سید امجد حسین بخاری :
کشمیر میں سٹرابری کی فصل انگریز دور سے قبل کا شت کی جاتی رہی ہے ، کشتواڑ ، اسلام آباداور پلوامہ کی اسٹرابری پورے ہندوستان میں مشہور ہے ، گلگت بلتستان اور لیپہ میں بھی اس کی کاشت کی جاتی ہے، جبکہ کشمیر کے جنگلوں میں بھی اسٹرا بری کی ایک خاص قسم پائی جاتی ہے ، جسے مقامی زبان میں گڑنچھی کہا جاتا ہے،
اس کی جڑوں کو ابال کرنون چائے تیار کی جاتی ہے ، یہ نون چائے کشمیر کے دسترخوان کی بنیادی پہچان ہے ۔ آپ کشمیر کے جنگلوں میں آئیں تو یہ باریک اور خوبصورت اسٹرا بری آپ کو نظر آئے گی، خوبصورت پھل کھائیں اور اگر چائے پینے کا دل کرے تو اس کی جڑیں نکالیں، دھوئیں اور ابال لیں ، ایک دو گھنٹے ابالنے کے بعد دودھ مکس کریں ، ڈرائی فروٹس کے ساتھ لذیذ چائے نوش کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔
اب کشمیری وازوان میں شامل چند ڈشز کا تعارف کرواتا ہوں ، لاہوریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مرغی کے جسم کا کوئی حصہ ضائع نہیں کرتے، اسی طرح شہنشاہ جہانگیر نے تزک جہانگیری میں لکھا ہے کہ وازوان میں گائے اور بھیڑ کے ہر حصے کا استعمال مناسب اور موزوں طریقے سے ہوتا ہے۔
کشمیری وازوان میں رستے اور گشتابے بہت اہم ہیں ۔ رستے میں ران کی گول بوٹی کو چربی اور مصالحوں کے ساتھ ملا کر اس وقت تک کوٹا جاتا ہے جب تک وہ بالکل مہین نہ ہو جائے۔ پھر اس کے گولے بنا کر انہیں خالص مصالحوں میں پکایا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر بات کی جائے گشتابے کی یہ عموما بڈ ماز (بیف) سے تیار ہوتا ہے ، اس کے لئے بھی گوشت بالکل رستے کی طرح ہی تیار کیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ اس کی شکل بھی ویسے ہی ہوتی ہے، لیکن اس کے مصالحے اور پکانے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے،
تو جناب ! گشتابہ اور رستہ ضرور آزمائیں۔
۔۔۔۔۔۔
کشمیر کے اکثر علاقوں میں نماز فجر کے بعد لوگ میٹھی اشیاء لے کر مسجد آتے ہیں ، اجتماعی دعا مانگی جاتی ہے ، پھر تمام گھروں سے لائے گئے میٹھے پکوان مختلف تھالیوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں ، سب لوگ ایک ساتھ مل کر کھانا کھاتے ہیں ، اس کے بعد سبھی مل کر قبرستان میں جاتے ہیں ، جس کے بعد نماز عید کی تیاری کی جاتی ہے،
عید کی نماز کے بعد لوگ واپس گھروں کو نہیں آتے ، بلکہ گاؤں میں عید سے قبل فوت ہونے والے افراد کے لواحقین کے ساتھ ملتے ہیں ، عید کے موقع پر ان کو تسلی دیتے ہیں ، اس کے بعد اگلی بار بہنوں سے ملنے کی ہوتی ہے ، تمام افراد اپنی شادی شدہ بہنوں سے ملنے جاتے ہیں ، بہن کی عمر کوئی بھی ہو ، بھائی چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں ہو، بہنوں کو عید ملنا بھائیوں کا پہلا فرض ہوتا ہے ،
کشمیر کے بعض حصوں میں مرد و خواتین چاند رات کو ہی مزے دار پکوان تیار کرلیتی ہیں ، کیونکہ دن کے اوقات میں مہمانوں کی تواضع میں آسانی رہتی ہے ، بچے بڑے ، بزرگ جوان سبھی ایک دوسرے کو عید ملتے ہیں ، یوں کہہ لیں گے گھر کے پر فرد کا گاؤں میں ہر گھر جاکر عید ملنا لازمی ہے ، مرد اور بچے عید کی دوپہر تک ملاقاتوں کو نپٹا لیتے ہیں ، اس کے بعد خواتین ایک دوسرے کو عید ملنے جاتی ہیں ،
یقیناً کشمیر کا یہ کلچر ہی وہاں محبتوں کے فروغ کا ذریعہ ہے ، اب کشمیر میں بھی مادیت پرستی محبت پر غالب آگئی ہے ، مگر آج بھی روایات کے امین بزرگ بچوں کو اس ثقافت کو جاری رکھنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔
1947 سے قبل میرے گاؤں یعنی سولی حویلی کہوٹہ میں کئی ہندو گھرانے بستے تھے ، جن میں سے اکثر تجارت کے شعبہ سے وابستہ تھے ، ہر طرف چین ہی چین تھا ، محبت کا دریا بہتا تھا ، نفرتیں تھی نہ ہی کبھی اسلام خطرے میں تھا ، حالانکہ اس وقت جبئ سیداں علم و عرفان کا مرکز تھا ، جہاں سے فیض کے چشمے پھوٹ کر پوری وادی کو سیراب کرتے تھے ،
جبی سیداں کے علما، اولیا اور اساتذہ کے چرچے ریاست بھر میں تھے ، لیکن مجال ہے کبھی کسی ہندو مسلم کی لڑائی ہو، مسلمانوں کو میت کو کندھا ہندو دیتے ، قبرستان کے کارنر پر میتیں مسلمانوں کے حوالے کردی جاتی ، اس طرح ہندو مردوں کو شمشان تک پہنچانے کا ذمہ مسلمانوں کا ہوتا ،
ہندو مسلم بھائی چارے کی داستانیں بزرگوں سے سن سن کر بڑا ہوا ، پھر تاریخ پڑھی، ہندؤوں کی داستانیں نظروں سے گزریں تو تاریخ دانوں پر اعتبار اٹھ گیا ، وہاں کے مسلمانوں کا حسن سلوک تھا کہ کئی ہندو مسلمان ہوئے اور آج بھی ان کے خاندان پورے ضلع میں موجود ہیں ، لیکن اب ہندو نہیں ہیں کیونکہ سن سینتالیس میں ہمارے ضلع میں قبائلی آئے تھے، جنہوں نے چن چن کر ہمارے گاؤں سے ہندوؤں کو قتل کیا، جن مسلمانوں نے ہندوؤں کو پناہ دی ، انہیں بھی مار دیا گیا،
کہتے ہیں کہ وہاں ایک نالا ہندوؤں کی لاشوں سے بھر گیا تھا ، آج بھی اس نالے کو ’ کھتریوں والی کسی ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں کئی مردے میرے نانا جی سید سعید احمد بخاری مرحوم اور شریف اللہ قریشی مرحوم نے اپنے ہاتھوں سے رات کی تاریکی میں گاڑھے تھے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے دوستوں کی لاشوں کی توہین ہو۔
اسی دور میں ہمارے گاؤں میں راکھی کا تہوار منایا جاتا تھا ، ہندو لڑکیاں اپنے مسلمان بھائیوں کو راکھی باندھتی تھیں ، مسلمان بھائی اس راکھی کا بھرم ساری زندگی نبھاتے ، لیکن سینتالیس کے بعد ہمارے گاؤں میں کبھی راکھی کا کوئی دھاگہ دکھائی نہیں دیا ، نہ ہی کسی مسلمان کے ماتھے پر اپنی بہن کا لگایا گیا تلک نظر آیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمیر کو یوں تو جھرنوں ، ندیوں ، دریاوں اور جھیلوں کی سرزمین کہاجاتا ہے ، اس کے بیشتر پہاڑ خشک بھی ہیں ، جہاں پانی کے لئے مرد و خواتین کو لاکھوں جتن کئے جاتے ہیں ، کشمیر کے ہندو پانی کو بھگوان کا درجہ دیتے ہیں ، لیکن کئی کشمیری پانی اور حضرت خضر کے قریبی تعلق پر یقین رکھتے ہیں ، پانی کے چشموں کو بھوت اور پریت کا مسکن بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کنواری دوشیزاؤں کو زوال کے اوقات اور رات کے وقت میں پانی پر جانے سے منع کیا جاتا ہے۔
کشمیر ی پانی کے چشمے اور بائولی انتہائی خوبصورت انداز میں بناتے رہے ہیں، کوٹلی سے حویلی اور مظفرآباد سے نیلم تک ماضی کے چشموں کے طرز تعمیر کے خوبصورت انداز دیکھے جاسکتے ہیں ، جبکہ مقبوضہ کشمیر میں آج بھی پرانی طرز پر چشمے تعمیر کئے جاتے ہیں۔
اس مضمون میں دی گئی تصاویر مختلف علاقوں میں چشموں کی بناوٹ دکھائی گئی ہے ، لیکن کشمیر کے چشموں کا رومانس یہ تصویریں ظاہر نہیں کرتیں ، میں خود ان چشموں کے حصار میں گرفتار رہا ہوں، یہاں سے جن اور بھوت تو کبھی نہیں ملے ، لیکن ایک پریت آتما نے مجھے اپنے سائے میں محصور کر لیا تھا ، جس کی خاطر پانی کی گاگریں اٹھا اٹھا کر سر گنجا ہوگیا ، قد چھوٹا رہ گیا اور حد تو اس وقت ہوئی جب اس پریت آتما سے ملاقات کیلئے میں ہر اتوار کو میں 14 ہزار فٹ بلند پہاڑی پر جاتا تھا ۔
اب تو اس آتما کی خبر نہیں لیکن وہ پانی کا چشمہ آج بھی میرے ذہن سے محو نہیں ہو رہا ۔ آپ بھی کسی پرانے چشمے کے کنارے اپنی گاگر بھرنے بیٹھ جائیں تو خود کو پروین شاکر ،ساغر صدیقی سمجھنے لگیں گے ، لیکن جب چشموں سے دور جائیں گے تو خود کوفیص احمد فیض کا جانشین تصور کریں گے۔