پاکستانی سیاست ،مائنس تھری پر رکے گی یا مائنس آل پر؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

"ملک میں طویل عرصہ سے بعض جماعتوں کے سربراہان کو مائنس کرنے کی پیش گوئیاں سننے کو ملتی رہی ہیں۔ بعض لوگوں کاخیال تھا کہ عمران خان کی حکومت قائم کرنے کے لئے اس منصوبے پر عمل درآمد کیا جائے گا، اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت مرکز، تین صوبوں میں قائم ہوچکی ہے، کیا اب بھی مائنس فارمولا آگے بڑھے گا؟ اس کا جواب معروف صحافی عاصمہ شیرازی نے اپنے ایک کالم میں یوں دیا:
"دوستوں کو یاد ہو گا کہ بائیس اگست 2015 سے پہلے مائنس ون فارمولے کی بازگشت سنائی دی جا رہی تھی۔
مائنس الطاف کی خبریں ’باوثوق‘ ذرائع سے آنے لگیں۔ راہ الطاف حسین کی ایک تقریر نے پاکستان مخالف نعرے لگا کر خود ہی ہموار کر دی۔ بس پھر کیا تھا آج تک ٹیلی وژن پر الطاف حسین کا نام لینے کی ممانعت ہے۔ گو اُنھوں نے معافی تلافی کی بہت کوشش کی مگر بات نہیں بنی۔
خیر، اب تو کراچی شہر کا مینڈیٹ ہی اُن کے ہاتھ سے نکل گیا اور کراچی میں تبدیلی کی سونامی آ چکی ہے، شہری سندھ کی قیادت بدل چکی ہے۔ یوں بھی کراچی کے نوجوانوں کی اکثریت نے اپنا انتخاب تحریک انصاف کو ٹھہرایا ہے۔ مبارک ہو۔۔ ایک منصوبہ بندی تو کامیاب ہوئی۔ یہ وہ مائنس تھا جس کو بہت جلد بھلا دیا گیا اور مقتدر حلقے بغیر خون خرابہ اس انقلاب پر بغلیں بجانے لگے۔
پھر دوسرا مائنس جولائی 2017 میں ہوا جب پنجاب کے منتخب وزیراعظم کو اقامے کی بنیاد پر گھر بھیج دیا گیا۔ اُنہیں لندن کی ‘بے نامی’ جائیدادوں کے مقدمے میں جیل ہوئی اور پھر ضمانت۔۔۔ مگر بےنامی تاحال ثابت ہونا باقی ہے۔
نواز شریف رہا ہو چکے مگر نااہلیت تاحیات ہے۔ نواز شریف پارٹی صدارت سے باہر ہوئے اور یوں مسلم لیگ ن کہلانے والی جماعت ’ش‘ بن گئی۔ میاں صاحب سویلین بالادستی کا نعرہ لے کر لندن سے آئے جیل گئے، رہا ہوئے مگر اب رائیونڈ میں بند ہیں۔
پارٹی شہباز شریف چلا رہے ہیں جو آج بھی مقتدر حلقوں میں خاصے مقبول اور مستقبل کی بہتر چوائس تصور کیے جاتے ہیں۔ اُن کے لیے ’سافٹ کارنر‘ بھی موجود ہے۔ مائنس ٹو پر تھوڑا احتجاج دیکھنے کو ملا اور کیوں نہ ملتا آخر پہلی بار پنجاب سے منتخب اور ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر وزیراعظم کو برطرف کیا گیا تھا۔ بہر حال یہ ’مائنس‘ بھی مینج ہو گیا۔
اب شہباز شریف اپنی جماعت کو نئے سرے سے منظم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ جماعت کی اکثریت مان چکی ہے کہ میاں صاحب کی تصادم کی سیاست نقصان دہ ہے لہٰذا میاں صاحب رائیونڈ میں مناسب وقت آنے تک زبان بندی کیے رکھیں اور اپنی اپیلوں کے فیصلے کا انتظار کریں۔ شہباز شریف کے پاس ووٹ بنک موجود نہیں تاہم پنجاب کی موجودہ حکومت اور وزیراعلی بار بار شہباز شریف کی افادیت کا اشارہ دیتے رہیں گے، اور رہی بات نواز کے ووٹ بنک کی تو شہباز کی قید خاطر خواہ ہمدردیاں پیدا کر سکتی ہے۔
بے نامی جائیدادوں کے بعد اب باری ہے بےنامی اکاؤنٹس کی۔ منی لانڈرنگ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، آئے دن اربوں روپے کے بے نامی اکاؤنٹس نکل رہے ہیں۔ اسی کیس میں جناب زرداری صاحب کے قریبی دوست گرفتار ہیں اور میڈیا میں بھر پور تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان بےنامی اکاؤنٹس کا تعلق زرداری صاحب سے ہے۔
ایک بار پھر مائنس تھری کی بازگشت ہے۔ اب کی باری، آصف زرداری کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ اس جماعت میں سافٹ کارنر کس کے لیے ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ فی الحال زرداری صاحب پر ایک اور مائنس کی تلوار لٹک چکی ہے۔
ماضی میں ایسے قوانین بنائے جاتے رہے ہیں جن کے تحت سیاستدانوں کو سیاست سے باہر کیا جاتا رہا۔ ان میں ایبڈو(منتخب نمائندوں کی نااہلیت کا آرڈر 1959) جیسا قانون بھی تھا جس میں قومی قیادت (اکثریت کا تعلق مشرقی پاکستان اور صوبہ سرحد یعنی موجودہ خیبر پختونخواہ سے تھا) کو بدعنوانی کے الزامات لگا کر سیاست سے باہر کر دیا گیا تھا۔ تاہم وقت اور حالات نے دیکھا کہ جماعتیں موجود رہیں اور پذیرائی بھی پاتی رہیں۔ یہ الگ بات کہ پاکستان دو لخت ہوا۔
سوال یہ ہے کہ ایک بار پھر سیاست دانوں کو احتساب کی چکی سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ واقعی بدعنوان ہوں مگر صرف سیاست دانوں اوروہ بھی اپوزیشن سے وابستہ سیاست دانوں کا احتساب محض انتقام کا تاثر دے رہا ہے۔ کیا اب کی بار مائنس تھری پر اکتفا کیا جائے گا یا بات مائنس آل تک بھی جا سکتی ہے؟؟”


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں