ابن فاضل :
پہاڑی علاقوں میں زندگی نسبتاً مشکل ہوتی ہے. ذرائع آمدورفت، سڑکوں، پلوں کی تعمیر، بجلی کی تاروں کی تنصیب، گیس پائپ لائنوں کی ترسیل اور دیگر سہولیات کا پہنچانا میدانی علاقوں کی نسبت بہت مشکل اور مہنگا ہوتا ہے. پھر شہری علاقوں کی نسبت آبادی کم گنجان ہونے کی وجہ سے ان سہولیات کی فی کس قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے.
یہی وجہ ہے کہ پہاڑوں پر فیکٹریاں وغیرہ اور دیگر روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں نتیجتاً لوگوں کی زندگی کم آسودہ ہوتی ہے. یا یوں سمجھ لیں کہ غربت کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے. اس وجہ سے پہاڑوں پر بسنے والوں کی آمدنی میں اضافے کیلئے دنیا بھر میں حکومتی سطح پر خصوصی کاوش اور اہتمام کیا جاتا ہے.
ہمارے خطہ میں آٹھ ممالک، پاکستان، چین، افغانستان، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان اور میانمار پر مشتمل حکومتی سطح پر ایک تنظیم (ICIMOD) انٹرنیشنل سنٹر فار انٹگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمینٹ کے نام سے بنائی گئی ہے جس کا ہیڈ آفس کھٹمنڈو نیپال میں ہے.
ڈاکٹر سرندرا راج جوشی اس ادارے کے ایک ماہر ہیں. انہوں نے اپنے ایک مقالے میں ان آٹھ ممالک کے پہاڑی علاقوں میں انسانوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے دستیاب وسائل میں پاکستان کو پہلے نمبر پر رکھا ہے.
انہی کی تحریر سے معلوم ہوا کہ گلگت، سکردو، کھپلو ، دیوسائی ،ہنزہ اور اس کے آس پاس علاقوں میں کیمومائل (Chamomile) پایا جاتا ہے، پھر اپنے ذرائع سے اس کی تصدیق بھی کی. کیمومائل کو اردو میں گل بابونہ کہتے ہیں. یہ ایک چھوٹا سا سورج مکھی کی طرح کا پھول ہے. جس میں قدرت نے انسانوں کیلئے بہت فائدے رکھے ہیں. گل بابونہ کی چائے بہت ہی، خوش ذائقہ، خوشبودار اور سکون بخش ہوتی ہے. اس اینٹی ایجنگ اور اینٹی آکسیڈنٹس کثیر مقدار میں پائے جاتے ہیں.
گل بابونہ سے ایک تیل نکلتا ہے. اسے کیمومائل آئل یا روغنِ گل بابونہ کہیں گے. اس تیل میں جلد اور بالوں کی نشوونما کے بہت سی قیمتی اجزاء موجود ہیں. اس روغن کے جلد اور بالوں پو اثرات اس قدر زبردست اور واضح ہیں کہ دنیا بھر کے سب مشہور باڈی لوشن اور شیمپوز کے برانڈز نے اسے اپنے فارمولا کا جزو بنا لیا ہے.
گل بابونہ کی فصل دو ماہ میں تیار ہوجاتی ہے اور پوری گرمیاں پھول اتارے جاسکتے ہیں. ایک بار کی کٹائی میں فی ایکڑ 1400 کلو پھول حاصل ہوتے ہیں. جنھیں سایہ دار جگہ یا ڈی ہائیڈریٹر میں خشک کیا جائے تو 350 کلو گرام خشک گل بابونہ حاصل ہوجاتا ہے. آپ حیران ہوں گے کہ پاکستان میں خشک گل بابونہ کی قیمت فروخت 5000 روپے فی کلو گرام ہے.
1.7 فیصد کے حساب سے ان گلوں سے 23، 24 کلو روغن گل بابونہ نکلے گا. اس کی عالمی منڈی میں قیمت 250 ڈالر فی کلوگرام ہے. یعنی ایک ایکڑ سے آٹھ سے نو لاکھ کی آمدن جبکہ گندم فی ایکڑ بمشکل ایک لاکھ روپے کی پیدا ہوتی ہے.
ہمارے شمالی علاقہ جات چیڑھ کے درخت سے بھرے ہوئے ہیں. اس درخت کے تنے سے چھال اتار کر مخصوص طریقہ سے کٹ لگانے سے اس میں سے ایک طرح کا گھاڑا لیسدار مادہ نکلتا ہے جسے پائن ریزن یا بروزہ کہتے ہیں. ساری دنیا میں بشمول بھارت چیڑھ کے درختوں سے یہ بروزہ نکالا جاتا ہے جس سے تارپین کا تیل، لکڑی کی پالش اور مختلف اقسام کی دیگر اشیاء بنائی جاتی ہیں. پاکستان میں 1980 تک یہ بروزہ نکالا جاتا تھا اور اس کو پراسیس کرنے کے دو کارخانے بھی قائم کیے گئے تھے. جن میں سے ایک ہری پور میں تھا.
1980 میں سرکار نے بیک جنبش قلم اس عمل پر پابندی لگا دی جس کی وجہ آج تک تلاش کی جارہی ہے. ہری پور میں موجود کارخانے کو ختم کرکے اس زمین ملحقہ کالج کا دے دی گئی اور یوں یہ باب ہمیشہ کیلیے بند کردیا گیا.
واقفانِ حال کا خیال ہے کہ اس حکم کے پیچھے چین کا دباؤ اور کچھ رشوت تھی جس کے باعث اس کو بہت بڑی مارکیٹ اپنا بروزہ بیچنے کیلیے مل گئی. محکمہ جنگلات کے کچھ محب وطن افسران دوبارہ اس عمل کو شروع کرنے کیلیے اس حکم کو کالعدم قرار دیے جانے کی کوشش کر رہے ہیں. دیکھیں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں. اگر کوئی دوست سرکاری اعلیٰ حکام تک اس معاملے کو پہنچا سکتا ہے تو پاکستان اور مقامی لوگوں کی خوشحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرے. یہ ہم سب پر قرض بھی ہے اور فرض بھی.