پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک دلچسپ اردو سفرنامہ
ابن فاضل :
پالک گوشت پیش کردیا گیا. لیکن وہ پالک نہ تو پالک تھی اور گوشت نہ ہی گوشت۔ ہم جس پالک کے بچپن سے شناسا اور عادی تھے وہ چوڑے پتوں والی ہوتی ہے جس کی ٹہنیاں پہلے سے ہی کتر دی جاتی ہیں اور جو پکنے کے بعد اپنے جسم وجان سے اور ہئیت سے دست بردار ہو کر امت مسلمہ کے مثالی شمارہ کی طرح اس طرح یکجان ہوجاتی کہ
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
لیکن یہ تو عجیب پالک تھی بھئی، موٹی موٹی ٹہنیاں جو پکنے کے بعد بھی کسی نودولتیے کی انا کی طرح بالکل اکڑی اور سالم، جس کے ساتھ پانی میں پائے جانے والے پودے ہائیڈریلا کے جیسے چھوٹے مگر موٹے موٹے پتے تھے. اس زبردستی کی پالک کی وجہ سے شوربہ کا رنگ بھی قدرے سبز ساتھا. اور رکابی کے وسط میں ایک مکعب سی بوٹی پڑی تھی.
کھانے کی شکل دیکھ کر ہمارا تو جیسے سپنا ہی ٹوٹ گیا۔ ہم نے امیرقافلہ کے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ازخود نوٹس لیا، فوراً بہ آواز بلند بیرا کی طلبی کی گئی اور پالک کے شجرہ نصب میں کی گئی۔ اس قدر بڑی ردوبدل پر اس سے احتجاج کیا۔ کہنے لگا:
” صاحب ! یہ پہاڑی پالک ہے۔ یہ اسی طرح کی ہوتی ہے. آپ کھا کر تو دیکھیں، بہت مزے کی بنی ہے.“ صبر کے سوا چارہ نہ تھا۔ سوہم نے اس کا دعویٰ آزمانے کا فیصلہ کیا لیکن وہ بھی غلط ہی نکلا.
وہ جیسی دکھ رہی تھی ویسی ہی ذائق رہی تھی. بہر حال جیسے تیسے رسم پیٹ بھرائی کی. ادھر وہ مکعب نما بوٹی جسے چھوٹا گوشت کہہ کر ہمیں ورغلایا گیا تھا ، ایسی استقامت پسند اور مستقل مزاج ثابت ہوئی کہ ہمیں ازبر تمام مروجہ مہذب طریقے اسے توڑنے میں ناکام رہے.
تب ہم نے اس پر خرچ کی گئی خطیر رقم کے ضائع ہونے کے خوف سے تہذیب کا دامن چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا. اس بہادر بوٹی کا ایک سرا دانتوں میں کس کے پکڑا اور دوسرے سرے کو دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور دو انگلیوں کی مدد سے کھینچنا شروع کیا. وہ کھینچتی چلی گئی. ہم کھینچے گئے وہ کھینچتی گئی، حتیٰ کہ اس کی لمبائی ایک سال کے بچے کے جانگیہ میں ڈالے جانے والے الاسٹک کی لمبائی کے برابرہوگئی. مگر ٹوٹی پھر بھی نہیں.
اب دو ہی صورتیں بچتی تھیں. اسے ثابت ہی نگل لیا جائے. یا یہ کہ اس خطیر مالی نقصان کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیا جائے. ہم ابھی اسی کشمکش میں ہی تھے کہ غوری صاحب ہمیں ترسی ہوئی ،سوالی نظروں سے دیکھتے ہوئے پائے گئے. ہم نے پوچھا کیا ہے؟ فرمانے لگے:
” نہیں کھائی جارہی تو مجھے دیدو. ہم نے حیرت سے ان کی رکابی کی طرف دیکھا جو نہ صرف نام نہاد پالک سے خالی تھی بلکہ اس میں کسی بھی بوٹی کا شائبہ تک نہ تھا. گویا وہ اس ربر مارکہ گوشت کو نگلنے کا کوئی قابل عمل طریقہ دریافت کر چکے تھے. ہم نے فوراً بوٹی کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی، اور وہ فوراً ہی اٹھا گئے بلکہ کھا بھی گئے. اس کے بعد انہوں نے چٹے اور کھوکھر صاحب کی بوٹیاں بھی مزے لیکر کھائیں، کیونکہ وہ دونوں شرفا بھی اس مشق مشکل میں ہماری طرف ناکامران ہی ٹھہرے تھے.
البتہ چائے کے معیار نے کھانے کی کوفت کسی حد تک کم کردی. دو راتیں بسوں میں نیم سوئے، نیم جاگے گزارنے کا بعد ہمارا ارادہ تھا کہ آج کی رات اسی ہوٹل کے نرم گرم بستر پر بسر کی جائے. اور صبح تازہ دم ہوکر اگلے سفر پر نکلا جائے. مگر بھلا ہو اس بیرے کا جو بھاری ٹپ کی وجہ سے ہم پر فریفتہ ہو جاتا تھا. کہنے لگا:
” صاحب ! راما نہیں جاؤ گے؟ ہم نے کہا: ” نہیں بھائی ہماری کلین شیو شکلوں اور لباس افرنگ پر نہ جا، اور نہ ہی بھاری ٹپ کا کوئی غلط مطلب نکال ۔ بخدا ہم پکے سچے مسلمان ہیں. راما سے ہمارا کیا لینا دینا… “
کہنے لگا: ” صاحب ! آپ سمجھے نہیں، یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک انتہائی خوبصورت جھیل ہے، اس کا نام ہے راما. اور یہ کہ وہاں پر رات کو پریاں بھی آتی ہیں. “
اس عہد شباب میں تو کسی سنگ وآہن کے خوبصورت مجسمے کا معلوم پڑے تو بندہ بےاختیار اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے. یہ تو سالم جھیل تھی خوبصورت اور بونس میں پریاں بھی. ہم نے فوراً فیصلہ صادر فرمایا کہ ضرور جائیں گے. اور ابھی جائیں گے.
سامان سمیٹ قافلہ بتائے گئے راستہ پر راما جھیل کے دیدار کے لیے روانہ ہوگیا. تنگ سا راستہ بستی میں سے گھومتا ہوا جارہا تھا. پندرہ بیس منٹ کے پیدل سفر کے بعد ایک سکول کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہم اب بستی سے باہر نکل آئے تھے.
انتہائی خوبصورت سبزے سے ڈھکی پہاڑی ڈھلوان پر ایک راستہ جس کی چوڑائی اتنی تھی کہ جیپ بمشکل اس پر جاسکتی تھی لیکن چڑھائی اس قدر عمودی کہ آگے کو جھک کر پوری طاقت خرچ کرکے چلنا پڑرہا تھا. یوں سمجھ لیں کہ ایک ایک قدم سینکڑوں کلوریاں خرچ ہورہی تھیں.
کھانا بھی ابھی ابھی کھایا تھا اور ہائکنگ بھی تین ماہ بعد کررہے تھے. چالیس پینتالیس منٹ میں سب کی زبانیں باہر آگئیں تھیں. سب سے زیادہ برا حال. سب سے زیادہ بوٹیاں کھانے والے کا تھا. سو سڑک کے ایک طرف رکسیک اتار کر گھاس پر سستانے کے لیے آڑھے ترچھے ہورہے.
کچھ دیر سستانے سے سانسیں تو بحال ہوگئیں، مگر نیت خراب ہو گئی . وہ چھوٹا والا شیطان آگیا. کہنے لگا: ”تمہارے کون سا چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں جنہیں جاکر راشن پہنچانا ہے، اور نہ ہی ادھر راما پر پریوں کے حسنِ آتشیں نے کوئی آگ لگا رکھی ہے جسے آپ نے جاکر بجھانا ہے، ادھر بھی وہی حسنِ نظارہ ہے. آج یہیں پڑے رہو. بات دل مضطرب اور تنِ سہل کو بیک وقت پسند آئی اور ہمت ہار دی گئی. اور کمال چابکدستی سے یہ ہار تقدیر کے گلے میں ڈال دیا کہ قسمت میں یہی لکھا تھا کہ آج یہیں قیام کیا جائے گا.
شاہی خیمہ نصب کرنے کا اعلان کردیا گیا/ جس جگہ رکے تھے وہ بہت ڈھلوان دار تھی. خیمہ لگائے جانے کیلئے نامناسب تھی. تھوڑی سی تلاش کے بعد قریب ہی ایک مناسب جگہ مل گئی. ایک دو مقامی لوگ وہاں سے گزر رہے تھے ہم نے احتیاطاً ان سے پوچھا کہ یہ جگہ کس کی ہے؟ دل میں خیال تھا کہ کوئی معترض نہ ہو کیونکہ بستی سے بہت زیادہ دور نہیں تھے.
” بادشاہ کی….“ مقامی نے جواب دیا۔ ہم بہت حیران ہوئے کہ چلتے چلتے نیپال نکل آئے ہیں. جو بادشاہ کی بادشاہت میں پہنچ چکے. پھر یہ بھی افسوس ہوا کہ ہمارے ہوتے ہوئے اور کون ہے بادشاہ ادھر….. جھٹ سے پوچھا: ” کون بادشاہ؟ “ کہنے لگے: ” وہی جو اسلام آباد میں ہوتا ہے…. “
” نوازشریف..؟ “ ہم نے اس کی مشکل آسان کرنے کی کوشش کی. ” جی! جی!!“ دونوں نے بیک وقت سر زور زور سے آگے پیچھے ہلایا. جیسے ان کی ذرا سی کوتاہی سے نوازشریف کی بادشاہت کو خطرہ لاحق ہوجاتا. مطلب زمین سرکاری تھی. ہم نے نتیجہ اخذ کیا. اور بے دھڑک کام شروع کردیا گیا.
خیمہ عموماً شرقا غرباً لگایا جاتا ہے. گو کہ اس کہ وجہ سورج کی تمازت سے بچاؤ ہے. اور ہم صرف رات کیلئے خیمہ زن ہوتے رہے ہیں. پھر بھی سالہا سال کے تجربات سے بنائے گئے اصولوں پر عمل درآمد سے بہرحال فائدے ہی حاصل ہوتے ہیں. شرقاً غرباً خیمہ لگانے کا ایک فائدہ جو ہم نے تجربہ کیا وہ یہ رہا کہ آندھیاں اور تیز ہوائیں عموماً شمالاً جنوباً چلتی ہیں.
سو اس صورت میں خیمہ اکھاڑنے سے بچ جاتا ہے. مزید یہ کہ خیمہ نصب کرنے کی بعد اس کے اطراف میں ایک نالی ضرور کھود لینی چاہئیے کیونکہ پہاڑوں پر عموماً رات کو بارش ہوہی جاتی ہے. ایسے میں پانی خیمہ میں داخل نہیں ہوتا.
خیمہ لگا کر سامان سیٹ کرنے میں دن ڈھل چکا تھا. جی تو چاہے کہ خیمہ کے وسط میں رسی سے ٹارچ لٹکا کر رنگ بازی یعنی رنگ کی بازی شروع کردی جائے . مگر دماغ نے کہا: اونہہ، آنجناب پھوپھو کے گھر چھٹیاں منانے تشریف نہیں لائے کہ ابھی سجے سجائے دسترخوان پر آواز آئے گی، کھانا لگ گیا ہے، بیٹا آجاؤ. اٹھیں اور رات کے بھوجن کا انتظام کریں.
سو بادل نخواستہ کھانے کے انتظامات شروع کیے گئے. مٹی کے تیل کے چولہے کے باوجود ہم نے لکڑیوں پر پکانے کا فیصلہ کیا کہ یہاں لکڑیاں آرام سے مل جاتی ہیں. سو دولوگ لکڑیاں اکٹھی کرنے پر مامور کیے گئے. ایک صاحب کی ذمہ داری پیاز چھیلنے پر لگائی اورہم خود چاول نکالنے لگے. آج تڑکے والے براؤن چاول پکانے کا فیصلہ کیا گیا تھا.
اندھیرے میں قابلِ سوختہ لکڑیاں تلاش کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسا وطن عزیز میں کوئی محب وطن سرمایہ کار. مگر جوانوں نے بڑی ہمت دکھائی . لکڑیاں لائی گئیں. چاول بھگو کررکھے گئے. پتھروں کو جوڑ کر چولہا بنایا گیا. آگ جلائی گئی. اس پر دیگچی چڑھا کر گھی میں پیاز ڈال کر بھگارے گئے. براؤن ہونے پر ان میں نمک مرچ اور پانی ڈال کر ابلنے کیلئے رکھ دیا گیا.
دیکھیں جی ہم یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے سال آخر کے طالب علم تھے. ہم نے ایٹم بم کا فارمولا بھی پڑھ رکھا تھا، یورینیم کی افزودگی کی مشینوں کا بھی علم رکھتے تھے. راکٹ کو فضا میں بلند ہونے کیلئے مطلوبہ طاقت کا حساب کتاب بھی کرلیتے تھے. زمین سے کچ دھات نکالنے سے لیکر اس سے لوہا بناکر اس سے بحری جہاز بنانے کے سارے عمل سے شناسا تھے. لیکن… آٹے سے گول پیڑہ نہیں بناسکتے تھے. ہاں البتہ دیکھا ضرور تھا ہزاروں بار.
اسی طرح سینکڑوں بار تڑکے والے چاول پکتے بھی دیکھ رکھے تھے. بالکل جیسے جیسے ماں جی پکاتی تھیں بالکل ویسے ہی پوری ایمانداری اور تندہی کے ساتھ سارے عوامل اسی ترتیب میں کرتے ہوئے ابلتے ہوئے براؤن پانی میں چاول ڈال دیے تھے.
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ذمہ بس یہی تھا باقی بالکل درست کھڑے کھڑے اور براؤن پکنا اب چاولوں کی ذمہ داری تھی. سو وہ بری طرح ناکام رہے. بالکل بہت ہی بری طرح. وہ ایسے ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکر ہوئے جیسے ستر کی دہائی کی فلموں میں بچپن میں گم ہوئے جڑواں بھائی فلم کے کلائمکس میں ہوتے تھے. بلکہ وہ تو ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے تھے.
ہم سمجھے کہ شاید ہماری نیک نیتی اور محنت رنگ لے آئی تھی اور سہواً ہم سے کھچڑی سے بھی کوئی زودہضم خوراک ایجاد ہوچکی تھی. ماں جی ویسے، ایسے بھوجن کو پپا کہا کرتی تھیں. لیکن اس پپا میں، پپا ہونے کے علاوہ بھی ایک خرابی رہ گئی تھی. وہ یہ کہ باہری طرف سے اس قدر گل جانے کے باوجود کہ جڑ کر جسد واحد ہوئے تھے.
اندر سے ابھی ہر چاول کے وسط میں ہلکی سی سختی موجود تھی. العجب. بہر حال وہ جو بھی تھا اسے پلیٹوں میں لیپ کرکے حاضرین کی خدمت میں پیش کردیا گیا. جو انہوں نے صبر شکر سے کھا بھی لیا. وہ الگ بات ہے کہ ایک پائو چاول کھانے کے واسطے ایک پاؤ اچار استعمال کیا گیا.
رات سون تھیلوں میں پرسکون گزری. صبح شاہی ناشتہ کیا گیا. یعنی چائے رس . وارفتگی دیدار راما میں سامان سمیٹ کر عازم سفر جانب منزل ہوئے. انتہائی عمودی چڑھائی. جاں گسل جگر کش مشقت آمیز. ایک ایک قدم پر محنت کرنا پڑرہی تھی. اور اسی مشقت کی لذت کیلئے تو یہ کار دشوار کیا جاتا ہے. جیسے کوئی صاحب ذوق بنا شکر کے کالی کافی کے گرم کڑوے گھونٹ سے طمانیت کشید کرتا ہو.
ناقابل بیان حد تک خوبصورت مناظر دونوں اطراف میں سرسبزپہاڑ. درمیان میں کسی قدر تنگ مگر سرسبز وادی جس میں ہر طرف کھیت لہلہاتے ہوئے. وادی میں دائیں طرف راما سے آنے والا پہاڑی نالہ ماحول کو اور بھی خوابناک بناتے ہوئے. انسانوں کی غیر موجودگی اور خاموشی ماحول کو طلسماتی بناتے ہوئے. جب کبھی ہوائیں سرسرائیں تو پریوں کی سرگوشیوں کا گمان ہو.
انہیں مسحور کن نظاروں میں قریب تین گھنٹے کی اس پرسوز چڑھائی کے بعد ہمیں ایک عمارت دکھائی دی. جیسے کسی دورافتادہ گاؤں میں سرکاری سکول ہو. ہم بہت حیران ہوئے کہ آخری بستی بھی پیچھے چھوڑے ہوئے پانچ میل ہوگئے اتنے ویرانے میں سرکاری سکول کا مطلب کہ انسان تو انسان سرکار کو پریوں کی ناخواندگی برداشت نہیں.
قریب پہنچے تواس عمارت پر موجود شخص نے بتایا کہ یہ پی ٹی ڈی سی کا موٹل ہے. موٹل کی جائے انتخاب کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی. بہت عمودی چڑھائی کے بعد ایک وادی کسی قدر ہموار ہوتی ہے. سامنے کی طرف برف سے ڈھکے تین اطراف پہاڑ دکھائی دے رہے تھے.
جن کے دامن میں ہماری ممدوحہ و مطلوبہ راما جھیل تھی. جو بہرحال ابھی دکھائی نہیں دے رہی تھی. جگہ کی خوبصورتی اور موٹل کی موجودگی چھوٹے شیطان کی حاضری کیلئے کافی وظیفہ تھا، جھٹ سے حاضر ہوتے ہی بائیں کان میں سرگوش ہوا: ” آج کی رات اگر اس جگہ قیام ہو تو کیا ہی بات ہے. “
” ہم یہاں قیام کرنا چاہتے ہیں….“ ہم نے فوراً متولی سے مدعا ظاہر کردیا.. کہنے لگا : ” سر! اسلام آباد سے پہلے بکنگ کروانا پڑتی ہے، ایسے قیام ناممکن ہے.“ عجیب بات ہے شہر میں مقیم پریوں کی جان تو پہاڑوں پر قید طوطے میں سنتے آئے تھے۔ یہ پہلا طوطا ہے جس کی جان اسلام آباد میں قید ہے. مزید برآں اس نے بتایا کہ چند روز میں عمران خان یہاں بغرض قیام تشریف لائیں گے.
یاد رہے کہ عمران خان کو ورلڈ کپ جیتے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے. اس نے مزید بتایا کہ وہ پہلے بھی آتے رہتے ہیں. ہمارا تو جیسے خون کھولنا شروع ہوگیا. اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس نے ہمیں وہاں قیام کے نا قابل سمجھتے ہوئے انکار کردیا تھا.. بلکہ خدا لگتی کہیں تو اس کے پیچھے ہمارا حسد تھا. جس کا آج ہم برملا اظہار کرنا چاہتے ہیں.
ہم عہد شباب میں بس تین لوگوں سے ہی حسد کرتے تھے. مگر خوب کرتے تھے. ایک آئن سٹائن، دوسرے علامہ اقبال اور تیسرے یہ عمران خان. ہمارا خیال تھا کہ ہمارے حصہ کا علم، حکمت اور شہرت ان میں بٹ گئی ہے. تادیر یہ حسد جاری رہا. اب البتہ افاقہ ہے.
جلن قابو میں کرتے ہوئے ہم نے اس سے کہا: ” بھائی ! اذن قیام نہیں دیتے تو نہ دو کم از کم ہمارا سامان تو یہاں رکھ لو تاکہ ہم آزادی کے ساتھ جھیل کی زیارت کرسکیں. اس پر وہ فوراً راضی ہوگیا. بھاری سفری تھیلے وہاں چھوڑ کر ہم بہت ہلکے محسوس کررہے تھے. متولی سے جھیل کا راستہ پوچھا تو وہ انتہائی کم مشاہرے پر ہمارا گائیڈ بننے پر تیار ہوگیا.
اب ہم سامان کے بغیر متولی ریسٹ ہاؤس کی معیت میں دوبا رہ جھیل طرف روانہ ہوئے. راستہ بھی کافی حد تک آسان اور سیدھا تھا سو رفتار بہتر ہوگئی. کچھ فاصلے پر چیڑھ کے درختوں کا جھنڈ تھا اور باقی ہرطرف سبزہ. بہت زبردست ماحول کے باوجود ہم سب کو تھوڑا سا بھاری پن محسوس ہونا شروع ہوا.
جیسے کہ ہائٹ سکنس کے ابتدائی آثار ہوں. گائیڈ سے اظہار کیا تو وہ فوراً درختوں کے پاس سے ایک قسم کی بوٹی توڑ لایا. بولا یہ کھالیں. ٹھیک ہوجائیں گے.ہمیں ازل سے تجربات کا شوق ہے. فوراً لیکر کھانا شروع کردی. کسیلا سا ذائقہ تھا. بمشکل دو تین ٹہنیاں پتوں سمیت چبا کر نگلی ہوں گی. ہمارے سوا باقی سب نے صاف انکار کر دیا.
ابھی درختوں کے جھنڈ کے پار بھی نہ نکلے ہوں گے کہ تینوں ہمرا ہیوں کی طبیعت بگڑنا شروع ہوگئی. چکر آنے لگے. اور قطار اندر قطار بیٹھ کر لگے الٹیاں کرنے. ہم البتہ بالکل پرسکون رہے. گائیڈ نے اب انہیں جتایا کہ دیکھا آپ نے وہ دوا نہ کھائی تو اس حال پہنچے، جس نے کھائی وہ پرسکون ہے. اب تینوں دوا کے متقاضی تھے لیکن اس نے کہا کہ اب فائدہ نہ ہوگا کیونکہ اب آپ کو ویسے ہی سکون مل جائے گا. اور اس کا یہ اندازہ بھی درست ثابت ہوا. کچھ دیر میں سب پرسکون ہو گئے تھے.
درختوں کے بعد بائیں طرف ایک بہت برا سا کالے رنگ کا پہاڑ جیسے ٹوٹ کر زمین پر بکھرا پڑا تھا. دوتین لوگ اس کے پتھروں کو چوکور بنا کر عمارتیں بنانے کے قابل شکل میں ڈھال رہے تھے. اور ساتھ ہی ایک جیپ کھڑی تھی. گائیڈ نے بتایا کہ یہ اس علاقے کا پتھر حاصل کرنے کا مرکز ہے. بستی کے لوگ گھر بنانے کیلئے یہاں سے پتھر لیکر جاتے ہیں. کسی قسم کی کوئی روک ٹوک یا محصولات نہیں. بس! جس کی ضرورت ہو وہ اپنے مزدور لائے پتھر کاٹے اور لے جائے.
جیپ کا راستہ بس یہیں تک تھا. آگے جھیل تک صرف پیدل جانے کا راستہ تھا. دن ڈھلنا شروع ہوا تھا دو بجے کا وقت ہوگا. سب کو بھوک لگنا شروع ہو گئی تھی لیکن اب صبر کے سوا چارہ نہیں تھا. کیونکہ ہم وفورِ دیدار میں دوپہر کا کھانا بھول چکے تھے. اور سامان بھی ریسٹ ہاؤس میں چھوڑ آئے تھے. بہرحال خوب صورت نظاروں میں مزے کا سفر جاری رہا. کچھ دیر بعد ہم راما جھیل کے سامنے تھے. ( جاری ہے )