ڈاکٹر فرقان حمید:
ترکی کا شہر قسطنطنیہ ( موجودہ استنبول) دنیا کا واحد شہر ہے جس کو فتح کرنے والوں سے متعلق رسول کریمؐ نے جنت کی بشارت دی جس سے اس شہر کی عظمت کو چار چاند لگ گئے۔ حضرت محمدؐ کی مدینہ میں میزبانی کا شرف حاصل کرنے والے صحابی حضرت ایوب انصاریؓ نے قسطنطنیہ کی فتح کے متعلق رسول کریمؐ کا یہ فرمان ’’تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہو گا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہو گی‘‘ سنا تو وہ اس خوش نصیب لشکر کا حصہ بننے کیلئے بے چین ہو گئے۔
جب امیر معاویہؓ نے قسطنطنیہ کی فتح کیلئے لشکر روانہ کیا تو اس وقت حضرت ابو ایوبؓ بہت ضعیف ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود آپ لشکر اسلام میں شامل ہوئےاور قسطنطنیہ کے لیے روانہ ہوئے تو اس شہر کے قریب پہنچنے پر شدید بیماری میں مبتلا ہوگئے اور رحلت فرمانے پر ان کی وصیت پر عمل درآمد کرتے ہوئےہی انہیں قسطنطنیہ کی فصیلوں کے قریب دفن کردیا گیا۔
ان کے بعد ہر مسلم حکمران کی دیرینہ آرزو تھی کہ قسطنطنیہ فتح کرے مگر خلافتِ عثمانیہ کے دوران اس کی فتح کیلئے کوششوں میں مزید تیزی آئی اور بالآخر یہ سعادتِ ابدی عظیم سلطان مراد ثانی کے فرزند سلطان محمدثانی (جسے فتح قسطنطنیہ کی وجہ سے فاتح کا لقب ملا) قسطنطنیہ (استنبول) فتح کرکے اس بشارت کے مصداق ٹھہرے۔
کئی ایک مؤرخین کے مطابق سلطان محمد ثانی جب قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لیے آخری حملے کی تیاریاں کررہے تھے تو ان کے دستِ راست مشیر نے پوچھا عزتِ ماب سُلطان! اگر یہ حملہ بھی پہلے حملوں کی طرح ناکام رہا تو ہمیں کیا حکمتِ عملی اختیار کرنا ہوگی؟ سلطان کا جواب تاریخی اور لاجواب تھا:
’’ یہ فیصلہ کُن حملہ ہے، آج قسطنطنیہ مجھے لے لے گا یا میں قسطنطنیہ کو لے لوں گا‘‘۔
اور پھر اس آخری حملے میں اللہ کی مدد سے سلطان نے قسطنطنیہ لے لیا اور یوں جیتے جی جنتی بن کر جو رتبہ حاصل کیا وہ کسی دیگر حکمران کو نصیب نہ ہوسکا۔
جب قسطنطنیہ فتح ہو گیا تو سلطان نے اپنے لشکر کو مبارک باد دی اور کہا کہ وہ شہر میں بسنے والے لوگوں سےحسنِ سلوک کریں، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں،قتل و غارت نہ کریں پھر گھوڑے سے نیچے اترے اور آیا صوفیہ پہنچ کر اذان دی اور ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجا لائے۔
راقم نے 24 جولائی 2020 کو آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کی تقریب سے متعلق رواں اردو تبصرہ پہلی بار ترکی سے اپنے ’’یارِ من ترکی‘‘ یو ٹیوب چینل کے ذریعے اپنے پاکستانی بھائیوں کے لیے پیش کیا۔
ترکی کی انتظامی امور کی اعلیٰ ترین عدلیہ’’ کونسل آف اسٹیٹ‘‘ کی جانب سے آیا صوفیہ عمارت کو سلطان محمد فاتح کی ذاتی ملکیت قرار دیتے ہوئے اسے سلطان محمد فاتح ٹرسٹ کی نگرانی اور ملکیت میں ہونے کی وجہ سے 1934 میں کیے گئے کابینہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے مسجد میں ڈھالنے اور عبادت کے لیے کھولنے کا فیصلہ سنا دیا تھا جس پر صدر رجب طیب ایردوان کی صدارت میں کابینہ نے 24 جولائی کو اسے عبادت کے لیےکھولنے کا اعلان کرتے ہوئےعوام سے نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اپیل کی تھی ۔
کورونا وائرس کی وجہ سے مسجد کے اندر صرف پانچ سو افراد ہی کو سوشل ڈسٹنس کا خیال رکھتے ہوئے داخل ہونے کی اجازت دی گئی لیکن مسجد کے باہر پارک میں ساڑھے تین لاکھ افراد نے نمازِ جمعہ ادا کی۔
میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کی تقریب کے موقع پر ترکی کے صدر ایردوان نے خشوع و خضوع سے تلاوتِ کلام پاک کی۔ پہلی بار چاروں میناروں سے ایک ساتھ چار مختلف موذنوں نے اذانِ محمدی دیتے ہوئے سماں باندھ دیا ۔
آیا صوفیہ میں نمازِ جمعہ کا خطبہ اورمنبر پر پہنچتے ہوئے تین ہلال پر مشتمل ( تین ہلال ترکوں کی تین براعظموں پر حکمرانی کی علامت ہے) عصا کی جگہ تلوار(قوت اور طاقت کی علامت) اٹھائے خطبہ دینے والے ترکی کے محکمہ مذہبی امور کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر علی ایرباش کا خطبہ اس وقت پورے ترکی میں بحث و مباحثے کا باعث بنا ہوا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر علی ایرباش نے اپنے خطبے کے آخر میں سلطان محمد فاتح کے ان الفاظ کو جگہ دی ہے جس میں انہوں نے اس مسجد کو کسی دیگر مقصد کے لیے استعمال کرنے یا اس کی اجازت دینے والی شخصیات پر لعنت ملامت کی ۔
اپوزیشن کے ری پبلکن پیپلز پارٹی اور گڈ پارٹی نے پروفیسر ڈاکٹر علی ایر باش کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے اور کہا کہ انہوں نے یہ لعنت ملامت جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پر کی ہےجو کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے اور ان دونوں پارٹیوں نے ترکی کے محکمہ مذہبی امور کے سربراہ سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ خطبے کے موقع پر لعنت ملامت کا نشانہ جمہوریہ ترکی کے بانی کو نہیں بنایا گیا ہے۔
ترکی میں پہلی بار آیا صوفیہ مسجد میں دیے جانے والے خطبے کے بعد ایک جریدے نے اپنے سرورق پر خلافت کے دوبارہ سے بحال کرنے سے متعلق عوامی جذبات کی بھی عکاسی کی ہے جس پر 15 جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد ترک مسلح افواج نے پہلی بار اپنی ویب سائٹ پر مزارِ اتاترک پر فوج کو گشت کرنے کی تصویر شائع کرتے ہوئے حکومت کو خصوصی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کیا اقدام اٹھاتی ہےکیونکہ حکومت کی جانب سے ابھی تک پروفیسر ڈاکٹر علی ایرباش کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ۔
جہاں تک ملک میں ایک بار پھر خلافت قائم کرنے سے متعلق میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کا تعلق ہے میری ذاتی رائے میں ترکی کی بڑی اکثریت اب خلافت قائم کرنے کے حق میں نہیں ہے بلکہ ترک ڈیموکریسی پر یقین رکھتے ہوئے اپنی ترقی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں۔