹڈ چیزیں ہی مانگنی ہیں تو وہ یہی کہےگا نا ’باجی ! یہ امپورٹڈ ہے‘۔
والدین سکولوں میں انگریزی تعلیم کے ساتھ تھوڑی سی اسلامیات وہ بھی انگلش میں اور تھوڑی سی اردو چاہتے ہیں تو تاجر انہیں میوزک کلاس کا پیکج دے دیتے ہیں، والدین کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کے لئے وہ ایک سے ایک نئی چیز متعارف کرواتے ہیں جسے سٹیٹس کےچکرمیں والدین بھاگ کر لیتے ہیں۔
ایک دفعہ پی ٹی وی پر مشہور رائٹر سید نورکا انٹرویو آرہا تھا میزبان نے ان سے پوچھا:
آپ فلموں ، ڈراموں کے زریعے عوام کو ایجوکیٹ کیوں نہیں کرتے تو وہ بولے کہ ہم عوام کو اینٹرٹین تو کر سکتے ہیں ایجوکیٹ نہیں کیوںکہ جو ڈیمانڈ ہے ہم وہی کر سکتے ہیں۔ اگر تاریخی واسلامی فلمیں بنانے لگے تو ہمارا تو بزنس تباہ ہو جائے گا،
اسی طرح ہر شعبہ میں عوام جو چاہتے ہیں وہی ان کو پیش کیا جاتا ہے۔
اگرچہ عوام کی سوچ کو اور پسند کو اس نہج پر لانے کا ذمّہ دار میڈیا ہے مگر کیا انسانوں کی اپنی کوئی سوچ نہیں؟ خود کو مسلمان کہنے والی عوام کو نہیں پتہ کہ مسلمان کی حدود کیا ہیں ؟ ماں باپ اپنے بچوں کو نمازکی طرف نہیں لگاتے، آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ حقوق اللہ معاف ہو جائیں گے مگر حقوق العباد نہیں اور نہیں سوچتے کہ اللہ کی اطاعت نہ کرنے والے بندوں کے حقوق کیا ادا کریں گے؟
کیا بےتحاشہ نمازیں پڑھنے اور تسبیح کرنے والے ماں باپ کو نظر نہیں آتا کہ ان کی اولاد کیا کررہی ہے؟ ان کے جوان بچے اپنی اولاد کو کیا دے رہے ہیں؟ بچوں کے کھانے پینے اور صحت پڑھائی کا خیال رکھنے والے ماں باپ کو اپنے بچوں کے ایمان کی بالکل فکر نہیں ۔ ارے ! اتنا دین تو سکھا دو اپنے ننھے معصوم فرشتوں کو جتنا ہندو ، سکھ عیسائی اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں ۔
اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے شہزادوں حسن ، حسین کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھنے والے والدين بچوں کو ان کی سیرت ہی بتا دیں ۔ انہیں خود معلوم ہو گا تو وہ بچوں کو بتائیں گے۔ کیا صرف مسلمانوں والے نام رکھ لینے سے بچے مسلمان ہو جائیں گے؟ نہیں اس کے لئے ان کی تربیت کرنی پڑے گی لیکن تربیت کرنے سے پہلے خود انہیں دین کا علم حاصل کرنا پڑے گا۔
والدین سے میری استدعا ہے کہ اپنے ایمان اور اپنی نسلوں کو شیطانی طاقتوں سے بچانے کے لیے اسلام کا دامن تھام لیں، راہ نجات بس ایک ہی ہے اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی۔
7 پر “نجات کی راہ” جوابات
راہ نجات تو کوئی سوچتا ہی نہیں بلکہ صرف دنیا ہی کا سوچا جاتا ہے اس لیے ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے لئے تو دن رات ایک کر دیتے ہیں اور دین کے نام پر صرف قرآن پڑھا کر فرض پورا کرتے ہیں. اللہ ہم پر رحم فرمائے
مختصر اور جامع مضمون ہے. بہت اچھا لکھا ہے
بالکل ٹھیک کہا۔۔ ایک دوڑ ہے جو لگی ہوئی
درد دل بیان کیا ہے اللہ سے اس کے حل کی دعا کرنا۔ چاہییے منزہ نے اچھی نشاندھی کی ہے
بہت اچھے انداز سے بیان کیا۔۔۔اللہ ہمارے ایمان اور نسلوں کی حفاظت کریں۔۔آمین
بہت اچھا مضمون ھے اس میں مشترکہ ایسے دکھ کا اظہار ھے کہ جس کا حل سواۓ علم دین کے اور کوٸی نہں ھے لیکن ہماری کوششیں بھی ناکام نظر آرہی ھیں میں تو بہت پریشان ھوں کہ ہمارا کیا بنے گااللہ ہم پر رحم فرماۓ آمین
بہت اچھا مضمون ہے