فاروق عادل :
سنہ 1956 کا ماہ جولائی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کرونیکل (مرتبہ عقیل عباس جعفری) میں 31 جولائی کی تاریخ کے حوالے سے درج ہے کہ اس روز وزیر اعظم چوہدری محمد علی کو ان کے منصب سے ہٹانے کے لیے سازشیں اپنے نکتہ عروج پر پہنچ گئیں تھیں اور وہ سیاسی طور تنہائی کا شکار ہو چکے تھے۔
وزیر اعظم جس نوعیت کی مشکلات میں پھنس چکے تھے وہ کوئی فوری نوعیت کا معاملہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل 13 جولائی کو ایک ایسا واقعہ رونما ہو چکا تھا جس کی وجہ سے انتظامیہ پر حکومت کا اختیار متزلزل ہو کر رہ گیا تھا۔
اُس روز کمشنر کراچی اور سیکریٹری وزارت داخلہ نے خفیہ پولیس کے دفتر پر چھاپہ مار کر وزرا اور اعلیٰ سرکاری افسروں کے ٹیلی فون ریکارڈ کرنے والے آلات برآمد کیے تھے۔ اس واقعے نے سیاسی استحکام کو بُری طرح متاثر کیا اور ملک کی سیاسی قیادت اور بیوروکریسی کو سیڑھی بنا کر ایوان اقتدار میں جگہ بنانے والے طبقے کے درمیان پہلے موجود خلیج میں مزید اضافہ کر دیا۔
اقتدار پر قابض رہنے کے لیے نت نئی ترکیبیں آزمائی جانے لگیں، ان میں ایک حربہ انتخابات کے التوا کا بھی تھا جس کی سب سے زیادہ ضرورت سابق وزیر داخلہ اور اُس وقت کے صدر میجر جنرل (ریٹائرڈ) سکندر مرزا محسوس کرتے تھے۔ سکندر مرزا نے ون یونٹ کی وجہ سے بے چینی کے ابھرتے ہوئے جذبات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اگلے کچھ عرصے کے دوران سکندر مرزا چوہدری محمد علی کے بعد ان کے جانشین حسین شہید سہروردی کو بھی گھر بھیجنے میں کامیاب ہو چکے تھے اور اب ان کے سامنے انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کے علاوہ وزیر اعظم فیروز خان نون سے نجات کا مرحلہ درپیش تھا، اس مقصد کے لیے سب سے پہلے انھوں نے سابق ریاست قلات کے حکمران میر احمد یار خان کو اعتماد میں لیا۔
’میں نے بھوپال کے نواب کو بلا لیا ہے، وہ وزیر اعظم بن جائیں گے، میں تو صدر ہوں ہی، اس کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘
میجر جنرل سکندر مرزا نے خان آف قلات میر احمد یار خان کے کان میں سرگوشی کی۔
’بس، تم کوئی ایسی تدبیر کرو کہ یہ سب کام بغیر کسی رکاوٹ کے انجام پا جائیں۔‘
اور اگلی ہی صبح نواب آف بھوپال سر حمید اللہ خان پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں تھے۔
یوں اس منصوبے کے روبہ عمل آنے میں اتنی ہی دیر باقی رہ گئی جس کے لیے غالب نے کہہ رکھا ہے کہ
’دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا۔‘
خان آف قلات کی کتاب ’انسائیڈ بلوچستان‘ کے مطابق اس زمانے میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح، مسلم لیگ کے صدر خان عبدالقیوم خان اور ایک برس پہلے تک ملک کے وزیر اعظم اور مشرقی پاکستان کے قد آور رہنما حسین شہید سہروردی حزبِ اختلاف کی قیادت کر رہے تھے۔
قوم آئندہ عام انتخابات کی منتظر تھی اور نوکر شاہی کے ذریعے ایوان اقتدار میں جگہ بنا لینے والے صدر مملکت سکندر مرزا خطرہ محسوس کرتے تھے کہ ان بڑے راہنماؤں کے مقابلے میں ان کی دال آسانی کے ساتھ گلنے والی نہیں۔
اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے سکندر مرزا نے ایک منصوبہ ترتیب دیا جس میں ایک کردار نواب آف بھوپال کو ایک خان آف قلات کو ادا کرنا تھا۔
یہ 1957 کی گرمیوں کی بات ہے جب موسم کی شدت کے باعث بلوچستان کے صحرا تانبے کی طرح تپ رہے تھے۔ بالکل اسی طرح بلوچستان کی سابق ریاست قلات کے عوام، سرداروں اور بزرگوں کے دلوں میں بے چینی کی لہریں کروٹیں لے رہی تھیں اور وہ خطرہ محسوس کرتے تھے کہ آنے والے دنوں میں قلات کی مقامی روایات اور بلوچ ثقافت کی محض یادیں ہی باقی رہ جائیں گی جن کے تحفظ کی تحریری یقین دہانی خود قائد اعظم نے اس خطے کے عوام کو کرائی تھی۔
اس خطرے یا بالفاظ دیگر ان تحفظات کی بنیاد ون یونٹ کا وہ نظام تھا جسے دوام دینے کے لیے سرکاری حکام بعض اوقات کچھ ایسا طرز عمل اختیار کر لیتے جس سے مقامی آبادی پریشانی محسوس کرتی۔ خان آف قلات اپنی نجی محفلوں میں اکثر اس خیال کا اظہار کیا کرتے۔
کچھ عرصے بعد کے موسم سرما کی وہ ایک اُداس سی شام تھی جس میں خان آف قلات سے قائد اعظم کے ایک جونیئر ساتھی مرزا جواد بیگ کی ملاقات ہوئی۔ان دنوں کراچی میں سردی خوب پڑا کرتی تھی جس سے بچنے کے لیے لوگ اوور کوٹ بھی پہن لیا کرتے۔
اس شام خان آف قلات بھی اوور کوٹ میں تھے۔ ان کے سر پر ٹوپی تھی جو انھوں نے اتار کر ایک طرف رکھی اور دکھ بھرے لہجے میں کہا
’دیکھ لینا مرزا! چور دروازوں سے آنے والوں کی ہوس اقتدار ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔‘
مرزا جواد بیگ نے ان دنوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہی دن تھے جب قلات اور بلوچستان کے بعض دیگر شہروں میں مقامی عمائدین اور قبائلی سرداروں کے درمیان مشاورت زوروں پر تھی اور خان آف قلات محسوس کرتے تھے کہ بلوچستان کے لوگوں کے اطمینان کے لیے اگر جلد ہی بامعنی اقدامات نہ کیے گئے توکسی بڑی پریشانی کو ٹالنا مشکل ہو جائے گا۔
دن گزرتے گئے اور بلوچستان کے صحراؤں کی دہکا دینے والی گرمی میں اعتدال پیدا ہوا۔
عین ان ہی دنوں میں قبائلی عمائدین کے ایک وفد نے قلات میں خان سے ملاقات کی اور انھیں اپنے تحفظات اور شکایات کے بارے میں چھ نکاتی میمورنڈم پیش کیا جس میں انھیں یاد دہانی کرائی گئی کہ 1948 میں ریاست قلات کے پاکستان میں انضمام کے وقت قائد اعظم نے آپ کو یقین دہائی کرائی تھی کہ مقامی ثقافت اور روایات کا احترام کیا جائے گا اورانھیں برقرار رکھا جائے گا لیکن بدقسمتی سے اب صورت حال اس کے برعکس ہے۔
اس طرح کی ملاقاتو ں کا سلسلہ آنے والے دنوں میں بھی جاری رہا، یہاں تک کہ آٹھ اکتوبر 1957 کو بلوچستان کے 44 قبائلی سرداروں کا ایک وفد خان آف قلات کی قیادت میں صدر اسکند ر مرزا سے ملا اور انھیں وہ یاداشت پیش کی جس کی تیاری کا عمل کئی ماہ قبل شروع ہو چکا تھا۔
سکندر مرزا نے ان مطالبات پر ہمدردی سے غور کرنے کا وعدہ کیا اور خان آف قلات کوکچھ بڑے اقدامات کے لیے قانونی مشاورت کرنے کی ہدایت کی۔ وفد اٹھ کر جانے لگا تو صدر اسکندر مرزا نے خان آف قلات سے درخواست کی کہ وہ ان کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے ان کے ہاں قیام کریں۔ اس طرح خان آف قلات آئندہ پندرہ روز یعنی سات سے 20 اکتوبر 1957ء تک اُن کے مہمان کی حیثیت سے ایوان صدر میں مقیم رہے۔
یہی وہ پندرہ دن ہیں جن میں سکندر مرزا کے ذہن میں پرورش کرنے والے منصوبے پر عمل درآمد کے بظاہر آثار پیدا ہونے لگے۔
سکندر مرزا نے اپنی بات کا آغاز خان آف قلات کی دکھتی رگ یعنی ان کی سابق ریاست اور ون یونٹ کے ساتھ اس کے تعلقات سے کیا۔ اسکندر مرزا نے خان آف قلات سے برطانیہ کے ایک بڑے قانونی ماہرلارڈ میک نایئر کا ذکر کیا اور مشورہ دیا کہ وہ ان سے ملاقات کریں اور مشورہ کریں کہ سابق ریاست قلات کو ون یونٹ سے علیحدہ کرنے کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟
خان آف قلات کو یہ مشورہ مناسب لگا اور وہ لندن جانے پر آمادہ ہو گئے( اس سفر کے لیے سکندر مرزا نے خان اعظم کو کثیر مقدار میں زرمبادلہ بھی فراہم کیا)۔
سکندر مرزا نے جب محسوس کیا کہ خان آف قلات اب شیشے میں مکمل طور پر اتر چکے ہیں تو انھوں نے بات آگے بڑھائی۔
خان آف قلات کی کتاب ’انسائیڈ بلوچستان‘ میں تحریر ہے کہ سکندر مرزا نے کہا کہ ’انتخابات سر پر آ چکے ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں آئندہ مدت کے لیے بھی صدر بننے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن انتخابی مہم چلانے کے لیے جس سرمائے کی ضرورت ہے، وہ میرے پاس نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اگر آپ اپنی طرف سے پچاس لاکھ روپے کا عطیہ دے دیں تو آسانی ہو جائے گی۔‘
اس سے پہلے کہ خان آف قلات کچھ جواب دیتے ہیں سکندر مرزا نے اپنے دل کی پوری بات ان کے سامنے رکھ دی اور کہا کہ آپ بہاول پور اور خیر پور کی سابق ریاستوں کے حکمرانوں پر دباؤ ڈال کر ان سے بھی بالترتیب چالیس اور دس لاکھ روپے انھیں دلوا دیں۔ اس کے جواب میں وہ صدر بنتے ہی ان کی ریاست( قلات) کے علاوہ بہاول پور اور خیر پورکی ریاستوں کو بھی ون یونٹ سے الگ کر دیں گے۔
اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس ملاقات میں آنے والے دنوں میں سابق ریاستوں کی قانونی پوزیشن اور مستقبل کے انتخابات کے سلسلے میں امکانی مشکلات پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا ہوگا۔
خان آف قلات نے لکھا ہے کہ اُن کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ سکندر مرزا کے لیے صدرات کی آئندہ مدت صرف اسی صورت میں یقینی بنائی جا سکتی ہے اگر وہ ملک کے مقبول سیاست دانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوستی میں بدل دیں مگر سکندر مرزا کو یہ مشورہ پسند نہ آیا کیوں کہ وہ ٹھان چکے تھے کہ اگر انتخابات کے نتائج کا ان کی مرضی کے مطابق آنے کا امکان نہ ہوا تو وہ مارشل لا لگانے سے گریز نہیں کریں گے۔
مشاورت کا یہ سلسلہ طوالت اختیار کر گیا اور اس موضوع پر تنہائی میں ہونے والی ایک ملاقات میں سکندر مرزا نے انکشاف کیا کہ انھوں نے بھوپال کے نواب کو پاکستان آنے کی دعوت اور انھیں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کی پیشکش کی ہے اور اس طرح وہ خود صدر بن جائیں گے اور ملک میں مارشل لا لگا دیا جائے گا جس کا نفاذ اس وقت تک رہے گا جب تک انتخابات کے نتائج ان کی مرضی کے مطابق نہیں آ جاتے۔
خان آف قلات نے لکھا ہے کہ یہ بات سن کر وہ سخت حیرت میں آ گئے اور انھوں نے سوال کیا کہ کیا انھوں (سکندر مرزا) نے اس سلسلے میں کمانڈر انچیف (اس زمانے میں فوج کے سربراہ کو چیف آف آرمی اسٹاف نہیں کہا جاتا تھا) کو اعتماد میں لے لیا ہے؟ کیوں کہ فوج کا مکمل کنٹرول تو اُن کے ہاتھ میں ہے۔
سکندر مرزا کا جواب پہلے سے بھی زیادہ حیران کر دینے والا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر ایوب خان نے ان کے راستے میں آنے کی کوشش کی تو وقت ضائع کیے بغیر انھیں ختم کر دیا جائے گا۔‘
اسی شام خان آف قلات کی کسی پارٹی میں ایوب خان سے ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے ان سے پشتو میں بات کی اور سکندر مرزا کے منصوبے کی طرف اشارہ کیا۔ خان کے مطابق یہ سن کر ایوب خان کا چہرہ سرخ ہو گیا اور انھوں نے کہا کہ وہ آخری آدمی ہوں گے جو صدر مملکت کو ایسا کرنے کا مشورہ دیں گے۔
اگلے ہی روز بھوپال کے نواب سر حمید اللہ خان کراچی میں تھے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعتماد کا وہ کون سا رشتہ تھا جس کی بنیاد پر سکندر مرزا نے خان آف قلات کو اپنا راز دار بنایا اور بھوپال کے نواب کو ملک کا سب سے اہم منصب سونپنے کا فیصلہ کیا؟
سابق سیکریٹری خارجہ پاکستان اور نواب صاحب کے نواسے شہر یار ایم خان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ان دونوں خاندانوں کے درمیان پرانی دوستی کا رشتہ تھا۔ نواب صاحب جب بھی پاکستان آئے، انھوں نے سکندر مرزا کے ہاں کی قیام کیا۔ اسی طرح اسکندر مرزا بھی آرام کرنے کے لیے کراچی کے علاقے ملیر میں واقع نواب صاحب کے فارم ہاؤس کا رخ کرتے جو انھوں نے قیام پاکستان کے زمانے میں خریدا تھا۔
گویا یہ تعلق برصغیر پاک و ہند کی سابق ریاستوں کے حکمراں خاندانوں (یعنی بھوپال کے نواب حمید اللہ خان اور مرشد آباد کے حکمرانوں کے چشم و چراغ سکندر مرزا) کے درمیان تھا۔ بالکل اسی طرح خان آف قلات بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے اور بھوپال کے نواب کے درمیان پرانے دوستانہ بلکہ برادرانہ تعلقات تھے جن میں کوئی تکلف اور رکھ رکھاؤ حائل نہیں تھا۔
یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مرشد آباد کے سابق حکمراں خاندان سے تعلق رکھنے والے سکندر مرزا کو بھوپال اور قلات کے ان دو خاندانوں کے باہمی تعلقات کی اس نوعیت کا علم نہ ہو۔ اسی وجہ سے انھوں نے اپنے مستقبل کے سیاسی منصوبے میں رنگ بھرنے کے لیے انھیں بھی اعتماد میں لے لیا۔
یہی سبب تھا کہ بھوپال کے نواب نے کراچی پہنچتے ہی قلات کے خان سے ملاقات کی اور سکندر مرزا کی طرف سے کی جانے والی پیشکش پر ان سے مشورہ کیا۔ اس ملاقات میں قلات کے خان اور بھوپال کے نواب کے درمیان ہونے والے مکالمے کی تفصیل بھی ’انسائیڈ بلوچستان‘ میں ملتی ہے۔
کتاب میں لکھا ہے کہ وہ دونوں وقت ضائع کیے بغیر اصل موضوع پر آگئے اور مہمان سے انھوں نے اُن کے دورہ پاکستان کی نوعیت کے بارے میں سوال کیا۔
نواب آف بھوپال: ’میرے یہاں آنے کا مقصد وہ سکیم ہے جس میں میرا نام شامل کیا گیا ہے۔ میں نے سکندر مرزا کی پیشکش قبول کر لی ہے اور اب میں چاہتا ہوں کہ اس سکیم کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کروں۔‘
خان آف قلات: ’صورتحال مختلف بھی تو ہو سکتی ہے کیونکہ (میری رائے میں) آپ کا نام سکیم میں محض اس لیے شامل کیا گیا ہے تاکہ وہ (سکندر مرزا) اپنا مفاد حاصل کر سکیں۔‘ (نواب اس انکشاف پر حیران رہ گئے)۔
نواب آف بھوپال: ’اگر یہ بات ہے تو پھر میرا اس سکیم سے کوئی تعلق نہیں جو صدر کے ذہن میں ہے۔‘
خان آف قلات نے لکھا ہے کہ اس مکالمے کے بعد معاملات واضح ہو گئے اور میں نے اعتماد میں لیتے ہوئے انھیں بتایا کہ سکندر مرزا اقتدار سے محرومی کے خوف کی وجہ سے کس طرح کے انتظامی اقدامات اور سازشوں میں مصروف ہیں۔
خان آف قلات نے انھیں اقتدار کی کشمکش میں شریک سیاسی جماعتوں کی دھڑے بندی کی تفصیلات کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ اقتدار میں سکندر مرزا کے دن اب گنے چنے ہیں، انھیں بہت جلد منصب صدارت سے علیحدہ کیا جانے والا ہے اور وہ خود کو اس انجام سے بچانے کے لیے ہم دونوں کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔
ان انکشافات پر نواب صاحب نے خان آف قلات کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’اللہ کا شکر ہے کہ آپ سے میری ملاقات پہلے ہو گئی اور مجھے منصوبے کے اس پہلو پر بھی غور کرنے کا موقع ملا۔‘
سابق ریاستوں کے ان دونوں حکمرانوں کے درمیان سکندر مرزا کے منصوبے پر گفتگو کے دوران نواب آف بھوپال کو انڈین حکومت کی طرف سے حاصل ہونے والے دو ملین روپے (سالانہ) کے شاہانہ الاؤنس، احترام، اعزازات اور مراعات کے علاوہ برطانیہ میں ان کے وسیع کاروبار کا ذکر بھی ہوا۔
اس کے علاوہ یہ یقینی امکان بھی زیر بحث آیا کہ سکندر مرزا کی طرف سے کی جانے والی بظاہر پرکشش پیشکش کو قبول کرنے کی صورت میں وہ ان سب چیزوں سے محروم ہو جائیں گے جب کہ سکندر مرزا کی سکیم کی کامیابی کا بھی کوئی خاص امکان نہیں ہے۔
اگلے روز نواب آف بھوپال سکندر مرزا سے ملے تو انھوں نے اس موقع پر خان آف قلات سے ہونے والی گفتگو کا نہ صرف یہ کہ کوئی حوالہ اس میں نہیں دیا بلکہ محض ذاتی اقتدار کو بچانے کے لیے تیار کیے گئے اس بچگانہ کھیل پر بھی کسی ناپسندیدگی کا اظہار بھی نہیں کیا بلکہ اُن سے درخواست کی کہ وہ انھیں کچھ وقت دیں تاکہ وہ لندن میں اپنے کاروبار اور انڈیا میں اپنی جائیداد کے معاملات کو مناسب طریقے سے نمٹا سکیں۔
نواب آف بھوپال کی انڈیا روانگی سے اگلے روز خان آف قلات اور سکندر مرزا کے درمیان ملاقات ہوئی جو تین سے چار گھنٹے تک جاری رہی۔ اس موقع پر سکندر مرزا نے خان کو بتایا کہ نواب ان سے اپریل 1958 میں وطن واپسی کا وعدہ کر کے گئے ہیں۔ اسکندر مرزا سے شبہ ظاہر کیا کہ معلوم نہیں کہ وہ آتے بھی ہیں یا نہیں جس پر خان آف قلات نے انھیں تسلی دی۔
پاکستانی سیاست کی اس سنسنی خیز اور ڈرامائی کہانی کا انکشاف خان آف قلات نے اپنی کتاب میں کیا جو 1975 میں شائع ہوئی۔ یہ تمام واقعات چونکہ صرف تین شخصیات کے درمیان تھے، اس لیے ان واقعات پر خاموشی کا پردہ پڑا رہا۔
نواب آف بھوپال نے تو سکندر مرزا کے منصوبے سے دوری اختیار کر لی لیکن سکندر مرزا اپنی خواہشات پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ اپنے منصوبے کے عین مطابق انھوں نے مارشل لا بھی نافذ کیا لیکن وہ اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گئے۔
اس کے بعد تو دنیا ہی بدل گئی اور نواب صاحب کے خاندان نے پاکستان میں بڑے بڑے منصب حاصل کیے۔ ان میں ایک شہر یار ایم خان بھی ہیں جو سیکریٹری خارجہ پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے۔
بی بی سی نے ان سے جب ان دلچسپ تاریخی واقعات کے بارے میں سوال کیا تو ایک بھرپور قیلولے کے بعد شام کی نسبتاً معتدل ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اس بزرگ شخصیت کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور انھوں نے تصدیق کی کہ
‘جی ہاں، نواب صاحب کو یہ پیشکش کی گئی تھی۔’
اس کے بعد کی کہانی یہ ہے کہ سکندر مرزا نے اپنی اس ناکامی کا غصہ خان آف قلات پر اتارا۔ انھیں لاہور کی ایک جیل میں بند کر دیا اور اس سے قبل رات کی تاریکی میں حملہ کر کے قلات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اس آپریشن میں کئی افراد ہلاک بھی ہوئے۔
خان آف قلات پر الزام تھا کہ وہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازش میں مصروف تھے۔ ڈاکٹر محمد وسیم سکندر مرزا کے الزامات کو مسترد کرتے اپنی کتاب ’پولیٹکس اینڈ دی سٹیٹ اِن پاکستان‘ میں ان تمام واقعات کو مارشل لا کے نفاذ کا بہانہ قرار دیتے ہیں۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)