ابن فاضل :
انمول خزانوں کے سوئے ہوئے وارث (1)
شانکسی چین کا ایک صوبہ ہے جو اس کے تقریباً وسط میں واقع ہے. پہاڑی علاقہ اور سمندر سے دور ہونے کی وجہ سے یہاں صنعتی ترقی کی وہ رفتار نہیں جو چین کی مشرقی پٹی کی رہی. سو لوگوں میں خوشحالی آور آسودگی کی وہ سطح نہیں جو شنگھائی یا بیجنگ وغیرہ میں ہے.
آب وہوا اور علاقہ کی جغرافیائی صورتحال کے اعتبار سے وہاں حکام نے یہ محسوس کیا کہ یہاں ختن ہرن یعنی نافہ کی پرورش ہوسکتی ہے. یاد رہے کہ ہرن وہ ہے جس کی ناف سے دنیا کی مہنگی ترین خوشبو مشک یا کستوری نکلتی ہے.
چنانچہ 1994 میں 400 الپائن ہرنوں کا ایک فارم بنایا گیا جہاں ہرنوں کی نسل کشی ان سے فی کس زیادہ سے زیادہ کستوری حاصل کرے اور انہیں بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے تجربات کیے جاتے رہے.
ان تجربات سے حاصل کیے گیے علم کی بنیاد پر آج دوہزار انیس میں صرف شانکسی صوبے میں چودہ ہزار ہرن ہیں جن سے سال دوہزار اٹھارہ میں پاکستانی روپوں کے حساب سے ایک ارب روپے کی مشک حاصل کی گئی.
پاکستان کے پاس ایسا وسیع ورعریض علاقہ ہے جس میں قدرتی طور پر یہ ہرن پائے جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم نے ان کی نشوونما کی بجائے مشک حاصل کرنے کی غرض سے ان کا اندھا دھند شکار کیا.
مکمل اعدادوشماراتو دستیاب نہیں لیکن آزاد کشمیر کے مچائرہ نیشنل پارک میں 2006 میں کئی گئی ہرن شماری کے مطابق وہاں ساٹھ ہرن تھے. اگر اسی تناسب سے باقی علاقوں پر بھی تصور کرلیا جائے تو سارے شمالی علاقہ جات میں ہزار بارہ سو ہونے چاہئیں.
اب اگر ہم بھی شانکسی کی طرز کا کوئی فارم اور نسل کشی کا مرکز بنا لیں اور پوری محنت اور جانفشانی سے کام کریں تو دس پندرہ سال میں ہمارے پاس بھی بیس تیس ہزار ہرن ہوسکتے ہیں. جو اربوں روپے کے زرمبادلہ کا ذریعہ بن سکتے ہیں.
بیجنگ سے دیوار چین کے لیے جاتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ پہاڑی نالوں کو چینیوں نے بالکل سیڑھی کی شکل دے رکھی تھی. یعنی اس کی ڈھلوان کے اعتبار سے سو دوسو میٹر کے بعد پتھروں کی دیوار اور باقی حصہ سیدھا. پھر اسی طرح سودو میٹر پر دیوار اور پھر سیدھا. اس طرح تاحد نگاہ پانی کے تالاب اور آبشاریں بن گئی تھیں. جیسا کہ تصویر میں دکھایا گیا ہے.
ان تالابوں میں وہ مچھلیاں اور بطخیں پالتے ہیں. ہمارے پہاڑی علاقوں میں ایسے ہزاروں تالاب بنائے جاسکتے ہیں. جن میں ٹرائوٹ تک پالی جاسکتی ہے اور ملک بھر کو سپلائی کی جاسکتی ہیں. اسی طرح بطخ کا گوشت اور انڈے بھی.
کہاں ویت نام ہزاروں میل دور وہاں سے مچھلی پراسس اور فریز ہوکر کدھر کراچی آتی ہے پھر وہاں سے پورے ملک میں پہنچائی جاتی ہے. تو یہ سوات اور گلگت سے لاہور کراچی کیوں نہیں جاسکتی. تھوڑی محنت تو کرنا پڑیگی نا خوشحال ہونے کیلیے.
سی بک تھورن (sea buckthorn) ایک چھوٹا سا جھاڑی نما پودا ہوتا ہے جسے فارسی میں سنجد کہا جاتا ہے. جس پر پیلے رنگ کے چھوٹا سا بیر نما پھل لگتا ہے. اس پھل کو سی بیریز ( sea barriers) کہتے ہیں. ان سی بیریز اور اس کے بیجوں میں سے ایک تیل نکلتا ہے۔
بنی نوع انسان زمانہ قبل مسیح سے اس تیل سے واقف ہے. شروع میں اسے جانوروں کے علاج اور بعد میں انسانی زخموں اور درد وغیرہ کے علاج کیلیے استعمال کیا جاتا رہا ہے.قدیم چین، منگولیا اور موجودہ روس کے قدیم باسی ہزاروں سال سے اس کا استعمال بطور ادویات کرتے آئے ہیں.
عہد حاضر کے جدید سائنسی دور میں جب سائنسدانوں کا دھیان اس کی طرف پڑا اور انہوں نے اس تیل کے تجزیات کیے تو انہیں ہوشربا نتائج ملے. اس سیبک تھورن کے تیل میں ایک سو بانوے عامل کیمیائی اجزاء ہیں جو انسانی جسم اور اس میں بیماریوں سے ہوئی شکست وریخت کو مندمل کرنے میں بے حد فائدہ مند ہیں. ان اجزاء میں اومیگا تھری، سکس اور نائن، (یاد رہے کہ دنیا کا اب تک دریافت ہونے واحد تیل ہے جس میں یہ تینوں ایک ساتھ پائے جاتے ہیں) . پولی فینولز، فلیونائڈز، وٹامنز ،گلائکوسائڈ، کےچین اور نامعلوم کیا کیا پایا جاتا ہے.
سن 2002 میں جب پہلی بار پتہ چلا کہ اس تیل میں موجود کچھ سیکنڈری میٹابولائٹس نہ صرف یہ کہ سرطان کے مریضوں کی کیموتھراپی سے ہوئی جسمانی کمزوری کو دور کرنے میں بہت اہم ہیں بلکہ کچھ طرح کے سرطان بطور خاص چھاتی کے سرطان کا سریع علاج بھی ہیں، تب سے اس تیل کی اہمیت اور مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے. صرف سرطان ہی نہیں، دل کے پٹھوں، معدے کے السر اور جلد کی خطرناک بیماریوں کے علاج کے لیے کیے گئے تجربات بھی زبردست نتائج کے حامل رہے.
انسانی صحت کے اس قدر زبردست خواص کا حامل یہ پودا چار ہزار سے چودہ ہزار فٹ بلندی والے پہاڑی علاقوں میں پرورش پاتا ہے. قدرت نے اس میں ایک اور بھی زبردست خوبی رکھی ہے. اس کی جڑیں بہت لمبی اور مضبوط ہوتی ہیں. اس خوبی کی بنا پر یہ لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے بہاؤ کو روکتا ہے. اس کی اس خوبی کا استعمال کرتے ہوئے اس کی کاشت بہت سے ایسے زبردست ڈھلوان والے پہاڑی علاقوں میں بھی ممکن ہے جہاں اور کوئی درخت نہیں ٹھہرسکتا. مزید برآں اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ خوبی بھی رکھی ہے کہ اس کی جڑیں زمین میں نائٹروجن کی کے مرکبات چھوڑتی ہیں جس سے بنجر زمین بھی قابل استعمال ہوجاتی ہے.
اس کی اس قدر خوبیوں کو دیکھتے ہوئے چین میں اس پر تحقیق کے لیے ایک مکمل ادارہ
International Center for Research and Training on Sea buckthorn (ICRTS).
بنایا گیا ہے. صرف چین کے ایک حصے میں اس کی کاشت پانچ لاکھ ایکڑ پر کی گئی ہے.
آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ یہ پودا پاکستان میں بھی پایا جاتا ہے. گلگت بلتستان، چترال اور بطور خاص ہنزہ میں. مقامی زبانوں میں اسے میرغنز اور بورو کہتے ہیں. لیکن ہم نہ صرف اس کی اہمیت سے ناواقف ہیں بلکہ اس کے تیل اور پھل سے قیمتی مفید اشیاء علیحدہ کرنے کا علم اور ہنر بھی نہیں رکھتے. جو تھوڑا بہت پھل اکٹھا ہوتا اس کو خشک کرکے انتہائی سستے داموں یورپ بھیجتے ہیں جس سے وہاں لاکھوں ڈالر فی کلو والی ادویات تیار کی جاتی ہیں.
عالمی منڈی میں اس کے غیر مصفہ تیل کی قیمت ساڑھے تین سو ڈالر فی کلوگرام یعنی تقریباً پچپن ہزار روپے پاکستانی ہے. جبکہ اس کے پھل اور پتوں سے نکالے گئے ست سے علیحدہ کیے گئے فلیونائڈز لاکھوں ڈالر فی کلوگرام قیمت رکھتے ہیں. ایک ایکڑ سے دیڑھ سو کل بیج حاصل ہوتا ہے جس میں سے بیس سے پچیس کلو تیل نکلتا ہے.
سوال یہ ہے کہ اور قدرت اب ہمیں ڈالر بوریوں میں بھر کر آسمان سے پھینکے تب ہی ہم خوشحال ہوں گے.