قرۃ العین حیدر، نامور اردو ادیبہ

آرٹ ہے نہ کلچر بھیا، سب سے بڑا روپیا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قرة العین حیدر نے لکھا:
ہندوستان کے نامی گرامی مصوّروں کے حلقے میں میں نے جس آپا دھاپی کا مشاہدہ کیا اور ان میں سے اکثر کو megalomania یعنی اپنی ذات سے شدید عقیدت میں مبتلا دیکھا۔ اس وجہ سے میں نے ان میں سے اکثر کو پرکشش نہیں پایا۔

” میں ساہتیہ اکادمی کی نمائندہ کی حیثیت سے ایک سال للت کلا اکادمی کی ممبر رہی وہاں بھی آرٹسٹوں کی آپسی چشمکوں کے پیچھے سارا کھیل پیسے کا ہے کیوں کہ آج کل ایک ایک پینٹنگ لاکھوں روپے میں بکتی ہے۔ آرٹ ہے نہ کلچر بھیا۔ سب سے بڑا روپیا۔

پرفارمنگ آرٹسٹوں سے میری Empathy کی وجہ محض یہی نہیں ہے کہ میں کلاسیکل سنگیت سیکھ چکی ہوں اور ہمارے ہاں کلاسیکل موسیقی کا بہت چرچا رہا ہے۔ (ہمارے ہاں بیگمات طوائفوں سے پردہ کرتی تھیں۔ میں نے اس موضوع پر ایک تقریباً سچی کہانی بعنوان ”جن بولو تارا تارا“ لکھی تھی لیکن میراثنیں زنان خانے کے کلچر کا ایک جزو تھیں)۔ مجھے ان ماہرینِ فن میں سے اکثر کی کسمپرسی نے اپنی طرف توجہ کیا ہے۔

مثال کے طور پر بھانڈ۔۔۔ جو کتنے بڑے فنکار تھے لیکن ”بھانڈ ڈوم دھاڑی“ ہمارے ہاں ذلالت کے محاورے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ خستہ حال قوال بھی ٹاٹ باہر سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ایک قوال پارٹی کامیاب ہو جائے تو ان کو عزت مل جاتی ہے۔ امریکا اور کینیڈا میں دھوم مچاتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ میں نے بڑے بڑے موسیقاروں کو مصوروں اور بعض مدمغ اہلِ قلم کے برعکس بے حد منکسر المزاج پایا۔ استاد بسم اللہ خان، استاد امین الدین ڈاگر، استاد منور علی خان، استاد بڑے آغا، استاد لطافت حسین خان، استاد اسد علی خان صاحب، پنڈت روی شنکر، استاد اللہ رکھا اور بہت سے۔

میں استادوں اور سازندوں کے حالات سے واقف ہوں۔ سبھی موسیقار فائیو اسٹار ہوٹلوں میں نہیں ٹھہرتے نہ لندن اور پیرس میں کونسرٹ دیتے ہیں۔ بے حد خوشی کی بات یہ ہے کہ اب درباروں سے نکل کر عام معاشرے میں بھی ان کی پذیرائی کی جاتی ہے اور ان کو عزت حاصل ہے لیکن سماج کے کنارے پر بسنے والے کلا کار، میراثی، ڈومنیاں، بھاٹ، نوٹنکی اور سرکس والے۔ ان کو کون پوچھتا ہے۔ بھانڈ تو معدوم ہو چکے۔ چند افراد جو مشہور استادوں کے بیٹے اعلیٰ مغربی تعلیم حاصل کر چکے ہیں، اب اپنے آپ کو گویوں کی اولاد نہیں بتاتے۔

ہمارے معاشرے کا قدیم کاسٹ سسٹم اس رویے کی عمرانی بنیاد ہے۔ ایک نامور گائیکہ جو گندھروکاسٹ (پاتر) سے تعلق رکھتی تھیں ان کی بیٹی اب ایک یونیورسٹی گریجویٹ خاتون ہیں۔ میری ایک بلند پایہ موسیقار دوست شریمتی مالتی گیلانی جو استاد بڑے غلام علی خان کی شاگرد رشید رہ چکی ہیں، انہوں نے بڑے فخر سے ان خاتون کو لوگوں سے ملوایا کہ یہ فلاں نامور ٹھمری سنگر کی بیٹی ہیں۔
اس خاتون نے بعد میں مالتی سے کہا: پلیز ! آپ میرے بارے میں یہ نہ بتایا کریں۔

جب میں ” گردشِ رنگِ چمن “ کے لیے بیک گرائونڈ ریسرچ کر رہی تھی تو چوک کے گلی کوچوں میں چند سابقہ مشہور گائیکائوں سے ملی۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا۔
”بیٹا ! ہم تو کبھی اس لائن میں رہے نہیں۔ آپ کو کیا بتا ویں۔“
پھر بھی میں نے اپنی تفتیشی صحافت کے تجربے کی بدولت کافی مٹیریل جمع کر ہی لیا۔

گویا ایک نا معلوم سماجی Barrier پیشہ ور موسیقاروں اور عام سماج کے درمیان اب بھی موجود ہے تاوقتیکہ وہ بے حد شہرت اور دولت حاصل کرلیں۔ میں نے اپنے ناولٹ ” دلربا “ میں بھی معاشرے کی ان بدلتی ہوئی اقدار کو پیش کیا ہے۔ سارا کھیل پیسے اور گلیمر کا ہے۔ سابق کی چند خستہ حال لکھنوی میراثنیں اب لندن میں مقبول اور فیشن ایبل سنگرز ہیں اور ان کی سماجی حیثیت تبدیل ہو چکی ہے۔ مگر سبھی ایسے خوش قسمت نہیں۔“


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں