محمد صلی اللہ علیہ وسلم

میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شازیہ عبدالقادر :

”بھائی صاحب ! ایک بات کہوں اگر برا نہ مانیں تو۔۔۔۔۔“
اچھرہ بازار میں بچیوں کی چیزیں لیتے ہوئے دکاندار میرے میاں صاحب کو بڑی دل سوزی سے مخاطب ہوا تو میں بھی چونکی۔

میاں صاحب اس وقت چار سالہ محمد کو بازار میں ہاتھ چھڑا کر بھاگتے ہوئے قابو کر کے لائے تھے کہ بازار لے کر جانے ، میاں صاحب کی جیب خالی کروانے کے ساتھ ساتھ بیگم اور بچے کی حفاظت بھی ایک ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔
”بھائی صاحب ۔۔۔۔“ دکاندار دوبارہ گویا ہوا ،
” ابھی اس بچے کو آپ جیسے بےادبی سے پکار رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔“ ساتھ ہی اس نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا:
” یہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔ “

” آپ تو مجھ سے زیادہ دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے لگتے ہیں،میری تو داڑھی بھی نہیں، آپ سنت مبارکہ سےمزین ہیں۔۔۔۔لیکن یہ نام ” محمد “ اتنا مبارک ہے کہ ہم وضو کے بغیر لینا بے ادبی سمجھتے ہیں۔

” اللہ کی محبوب ترین ہستی حضرت محمدؐ ۔۔۔۔“ اور یہ کہتے اس نے ہاتھ چوم کر آنکھوں کو لگاتے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اور درود پڑ ھا۔۔۔۔۔اور پھر کہا کہ
”ان کا نام مبارک ایسے ترش لہجے میں پکارنا ٹھیک نہیں ہے۔ پھر کان کو ہاتھ لگایا۔
” برا نہ منائیے گا بھائی صاحب ۔۔۔۔“
میاں صاحب:” بھئی یہ نام خود پیارے نبیۖ نے رکھا، قیامت کے دن جب اللہ حضرت محمدؐ کو پکاریں گے تو جتنے محمد نام کے ہوں گے سب اٹھ کھڑے ہوں گے ۔۔۔۔ “
اور اس جیسی دوتین باتیں میاں صاحب نے کرکے کہا۔۔۔۔
” یہ میرا بیٹا محمد بن عبدالقادر ہے، ہم اسے محمدؐ کہہ کر نہیں پکارتے !!!! “

” دیکھیں بھائی صاحب ! نام تو مبارک ہے نا!!!! “
میاں صاحب: ”جی بالکل اسی لئے رکھا ہے کہ اس نام کی برکت ہو۔“

دکاندار: ” دیکھیں اس کی والدہ باتھ روم میں پکارتی ہوں گی، بچے سو شرارتیں کرتے ہیں کبھی آپ غصہ ہوتے ہوں گے، پھر دوسرے بچے اس کا نام بگاڑتے، گالیاں دے سکتے بھائی صاحب ۔۔۔۔“ دکاندار دل پر ہاتھ رکھ کر گلوگیر ہوتے بولا۔

” اس ایک نام کی لاج نہ رکھ سکیں ہم تو پھر کیا بنے گا ہمارا۔۔۔ “

میاں صاحب اور دکاندار کی بحث شاید کچھ اور چلتی، مجھے گھر کو واپسی کرنا تھی کہ بڑے بچے بھی گھر اکیلے تھے اور کچھ بحث کی متوقع طوالت سے گھبرا کر بولنے کی ٹھانی۔
اس سے پہلے کہ دونوں کی جاری بحث کہ ” محمد نام ادب والا ہے، بچے کا نام بدل دیں یا ساتھ کوئی اور نام لگادیں “۔

دوسری جانب اس نام کی برکات اور فضائل رکھنے کی اجازت کے بارے میں مزید موقف چلتا،
میں نے نہ چاہتے ہوئے دکاندار کو مخاطب کیا :

” جی بھائی صاحب! آپ کی بات بالکل درست ہے ، ” محمد “ نام بہت ہی زیادہ عزت و احترام کے لائق ہے بلکہ یہی ایک نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قابل احترام و عزت ہے۔ “

سانس لینے کو رکی تو دیکھا میری بات سن کر دکاندار کے چہرے پر تھوڑا اطمینان ہوا کہ شاید باجی سیانی ہے جو بات سمجھ گئی ہے۔
میری بات جاری رہی۔

” اس نام ” محمدؐ “ کا احترام ہم پر واجب ہے
لیکن
کبھی سوچا اس نبی حضرت محمدؐ کی تعلیمات کا احترام بھی ہم پر واجب یا فرض ہے،
اس بازار میں آپ کی شاپ پر اردگرد دکانوں پر جو کچھ ہورہا ہے
کیا وہ اس اونچے نام کے نبی آخر الزماں، خاتم النبیین، امام الانبیاء، شافع محشر کی تعلیمات کی بےادبی محسوس نہیں ہوتی؟؟؟؟ “

” روزانہ یہاں ہونے والا مالی لین دین، مارکیٹنگ، کیا یہ اس نبی محترم کی تعلیمات مطابق ہے؟
اس وقت آپ کی اس دکان میں حضرت محمدؐ تشریف لے آئیں تو یہاں ان کی تعلیمات نافذ ہیں؟؟ صرف اس دکان میں جو آپ کی اپنی ہے۔ “

کیا کسی ایک لمحے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف کام ہوتا دیکھ کر ناگواری ہی سہی آتی ہے ؟
روکنا تو دور کی بات ہے، اپنی ہی خرید و فروخت کو دیکھ لیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر دنیاوی فائدہ ہی ترجیح ہوگا نا۔۔۔۔۔کہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مقابل وہ سب جو یہاں سب کررہے ہیں آپ وہی کریں گے اور کہیں گے کہ جی سب کررہے ہیں ، تو کیا یہ بےادبی نہیں؟؟؟ “

” بھائی!!!! اصل بےادبی یہ ہے کہ ہم لاالٰہ الّا اللہ محمد الرّسول اللہ بولیں اور اس بازار اس دکان میں ان کی تعلیمات کے خلاف عمل کریں۔ “
دکاندار کوچپ لگ گئی اور ہم محمد کو لیکر آگے بڑھ گئے۔

( تحریر تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے متعارف کروائے گئے قانون ” تحفظ بنیاد اسلام بِل “ کے تناظر میں لکھی گئی )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں