نون چائے، مکئی کی روٹی

کشمیر کو جانیے ( حصہ سوم )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سید امجد حسین بخاری :

کشمیر کو جانیے ( حصہ اول )

کشمیر کو جانیے ( حصہ دوم )

کشمیری چائے یا سبز چائے ۔۔۔ کشمیر کے پہاڑی علاقوں ضلع حویلی، ہٹیاں، پونچھ ، وادی جہلم ، نیلم ، پلوامہ ، اننت ناگ ، سری نگر ، ریاسی وغیرہ میں نون چائے ناشتے کا لازمی جزو ہوتا ہے۔

یہ چائے مختلف طریقوں سے بنائی جاتی ہے ،عموماً سبز پتی، مسلون (جنگلی سٹرا بیری) اور زخم حیات کی جڑوں سے تیار کی جاتی ہے۔ رات کو اوپر بیان کئے گئے اجزا میں سے کوئی ایک جزو پانی میں ڈال دی جاتی ہیں ، اس پانی کو چولہے پر رکھ دیا جاتا ہے ، یہ پانی چولہے میں بچے انگاروں کے باعث ہلکی آنچ پر پکتا رہتا ہے، علی الصبح اس پانی کو مزید ابالا جاتا ہے ، جس کے بعد اس میں دودھ ڈالا جاتا ہے،

نون چائے میں ناشتے کیلئے نمک کا استعمال کیا جاتا ہے، بعض اوقات چائے میں پسا ہوا ناریل، بادام ڈال لیا جاتا ہے ، نون چائے بڑے پیالوں میں ڈالی جاتی ہے ، اس چائے میں مکئی کی روٹی ڈال کر کھائی جاتی ہے، نون چائے اور مکئی کی روٹی کے ناشتے کے تصور ہی میں بادشاہت کا گمان ہوتا ہے،

یہ ناشتہ دریائے جہلم، نیلم اور پونچھ کی وادیوں میں زیادہ مقبول ہے ، حبہ خاتون کا قول ہے کہ کشمیری کی پہچان پھیرن اور نون چائے سے ہوتی ہے۔تو جناب آئیے ناں کبھی کشمیر آپ کو سموار میں چائے پیش کرتے ہیں ۔۔ سموار کا تعارف اگلے چند دنوں میں پیش کروں گا۔

کفل، بھیڈروی اور اجنبی لڑکی
یہ بات ہے آج سے ٹھیک چار سال پہلے کی ہے، میں اپنے آبائی گاوں میں تھا، کشمیر میں میرے سب سے قریبی دوست ارشد محمود کی دعوت پر ضلع میں موجود مختلف چراگاہوں کی سیر کا پروگرام بنا۔ محکمہ جنگلات کی طرف سے ہر گائوں کو ایک چراگاہ الاٹ کی جاتی ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بنی اکثر چراگاہیں گاؤں سے پندرہ بیس گھنٹوں کی مسافت پر ہوتی ہیں ،

قصہ مختصر میں اور ارشد صاحب نے رخت سفر باندھا اور چل نکلے ، ایک چراگاہ کے بعد ، دوسری، تیسری اور پھر چوتھی ، چلتے چلتے ہم مغربی کٹھنار پہنچ گئے۔ یہاں دونوں کو بھوک نے ستایا، دور دور تک انسانی آبادی دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔

اچانک جنگل میں بہت دور سے کسی لڑکی کی آواز سنائی دی ، وہ لوک گیت گنگنا رہی تھی ۔ اپنی بھینسوں کو جنگل میں چراتے ہوئے اسے اپنے گمنام محبوب کی یاد ستا رہی تھی ، گوجری زبان میں اس لوک گیت میں درد تھا ،اچھے کل کی امید تھی ، کچھ ارمان تھے اور ساتھ ہی خوشی کے جذبات بھی شامل تھے۔

اچانک ارشد نے انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں ، اپنی جیب سے الغوزہ نکالا اور جوابی لوک گیت الغوزے کی موسیقی کے ساتھ گنگنانا شروع کردیا۔ لڑکی کی آواز قریب سے قریب تر ہوتی گئی ، لوک گیت کی جگہ ماہیے اور ٹپے نے لے لی تھی ، دونوں شاعری میں گفتگو کر رہے تھے ، خیر موسیقی میں ہوتی گفتگو میں ارشد محمود نے اس لڑکی کو بتایا کہ ہم بھوکے ہیں ، یہاں دور دور تک کھانے کا انتظام نہیں ہے۔

کم و بیش آدھا گھنٹا جنگل میں سکوت طاری رہا ، کبھی کبھار دان گیر ، بن ککڑ اور چکور کی آوازیں سنائی دیتیں۔ آدھے گھنٹے بعد ایک لڑکی نمودار ہوئی ، جس کا حسن ان وادیوں میں کھلے پھولوں جیسا تھا ، جس کی باوقار چال سے وہ کسی مہاراجہ خاندان کی رانی دکھائی دیتی تھی،

وہ لڑکی ہمارے لئے روٹیاں ، کفل کا ساگ اور دہی لائی تھی ۔ اب کفل دو اقسام کی ہوتی ہے ، ایک کفل جو ساگ کی طور پر استعمال ہوتی ہے جبکہ دوسری کفل ایک نشہ آور جڑی ہے ، جس کو کھانے کے بعد انسان اپنا ہوش کھو دیتا ہے ۔ اکثر اوقات تین سے چار دنوں کے بعد انسان کا دماغ نارمل ہوتا ہے ۔ کفل کا ساگ دیکھ کر میں گھبرا گیا کیونکہ عام کفل اور نشہ آور کفل میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔

کفل کہانی اگلے چند دنوں میں پیش کروں گا۔ خیر اپنی میزبان کا شکریہ ادا کیا ، بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا اور ہم اپنی منزل بھیڈروی کی جانب چل پڑے ۔

کشمیر کے جنگلی پھل
کشمیر کے جنگلات میں انواع و اقسام کے پھل ہوتے ہیں ، لیکن تین پھلدار جھاڑیاں تقریباً پر جنگل میں پائی جاتی ہیں ، پکانہ، یہ ایک کانٹے دار جھاڑی ہے، جس کے کانٹے مضبوط اور سخت ہوتے ہیں ، اس جھاڑی کی ٹہنیاں گلاب کی طرح پھیلتی ہیں جبکہ اس پر سفید پھول اگتے ہیں ، پھولوں کے اختتام پر اس پر لذیذ پھل جو ذائقے اور سائز کے اعتبار سے فالسے کی طرح کا ہوتا ہے۔

دوسرا اہم پھل سنبل ہوتا ہے، یہ ایک کانٹے دار جھاڑی پر اگتا ہے ، عموماً جولائی اور اگست میں اس کا پھل تیار پوجاتا ہے ، یہ پھل ماش کے دانے کے برابر ہوتا ہے ، اسے بڑے برتن میں جمع کرکے دوپہر میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر کھانے کا الگ ہی لطف ہے۔

کشمیر کا قومی جنگلی پھل گڑنچھ ہے ، یہ بھی جھاڑیوں پر اگتا ہے مگر یہ جھاڑی کانٹے دار نہیں ہوتی ، مارچ میں ان جھاڑیوں پر پھول اگتے ہیں جبکہ جون میں ان کا پھل تیار پوجاتا ہے ، اس پھل کو جنگلی فالسہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان پھلوں کا تعارف اس لئے کرایا کیونکہ ان دنوں ان پھلوں کا سیزن ختم ہوچکا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں