نجمہ ثاقب :
دونوں کنگن جُڑواں تھے۔ ایک سا ڈیزائن، ایک سے جڑے نگینے، ایک سی جسامت اور ایک ہی سی نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی چمک دمک۔ سلمیٰ نے انہیں ڈبے سے نکال کر سنگھار میز پر دھرا، تو اس کی نند عذرا نے لپک کر ہاتھوں میں اُٹھا لیے۔ پھر انہیں ہاتھوں میں ہی تولتے ہوئے بولی :
’’بھابھی! یہ تو بہت قیمتی ہیں۔ کیا بھائی جان کی طرف سے تحفہ ہیں ؟‘‘ سلمیٰ کھلکھلا کر ہنسی اور بولی ’’یوں ہی سمجھو۔‘‘ اس مبہم سے جواب سے عذرا کی تشفی تو نہ ہوئی مگر اس جانب زیادہ دھیان دینے کے بجائے وہ زیور کے باریک نمونے پر غور کرنے لگی جسے کسی ماہر ہاتھ نے نہایت نفاست سے گھڑا تھا۔
’’بھائی جان! کتنے اچھے ہیں نا بھابی؟ انہیں آپ کا کس قدر خیال ہے۔ ایک آذر ہے جسے میری کوئی پروا ہی نہیں۔‘‘
عذرا کے لہجے میں اپنے شوہر کے حوالے سے عجیب سی دل گرفتہ کر دینے والی کیفیت تھی۔ ابھی سلمیٰ اسے کوئی مناسب جواب دینے ہی والی تھی کہ عذرا کا موبائل فون بجنے لگا اور وہ ہیلو ہیلو کرتی ہوئی باہر نکل آئی۔
دوسری جانب اس کے شوہر آذر تھے جو رات کو عذرا کے بڑے بھائی کے ہاں منعقد ہونے والی سالگرہ پارٹی میں شرکت کے حوالے سے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ عذرا چونکہ دو روز سے چھوٹے بھائی کے ہاں آئی ہوئی تھی لہٰذا شام سے پہلے پہلے آذر کو اُسے لینے آنا تھا تاکہ وہ گھر سے ہی تیار ہو کر فنکشن میں پہنچ سکے۔
’’میں نہیں جا رہی کسی سالگرہ وغیرہ میں۔‘‘ عذرا چھوٹتے ہی بولی۔ آذر کو بغیر دیکھے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ کہتے ہوئے عذرا کا منہ پھول کر کپا ہو چکا ہے۔
’’مگر کیوں بھئی؟‘‘
وہ اس کایا پلٹ پرحیران اس لیے تھا کہ عذرا نے اس تقریب کے لیے بے حد خوشی خوشی تیاری کی تھی۔ اس نے آذر کے ساتھ خود جا کر نیا جوڑا خریدا تھا اور جوتے، پرس اور دیگر اَلا بلا خریدنے میں آذر کی جیب خاصی ہلکی کی تھی۔
’’مجھے بھائی جان کے ہاں جا کر اپنی جگ ہنسائی نہیں کروانی۔ میرے پاس بازوؤں میں ڈالنے کو کوئی تار تک نہیں۔ بڑی بھابھی تو سونے میں پیلی ہوتی ہی ہیں، اب چھوٹی بھی کنگن ڈال کے خوب اِترائے گی اور میں خالی خولی کانچ چھنکا کر رہ جاؤں گی۔‘‘
’’بہتر ہو گا کہ اس مسئلے پر ہم گھر پہنچ کر بات کریں۔ فی الحال تم تیاری پکڑو، میں آرہا ہوں۔‘‘ آذر نے بحث میں پڑنے کے بجائے فون بند کر دیا۔ عذرا دل ہی دل میں تلملاتی سلمیٰ کی جانب آئی تاکہ اسے نندوئی کی آمد کے بارے میں بتا سکے۔
سلمیٰ الماری کھولے رات کو پہننے کے لیے جوڑا منتخب کر رہی تھی۔ ہڑبڑا کر بولی ’’ارے اس وقت؟ آج تو ماسی بھی چھٹی پر ہے۔ گھر بھر بکھرا پڑا ہے اور پھر کھانے کی تیاری بھی تو کرنا ہو گی۔ آذر کبھی کبھی توآتا ہے۔‘‘ ’’سو تو ہے۔‘‘ عذرا نے اس کی بوکھلاہٹ کا مزہ لیتے ہوئے کہا۔ ’’آپ ماسی کو بلا لیجیے، قریب ہی رہتی ہے ناں ؟‘‘
’’ہاں ہے تو قریب ہی مگر اسی ہفتے میں اس کی بیٹی کی شادی ہے۔ اب پتا نہیں وہ آئے کہ نہ آئے۔ چلو دیکھتی ہوں۔‘‘ اور تھوڑی دیر کے بعد ماسی تو نہ آئی مگر اس نے اپنی بڑی بیٹی کو بھیج دیا جس نے کھانا پکانے کا کام اپنے ذمے لیا اور تندہی سے اس میں جُت گئی۔ اوپر کے کام اور صفائی ستھرائی کے لیے سلمیٰ نے کچی آبادی سے ایک عورت بلوا بھیجی جو اکثر اس طرح کے حادثاتی موقعوں پر کام آتی تھی۔ وہ اپنی دس بارہ سال کی لونڈیا کو بھی ساتھ لیتی آئی اور گھنٹوں کا کام منٹوں میں ختم کر کے گھر بھر چمکا دیا۔
دوپہر کو آذر آیا تو عذرا نے اُسے صاف صاف کہہ دیا
’’کنگن نہیں تو ایک آدھ چوڑی ہی لے دو۔ یوں خالی ہاتھ میں بھائی جان کے گھر نہیں جانے کی۔‘‘ آذر لڑائی نہیں چاہتا تھا مگر فی الحال وہ اس طرح کی کسی بھاری خریداری کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
کھانے کی میز پر عذرا کا موڈ بدستور خراب دیکھ کر بھائی جان یعنی سلمیٰ کے میاں کہنے لگے : ’’آذر! تم ایسا کرو۔ فی الحال عذرا کو کوئی اچھا سا مصنوعی زیور لا دو۔ اس کی بات بھی رہ جائے گی اور تم پر زیادہ بار بھی نہ ہو گا اور پھر آج کل تو ایسی ایسی خوبصورت چیزیں آئی ہوئی ہیں کہ نقل پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔
وہ ابھی اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ میز کے نیچے سے سلمیٰ نے ان کا پاؤں زور سے دبایا۔ وہ یکدم چپ ہو کر اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’چھوڑیے جی رہنے دیجیے۔ اگر اِسے شوق ہے تو لے لینے دیں، آپ کیوں منع کرتے ہیں۔‘‘ عذرا کا منہ بھائی جان کی بات سُن کر مزید سُوج گیا۔ وہ سوچنے لگی، بھائی جان نے اپنی بیگم کو تو اتنے بھاری کنگن دِلا دیے اور مجھے مصنوعی زیورات کا مشورہ دے رہے ہیں۔
’’چلیں دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔‘‘ آذر مسکراتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا دماغ کسی متوقع بدمزگی کے خیال سے بوجھل ہو گیا تھا۔ عذرا کو شوہر کے سیاسی جواب سے اطمینان تو نہ ہوا مگر وہ سہ پہر کے بعد اُس کے ساتھ روانہ ہو گئی۔
اُس کے جاتے ہی سلمیٰ نے شوہر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ’’کیا ضرورت تھی عذرا کو مصنوعی زیورات کی خریداری کا مشورہ دینے کی؟ بلکہ آپ تو میرا پول بھی کھولنے چلے تھے۔ کتنی سُبکی ہوتی میری اگر عذرا کو معلوم ہو جاتا کہ ایک کنگن مصنوعی ہے۔‘‘
’’اس میں سُبکی کی کیا بات ہے؟‘‘ اس کے شوہر نے حیرانی سے کہا۔
’’اگر ایک مصنوعی ہے تو دوسرا اصلی بھی تو ہے نا۔ اگر پتا چل بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
’’فرق پڑے نہ پڑے آپ بہرحال چُپ رہیں گے۔ سلمیٰ نے قطعیت سے کہا اور اُٹھ کر کمرے میں چلی آئی‘‘۔ میز پر نظر پڑی تو دِل دھک دھک کرنے لگا۔ جو کنگن صبح عذرا کو دِکھا کر میز پر رکھے تھے انہیں نند کو جلانے کی ترنگ میں وہاں سے اٹھانا بھول گئی تھی اور اس کے بعد ایسے کاموں میں کچھ ایسے مشغول ہوئی کہ ذہن سے نکل گیا۔
اب وہاں ڈبے کے ساتھ لش لش کرتا فقط ایک کنگن پڑا تھا۔ اس نے بہتیرا تلاش کیا۔ درازیں کھول کھول کر دیکھیں، نیچے فرش پر ڈھونڈا۔ صوفے، بیڈ، سنگھارمیز سب کو اپنی جگہ سے کھسکا کر دیکھ لیا، الماری تک کھنگال ڈالی۔ بس فرش ادھیڑ کر تکنے کی کسر رہ گئی مگر کنگن کہیں ہوتا تو ملتا۔
دھڑکتے دل کے ساتھ میز پر پڑے کنگن کو اٹھا کر الٹا پلٹا اور یہ دیکھ کر رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی کہ کنگن پر سے جوہری کی لگائی وزن کی مہر غائب تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ چور جو کوئی بھی ہو بہرحال بے حد ہوشیار اور زیرک تھا۔ وہ اصل اور نقل کے فرق سے بخوبی آگاہ تھا، اسی لیے تو نقلی کنگن چھوڑ کر اصلی اٹھا لے گیا۔
اس کنگن کی کہانی بھی بڑی دلچسپ تھی۔ جب سلمیٰ کی شادی ہوئی تو اس کے اصلی گہنوں پاتوں کے سا تھ یہ نقلی کنگن بھی آیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ سلمیٰ کی بے حد عزیز سہیلی کی جانب سے اس کے لیے تحفہ تھا۔ ایک تو سہیلی پیاری تھی، دوسرے یہ کنگن اُسے بے حد پسند بھی آیا تھا بلکہ اس نے تو لگے ہاتھوں اَمی سے فرمایش بھی کی تھی : ’’امی! مجھے اسی ڈیزائن میں اصلی والا کنگن بنوا دیں۔ یہ تو پانی لگتے ہی خراب ہو جائے گا۔‘‘
اور امی نے جواب میں یہ کہہ کر بات ختم کر دی۔’’ہم سے جو ہوسکا سو بنوا دیا۔ اب یہ فرمایش اپنے شوہر سے کرنا۔‘‘ سلمیٰ نے شادی کے بعد موقع ملتے ہی یہ فرمایش شوہر کے کانوں میں ڈال دی جسے پورا کرنے کا اس نے وعدہ بھی کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وعدہ نبھاتے نبھاتے سلمیٰ چار بچوں کی ماں بن گئی۔ مگر اس سارے عرصے میں اُس نے کنگن کو خوب سنبھال کر رکھا تھا اور اب جبکہ وہ صاحبِ استطاعت ہو گئی تھی، اس نے دونوں کنگن خصوصی موقع پر اکٹھا پہننے کا فیصلہ کیا۔ بھلا کسے خبر ہوتی کہ ایک کنگن نقلی ہے مگر چور تو بہت باخبر نکلا جس نے چُن کر اصل کنگن اٹھایا اور نقل چھوڑ گیا۔ اب کہاں کی سالگرہ اور کیسی شرکت؟؟ وہ اس وقت کو کوس رہی تھی جب اُس نے کنگن میز پر چھوڑے تھے۔
’’ہو نہ ہو یہ عذرا کی حرکت ہے۔ اس سے میری خوشی کبھی برداشت نہیں ہوتی۔‘‘ سلمیٰ کا اتنا کہنا تھا کہ اس کے شوہر بگڑ گئے۔ ’’فضول باتیں مت کرو۔ عذرا بھلا ایسا کیوں کرنے لگی۔ دیکھو تم سیدھا سیدھا میری بہن پر چوری کا الزام لگا رہی ہو اور وہ بھی میرے منہ پر۔‘‘
شوہر کا غصہ دیکھ کر سلمیٰ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔
’’پھر آپ ہی بتائیے؟ یہ کون ہو سکتا ہے؟ میں نے سارا کمرا چھان مارا ہے کہیں کوئی نشان تک نہیں۔‘‘
’’تم ذہن پر زور ڈال کر سوچو! آج ہمارے گھر میں کون کون آیا تھا؟‘‘ شوہر نے اُسے مشورہ دیا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔
’’صفائی کرنے والی ماسی اور کھانا پکانے کے لیے ماسی کی بیٹی آئے تھے مگر ماسی کی بیٹی تو سارا وقت کچن میں رہی اور صفائی والی اور اس کی بیٹی کمرے میں گئی تو تھیں مگر اُس وقت میں اُن کے ساتھ تھی۔ صفائی والی کی بیٹی نے کنگن دیکھ کر اس کی تعریف بھی کی تھی مگر اُن پر میں اس لیے شک نہیں کر رہی کہ پہلے انہوں نے کبھی ایسا کام نہیں کیا۔‘‘
’’ہوسکتا ہے کہ پہلے انہیں موقع نہ ملا ہو۔‘‘ اس کے شوہر نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’یہ آپ درست کہہ رہے ہیں۔‘‘ وہ کچھ سوچ کر بولی۔
’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ یہ انہی میں سے کسی کا کام ہوسکتا ہے۔ ماسی کی بیٹی کی تو شادی بھی ہونے والی ہے۔ سچ ہے غریب کا کوئی ایمان نہیں۔‘‘
شوہر کی بات نے سوچ کے نئے دروازے کھولے تو وہ چلا کر بولی۔
’’انہیں ابھی بلوائیے، فوراً ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ “ ماسی اور اس کی بیٹی پیام ملتے ہی دوڑی چلی آئیں۔
’’خیر تو ہے بی بی، دوبارہ بلوا لیا۔ کیا مہمان ابھی گئے نہیں ؟ “ سلمیٰ کی صورت نے اُن کی بولتی بند کر دی۔
دوسری طرف کچی آبادی میں صفائی والی بمشکل گھر پہنچی ہو گی کہ اُسے اُلٹے پاؤں واپس آنا پڑا۔ سلمیٰ آتے ہی اُن پر اُلٹ پڑی۔ ماسی تو کانوں کو ہاتھ لگا رہی تھی اور اس کی بیٹی کارنگ یوں تھا جیسے ہلدی کی گانٹھ کا چُورا۔
’’قسم لے لیجیے بی بی، غریب ضرور ہوں پربے ایمان نہیں۔‘‘کچی آبادی والی پاؤں میں آن پڑی۔
’’میری بچی نے اگر یہ حرکت کی ہے تو میں آپ کے سامنے اُس کی کھال کھینچوں گی مگر مجھے یقین ہے کہ یہ اس کا کام نہیں۔‘‘
’’یہ چکما کسی اور کو دینا۔ تم لوگوں کے نکلتے ہی کیا کنگن کو پاؤں لگ گئے تھے اور تمہاری وہ لونڈیا، کیسے بھوکوں کی طرح کنگنوں کو تک رہی تھی۔“
ماسی اور اُس کی بیٹی کی زبان گنگ اور رنگ فق تھا۔ اُس نے کہا تو صرف اتنا ’’ چار دن بعد میری بیٹی کی شادی ہے اور میرے پاس عزت کے سوا اور کچھ نہیں بی بی۔‘‘ اگر وہ دونوں پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہی تھیں تو سلمیٰ بھی کسی طور انہیں چھوڑنے پر تیار نہیں تھی۔ شام ڈھلنے لگی تو میاں کو بھائی کے ہاں پہنچنے کا خیال ہوا۔ وہ کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے خود اندر آئے اور کہنے لگے:
’’اب اِن کو چلتا کرو۔ صبح تک کنگن گھر پہنچ جانے چاہئیں ورنہ مجھے پولیس میں رپٹ لکھوانا پڑے گی‘‘۔
پولیس کا نام سُن کر دونوں ملازمائیں مرنے والی ہو گئیں۔ لگیں دُہائی دینے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی تو روتے پیٹتے گھر سے نکل گئیں۔ سلمیٰ کا دل ہرگز کسی تقریب میں شریک ہونے پر آمادہ نہ تھا۔ لاکھ ٹال مٹول کی، طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنایا۔ دل کے بُجھنے اور اُمنگ کے بوڑھا ہو جانے کی تاویلیں دیں مگر میاں نے ایک نہ سنی اور صاف کہہ دیا
’’میرے بھائی کے گھر کی تقریب ہے، جانا تو ہو گا۔‘‘ سلمیٰ بجھے دل سے اُٹھی۔ کمرے میں جا کر صبح کا منتخب کردہ جوڑا استری کرنے کو صوفے سے اٹھایا تو چھن سے کچھ نیچے گرا۔ ارے، وہ گنگ کھڑی رہ گئی،
دوسر اکنگن اُس کے قدموں میں پڑا لش لش کر رہا تھا۔
’’اوہ خدایا… یہ کیا اور کیسے ہو گیا؟‘‘ وہ ایک مرتبہ پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ میاں اندر اُسے بلانے آئے تو سامنے کا منظر دیکھ کر اُن کی حالت بھی کم و بیش ایسی ہی ہو گئی۔ وہ کبھی سلمیٰ کے ہاتھ میں پکڑے کنگن کو دیکھتے اور کبھی میز پر پڑے دوسرے کو۔
’’یہ کہاں سے ملا؟‘‘ انہوں نے بدقت پوچھا۔
’’میرے کپڑوں کے اندر سے۔‘‘ وہ بدبدائی۔
’’ایک تو تم عورتیں …‘‘ وہ ایک مرتبہ غضب ناک ہو کر آگے بڑھے پھر یکدم پیچھے ہٹے اور ٹھنڈے ہو کر صوفے پرگر سے گئے۔
’’میرا اندازہ ہے۔‘‘ سلمیٰ کی سرسراتی ہوئی آواز اُبھری۔ ’’جب عذرا نے مجھے آذر کی آمد کے بارے میں بتلایا تھا، میں رات کے لیے جوڑا منتخب کر رہی تھی۔ شاید اس وقت جلدی میں، میں نے اسے میز پر ڈال دیا اور جب دوبارہ اٹھا کر صوفے پر رکھا تو کنگن چوپٹے کے کام پر اٹک کر چھپ گیا اور کچھ اِس طور اٹکا کہ جھاڑنے پر بھی نیچے نہیں گرا۔‘‘
میاں کچھ دیر تاسف سے اسے دیکھتے رہے پھر اُٹھ کر باہر جانے لگے، تو سلمیٰ انہیں روک کر بولی :
’’بھاڑ میں جائے ایسی خوشی جو دلوں میں تعفن، نفرت اور دُکھ کے ببول بوئے۔ بدگمانیوں کی فصل کاشت اور بے کسی اور بے بسی کے لمحوں کو ثمربار کرے۔ آپ یہ کنگن جوہری کے ہاتھ بیچ آئیے۔ رقم لے کر ماسی کی بیٹی کو شادی کا تحفہ دینے میں خود جاؤں گی۔ دوسرا کنگن صفائی والی کی بیٹی کا ہے، اُسے پسند جو آیا تھا۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے کنگن حیران و پریشان میاں کے ہاتھ میں دیا اور چپکے سے باہر نکل گئی۔