مسلمانوں کا ایک قافلہ ، پاکستان کی طرف ہجرت

درد کہانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عفت بتول :

یہ میری تائی کی کہانی ہے۔ تائی کا رشتہ اگر چہ خون کا رشتہ نہیں لیکن یہ کہانی جان لینے کے بعد مجھے میری تائی کے ساتھ اپنی ماں کے برابر پیار ہو گیا ہے۔ کیونکہ اس کہانی میں پاکستان سے محبت اس قدر پائی جاتی ہے کہ ایسی محبت کی مثال ماں کے پیار سے ہی دی جاتی ہے۔

ستر برس سے زیادہ ہونے کے باوجود اس خاتون کے چہرے پر نومولود بچے کی سی معصومیت اور مسکراہٹ ہے، وہ بے تحاشا خوب صورت نہیں لیکن بے حد پر کشش ہیں اور مجھے تو لگتا ہے کہ وہ اس قدر پر کشش اس لیے ہیں کہ وہ ایک شہید کی بیٹی ہیں۔ ایک انتہائی نمازی، پر ہیز گار خاوند کی جس کے خاندان کے تیس افراد تقسیم بر صغیر کے دوران شہید ہوئے اہلیہ ہیں اور ایک حافظ پوتے کی دادی ہیں۔ باقی خاندان کا تعارف کیا کراؤں بس یوں سمجھ لیجئے تسبیح کے سارے دانے ہی ایک جیسے ہوتے ہیں۔

ہر سال دسمبر اور جون میں چھٹیوں کے لئے لاہور جاتی ہوں تو ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ امسال بوجہ کورونا تاخیر سے ملاقات ہوئی تو مل کر رونے لگیں۔ ان کی بھتیجی کے شوہر کا پی آئی اے کے طیارے کے حا دثے میں انتقال ہو گیا تھا، میں تعزیت کے لئے گئی تھی وہ زارو قطار رورہی تھیں اور کہہ رہی تھیں:

” ہم ختم ہونے کو آگئے پاکستان کے غم ختم نہ ہوئے ، لوگ کہتے ہیں ہم نے زندگی کی ستر بہاریں دیکھیں لیکن میں کہتی ہوں ہم نے خزائیں ہی خزائیں دیکھیں۔“

وہ بتاتی ہیں کہ جب پاکستان بنا ہر چیز درہم برہم ہو گئی۔ ہمارا باپ پاکستان پر قربان ہو گیا لیکن ہم محض اس بات پر مطمئن اور مسرور تھے کہ پاکستان تو بن گیا ہے۔ باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو میری اور میرے دو بھائیوں کی کفالت کی ذمہ داری میرے چچا پر آگئی ۔ کیا خوب صورت مماثلت ہے میری میرے پیارے نبی ﷺ کے ساتھ کہ انھیں بھی ان کے چچا نے پالا اور مجھے بھی۔

یہ کہہ کر وہ رونے لگیں۔ آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہیں تھے، ان کے نہ میرے۔ وہ بھی پاکستان کا درد سہ رہی تھیں اور میرے سینے میں بھی پاکستان کی حالت زار کو سوچ سوچ کر ٹیس اٹھ رہی تھی۔ وطن سے محبت اور جس دین کے عملی مظاہرے کے لئے یہ وطن حاصل کیا گیا تھا ،سے لگاؤ کا اتنا گہرا تاثر ہمارے ان بزرگوں میں ہی پایا جاتا ہے جنھوں نے حصول پاکستان کی جدوجہد کو قریب سے دیکھا ہے۔ ان کے چہرے پر شفقت و متانت کے ساتھ ساتھ وہ درد والم بھی صاف دکھا ئی دیتا ہے جو تقسیم کے دوران انھیں اپنوں کے بچھڑے کی صورت میں ملا۔

میں سوچتی ہوں۔ ہم اس میٹھے درد کے امانت داروں کی یاد داشتیں کب تک سنبھال پائیں گے؟ ہماری نسلوں کو ان خاموش غازیوں کا پتہ کون دے گا جنھوں نے اپنی بچپن، جوانی اور اب بڑھا پا اس آس پر گزار دیا کہ خزاں جائے گی اور بہار آئے گی۔

آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی

یہ نغمہ بے سری سی کانپتی آواز میں گنگناتے ہوئے وہ رو رہی تھیں، بس روتی ہی جا رہی تھیں۔ ان کی روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں۔ باربار آسمان کی طرف بلکہ کمرے کی چھت کی طرف دیکھتیں اور کہتیں:
” میرے اللہ ! پاکستان پر اپناکرم کر اس پر سے مصیبتوں کو ختم کردے۔“

” جب ہمارے گاؤ ں پر حملہ ہوا، میں اپنے دونوں بھائیوں کے ہمراہ گلی میں کھیل رہی تھی۔ میرے دونوں بھائیوں نے نیکر اور بنیان پہن رکھی تھی۔ ہماری والدہ نے ایک دم ہمیں زور زور سے پکارنا شروع کردیا صدیق، لطیف، لطیفاں (میری تائی کا نام ) جلدی جلدی اندر آجاؤ سکھوں نے حملہ کر دیا ہے۔

حملہ کیا تھا خون کی ہولی تھی۔ سکھ بڑی تعداد میں تھے اور اسلحہ سے لیس تھے اور ہم ایک اسلام اور پاکستان کی امید کا سہارا لئے ہوئے۔

ہم تینوں بہن بھائی گھر کے کونے میں چھپ گئے۔ میرے ابا اور میرے دادا سکھوں کا مقابلہ کرتے کرتے پہلے شدید زخمی ہوئے لیکن زخمی حالت میں بھی اپنا دفاع کرتے رہے لیکن پھر یکے بعد دیگرے دونوں نے جام شہادت نوش کر لیا۔

ہمارے ایک چچا فقیر حسین نے کئی سکھوں کو مارا اور اسی جنگ میں ان کی تلوار ٹوٹ گئی۔ ہمارے ایک ماموں مصطفی صادق جو روزنامہ وفاق کے بانی اور وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں اللہ انہیں جنت میں جگہ دے اس جنگ میں موجود تھے لیکن ان کے پاس ہتھیار نہیں تھا۔ ان کی بے چینی کو بھانپ کر ایک سکھ نے اپنی تلوار انھیں دے دی۔ اس سکھ نے ان کے ظاہری حلیے سے اندازہ لگایا کہ وہ سکھ ہیں۔ ایسی غیبی مدد کے کئی واقعات اس وقت رونما ہوئے۔

اس سکھ کی تلوار سے ہمارے ماموں مصطفی صادق نے کئی سکھوں کو مارا ۔ یہ واقعہ ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں ہوا۔ ہمارے ماموں کی اہلیہ خورشید بی بی کو سکھ اٹھا کر لے گئے۔ سکھوں کا طریقہ واردات یہی تھا وہ گھر کے مردوں کومار دیتے یا زخمی کر دیتے اور عورتوں کی عزتیں برباد کرتے یعنی انھیں جیتے جی مار دیتے۔

ان کے شوہر مصطفی صادق نے سکھوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا لہذا وہ انھیں زخمی کرکے ان کی خوبرو بیوی کو لے گئے۔ وہ روتی رہیں گڑ گڑاتی رہیں لیکن کسی نے ان کی نہ سنی۔ انھوں نے مدد کے لیے اپنے رب کو پکارا اور پھر اللہ نے انہی سکھوں کے ذریعے ہی ان کی مدد فر مائی۔ سکھوں نے انھیں ایک بزرگ سکھ کی بیل گاڑی پر سوار کر دیا تاکہ ان کو متعلقہ جگہ پہنچا دیں۔

راستے میں بزرگ سکھ نے ہماری ممانی خورشید بی بی سے سوال جواب کرنا شروع کر دیئے۔ دوران گفتگو اس سکھ پر انکشاف ہوا کہ ہماری ممانی ان کے محسن کی عزیزہ ہیں، اس کے دل میں ہمدردی جاگی۔ اس نے کہا تم بیل گاڑی سے اتر کر بھاگ جاؤ اور کماد (گنے کی فصل) میں چھپ جاؤ۔ اگر تمھارا نصیب اچھا ہوا تو بچ جاؤ گی۔

ہماری ممانی بتاتی ہیں کہ نصیب اچھا ہی ثابت ہوا۔ میں کماد میں چھپ گئی۔ سکھوں کا ایک گروہ آیا اور بزرگ سکھ سے باز پرس کرنے لگا۔ میں کماد میں چھپی بیٹھی ان کی گفتگو سن رہی تھی۔ وہ بزرگ سکھ کو بری طرح ڈانٹ رہے تھے اور وہ جواب میں معذرت خوانہ لہجے میں کہہ رہا تھا …. مجھے پتا ہی نہیں چلا کب وہ لڑکی بیل گاڑی سے نکل کر بھاگ گئی۔

سکھ غصے کے عالم میں ادھر ادھر مجھے تلاش کرتے رہے۔ میں سانس روکے اپنے اللہ سے مدد مانگ رہی تھی۔ کچھ دیر ادھر ادھر ڈھونڈنے کے بعد سکھ وہاں سے چلے گئے۔ میں کماد سے نکل کر کچی سڑک تک پہنچی۔ کچھ معلوم نہیں تھا سڑک کدھر جا رہی ہے۔ اللہ کا نام لے کر اسی پر چل پڑی۔ تقریباً دو کلو میٹر چل کر اندازہ ہوا کہ میرا جانا پہچانا علاقہ ہے۔

شام ہونے کو تھی دل خوف اور تھکن کے باعث ڈوبا چلا جا رہا تھا لیکن میرے اللہ کی مدد شامل ہوئی اور میں ہانپتی کانپتی اپنے گھر پہنچی جہاں سب ہجرت کی تیاری کیے بیٹھے تھے۔

سکھ اور ہندو بالکل خونخوار ہو گئے تھے، وہ خاندان جن کا آپس میں نسلوں سے واسطہ تھا۔ وہ ایک ایک مسلمان کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ ہم گلی میں مل کر گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ مسلمان سکھ ہندو سب کے بچے اکٹھے کھیلتے تھے لیکن جب تقسیم کا وقت آیا تو کوئی ہمسایہ محلے دار نہ رہا بس سب کے سب مسلم اور غیر مسلم دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے۔

رات کے اندھیرے میں ہم اپنے چچا فقیر حسین اور چچا فضل کے ہمراہ بیرچھا نامی گاؤں سے روانہ ہوئے۔ میرے دادا محمد جمیل گاؤ ں کے معززین میں شمار کئے جاتے تھے۔ اپنے نام کی مماثل بے حد خوبصورت بھی تھے۔ نمازی پرہیز گار اور ہمدرد و مخیر ۔

ایک دفعہ کوئی آدمی ان کے پاس آیا ، بتانے لگا کہ مجھے پچاس روپے کی ضرورت ہے گاؤں میں کئی لوگوں سے مانگے۔ پھر کسی نے کہا کہ آپ سے ادھار لے لوں۔ انھوں نے اپنی پگڑی کے بل کھولے اور پچاس روپے اس شخص کو تھما دئیے نہ کوئی ضمانت چاہی نہ ہی واپسی کا کوئی وعدہ لیا۔

میرے چچا فقیر حسین کو جب میرے ابا کی شہادت کا پتہ چلا تو روتے روتے اپنی ماں سے کہنے لگے: مایئے (وہ اپنی ماں کو مایئے کہ کر بلاتے تھے) سب شہید ہو گئے بس فقیر بچ گیا ۔ وہ یہ جملہ کہتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے۔

سب شہید ہوگئے بس فقیر رہ گیا
سب شہید ہوگئے بس فقیر رہ گیا

میری تائی نے یہ جملہ دیوانوں کی طرح دہرانا شروع کر دیا ۔ گویا وہ اس موقع اس محل اس منظر میں جا پہنچی ہوں ۔ اس درد کہانی کو بیان کرتے ہوئے کئی دفعہ ان پر رقت طاری ہوئی وہ روتی جاتی تھیں اور بتاتی جاتی تھیں۔

جب ہمارا قافلہ روانہ ہوا تو سب کے دل زخمی تھے، اپنوں سے بچھڑنے کا غم اپنی جگہ اور اپنی جنم بھومی چھوڑنے کی تکلیف الگ لیکن بس ایک امید کا سہارا تھا کہ ہمارا اپنا الگ وطن ہو گا جہاں ہم اپنی مرضی کے مطابق آزاد زندگی گزاریں گے۔

ہما را قافلہ بچتا بچاتا پاکستان کی طرف روانہ ہوا ۔ راستے میں کئی جگہ سکھوں نے چھوٹے چھوٹے مورچے بنا رکھے تھے۔ میری ماں ہمارے ابا کی شہادت کے غم میں نڈھال تھیں اور ان کی ایک ٹانگ بری طرح زخمی تھی۔ گلیوں اور سڑکوں پر جگہ جگہ سکھ دھاک لگائے بیٹھے تھے لہذا ہمیں چھتیں پھلانگ کر جانا پڑتا۔

ہمارے چچا ہمیں چھت سے زمین پر پھینک دیتے، باری باری پہلے ہم تینوں بھائی بہنوں کو اور پھر ہماری ماں کو اور آخر میں خود چھلانگ لگاتے۔ اس عمل کے دوران جسم پر کئی خراشیں لگیں لیکن دل پر لگنے والے زخم ان سے کہیں زیادہ گہرے تھے۔ دل کے زخم ہیں کہ بھرتے ہی نہیں ہیں اور پھر جب پاکستان اور پاکستانیوں کے حا لات دیکھتے ہیں تو اور بھی تکلیف ہوتی ہے۔

ایک منظر جو ہمیں آج تک نہیں بھولا کہ نالیوں کے پانی کا رنگ لال ہو گیا تھا ، شہداء کا خون جذبات اور عزتوں کے جنازے عزیزوں سے دوری اپنے مال و املاک سے قطع تعلقی اور نہ جانے کیا کیا اس وطن کو حاصل کرنے کے لئے قربان کیا گیا ۔ میری دادی نے اپنے بچوں کی یاد میں رو روکر بینائی کھو دی تھی لیکن وہ یہی کہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہویئں کہ اللہ کا شکر ہے پاکستان بن گیا۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کر بلا کے بعد


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

10 پر “درد کہانی” جوابات

  1. محمد حسن Avatar
    محمد حسن

    اسلام علیکم ۔ عفت بتول صاحبہ نے بالکل حقیقت پر مبنی کہانی لکھی ہے ۔ تحریک آزادی کا حقیقی نقشہ کھینچ کر ماضی کی حقیقت کو واضع کیا ہے ۔ ۔
    یہ کہانی مجھ پر متاثر کن ثابت ہوئی ہے

  2. مشتاق چشتی Avatar
    مشتاق چشتی

    میڈم عفت بتول صا حبہ
    آپکی لکھی ہوئی تحریر نے قیام پاکستان کی یادیں تازہ کر دی ہیں اپ بہت با ہمت اور محب وطن ہیں اپکی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں اس طرح کی تحاریر ہماری موجودہ نوجوان نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں کہ عظیم ملک پاکستان کو بنانے میں کرنی عظیم ہستیوں نے قربانیاں دی ہیں میں آپکی تاءی اماں کو بھی سلام عقیدت پیش کرتا ہوں جنکا شمار ہمارے ازادی کے ہیروز میں ہوتا ہے۔ بہت اعلیٰ تحریر ہے یہ صرف تحریر نہیں بلکہ تاریخ کا ایک باب ہے بہت شکریہ

    1. Asma siraj Avatar
      Asma siraj

      مس عفت بتول صاحبہ اپکی تحریر درد کہانی پڑھ کر دل میں وطن سے محبت کا جذبہ مزید بڑھ گیا ہے ہمارے لوگوں نے اپنی جانیں ،مال، عزتیں،بچے جوان نچھاور کرکے ہمارے لیے آزاد وطن ہمیں دیا اللہ ہمارے وطن کو قائم ودائم رکھے امین یہ صرف ایک کہانی یا تحریر نہیں بلکہ ایک جزبہ بیداری ہے اللہ آپ کو سلامت رکھے امین

  3. فہد خان Avatar
    فہد خان

    مجھے یہ کہانی پڑھ کر اپنی نانی اماں کی باتیں یاد آگئیں۔ اس کہانی میں بہت سچائی ہے کیوں کہ میری نانی اماں بتایا کرتی ہیں کہ بہت برے حالات تھے تقسیم کے وقت۔
    اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ آپ کے عزیزوں کی قربانیاں قبول فرمائیں۔
    آمین

    1. آمنہ جبین Avatar
      آمنہ جبین

      یہ تحریر وطن کی خاطر دی گئی قربانیوں کی عکاسی کرتی ہے اس کو پڑھ کر دل میں محب الوطنی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور آئندہ نسلوں کی خاطر حقیقی قربانی کے جذبے کا احساس پیدا ہوتا ہے دعا ہے کہ یہ احساس ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے اور ہم بھی ان عظیم لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے کسی بھی طرح کی قربانی دے سکیں۔آپ کی تحریر پڑ ھنے کے بعد احساس ہوا ایک اچھی تحریر سوچ اور عمل میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔

  4. Asma siraj Avatar
    Asma siraj

    مس عفت بتول صاحبہ اپکی تحریر درد کہانی پڑھ کر دل میں وطن سے محبت کا جذبہ مزید بڑھ گیا ہے ہمارے لوگوں نے اپنی جانیں ،مال، عزتیں،بچے جوان نچھاور کرکے ہمارے لیے آزاد وطن ہمیں دیا اللہ ہمارے وطن کو قائم ودائم رکھے امین یہ صرف ایک کہانی یا تحریر نہیں بلکہ ایک جزبہ بیداری ہے اللہ آپ کو سلامت رکھے امین

  5. نور اکبر ساقی Avatar
    نور اکبر ساقی

    میڈم عفت صاحبہ آپ کی تحریر پڑھ کے ایسا لگا کے اس دن جیسے میں ساتھ تھا درد کہانی بہت درد سے بھری ہے اور میں دل سے سلام پیش کرتا ہوں ان عظیم لوگوں کو جنہوں نے اپنا سب قربان کر دیا آزادی کے لئے

  6. میاں شاہد ندیم Avatar
    میاں شاہد ندیم

    عفت آپ نے بہت اعلیٰ عکاسی کی ہے مجھ کو ایسا لگ رہا کہ میں ساتھ تھا اور سب درد کو ایسے محسوس کر رہا ہوں جیسے یہ سارا میرا اپنا درد ہو

  7. Khadija Avatar
    Khadija

    bht khoob . Masha Allh

  8. ماریہ Avatar
    ماریہ

    ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے۔ اس طرح کی کہانیاں وطن سے محبت کو مزید بڑھا دیتی ہیں ۔ سلامت رہیں ۔